وفاقی کابینہ کے اجلاس میں وزیراعظم عمران خان نے سینیٹ انتخابات مارچ کی بجائے فروری میں کرانے اور خفیہ رائے شماری کی بجائے شو آف ہینڈ کے ذریعے کرانے کا اعلان کیا ہے۔ چونکہ اس حوالے سے آئین کی دفعہ 226 کے تحت صرف وزیراعظم اور وزرائے اعلی کے انتخاب ہی شو آف ہینڈ سے ہو سکتے ہیں اس لئے حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس مقصد کیلئے سپریم کورٹ جائے گی تا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں شو آف ہینڈ کے ذریعے سینیٹ میں انتخابات کرا سکے۔ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کی اس تجویز کی مخالفت کر دی ہے۔سینیٹ میں اس وقت نگاہ دوڑائیں تو 52 سینیٹر گیارہ مارچ کو اپنی مدت پوری کر کے ریٹائرہو جائیں گے۔ ریٹائرہونے والے سینیٹرز میں سے 12 کا تعلق خیبرپختونخوا اور 12 ہی کا تعلق بلوچستان سے ہے جب کہ سندھ اور پنجاب کے گیارہ گیارہ سینیٹرز بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔سینیٹ سے جو اراکین اپنی مدت پوری کرکے ریٹائرہوں گے ان میں سب سے زیادہ کا تعلق پاکستان مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ریٹائر ہونے والے ن لیگی سینیٹرز میں سے گیارہ کا تعلق پنجاب سے ہے جب کہ بلوچستان، خیبرپختونخوا اور اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے دو، دو سینیٹرز ہیں۔سندھ کی حکمران جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹ سے سات اراکین ریٹائر ہوں گے اور ان سب کا تعلق سندھ سے ہی ہے۔پاکستان تحریک انصاف کی اتحادی جماعت ایم کیو ایم پاکستان سے تعلق رکھنے والے چار سینیٹرز بھی اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائرہو جائیں گے۔پی ڈی ایم میں شامل جمعیت العلمائے اسلام (ف) کے خیبرپختونخوا اور بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دو سینیٹرز بھی ریٹائر ہو جائیں گے۔ حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سات سینیٹرز بھی اپنی مدت پوری کرنے کے بعد ریٹائر ہو جائیں گے۔ پی ٹی آئی کے تمام سینیٹرز کا تعلق صوبہ خیبرپختونخوا سے ہے۔
نیشنل پارٹی کے دو، پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے دو اور جماعت اسلامی پاکستان کے ایک سینیٹر بھی ریٹائر ہو جائینگے۔ بلوچستان عوامی پارٹی کے تین، بی این پی مینگل کے ایک، عوامی نیشنل پارٹی کے ایک اوربلوچستان سے ایک آزاد سینیٹر یوسف بادینی بھی ریٹائر ہوجائیں گے۔سینیٹ میں موجود فاٹا کے بھی چار اراکین ریٹائر ہوں گے جن میں اورنگزیب اورکزئی،مومن آفریدی، ساجد طوری اور تاج آفریدی شامل ہیں۔ اسلام آباد کے بھی دو سینیٹرز ریٹائر ہوں گے جن میں راحیلہ مگسی اور یعقوب ناصر شامل ہیں۔ریٹائر ہونے والے سینیٹرز میں سے 34 کا تعلق اپوزیشن جماعتوں اور اٹھارہ کا تعلق حکمران جماعتوں سے ہے۔ پاکستان تحریک انصاف 2015 میں پہلی بار سینیٹ کی نمائندگی حاصل کرنے میں کامیاب ہو ئی تھی۔ اب چونکہ کے پی کے اور پنجاب میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہے تو فروری یا مارچ میں ہونے والے انتخابات میں تحریک انصاف اکثریتی پارٹی بنتی دکھائی دیتی ہے۔ خیر یہ تو اعدادو شمار ہیں کون اس میں آگے ہو گا اور کون اس ریس میں پیچھے رہ جائے گا یہ سینیٹ کے انتخاب کے بعد واضح ہو جائے گا ۔ لیکن حکومت نے شو آف ہینڈ کے ذریعے الیکشن کرانے کی تجویز دے کر اپوزیشن جماعتوں کی منافقت آشکار کر دی ہے ۔یہی مسلم لیگ ن تھی جب چیئرمین سینیٹ کا انتخاب تھا تو یہ ایوان میں اکثریت کے باوجود اپنا امیدوار منتخب کرانے میں ناکام رہی تھی اور اب اگر حکومت نے تجویز دی ہے کہ شو آف ہینڈ کرایا جائے تو یہی مسلم لیگ ن ہے جو کہہ رہی ہے کہ نہیں ہم خفیہ بیلٹ کے ذریعے ہی سینیٹ کے الیکشن میں جائیں گے، یہ منافقت والا رویہ سیاسی جماعتوں خصوصا اپوزیشن کی جانب سے سمجھ سے بالا تر ہے ۔مریم نواز کہتی ہیں حکومت شو آف ہینڈ کے ذریعے اپنے مقاصد حاصل کرنا چا ہ رہی ہے۔ایک بات تو طے شدہ ہے کہ لاہور کے جلسے کے بعد سے پی ڈی ایم خصوصا ن لیگ کے غبارے سے ہوا نکل چکی ہے جو لاہور کو اپنا قلعہ کہتے نہیں تھکتے تھے ۔مسلم لیگ کے اندرونی ذرائع یہ بتاتے ہیں کہ حمزہ شہباز اور شہباز شریف مریم نواز سے مختلف موقف رکھتے ہیں اور اسی وجہ سے لاہور کی تنظیم سازی پر کنٹرول رکھنے والے حمزہ شہباز کے متوالے لاہور کے جلسے میں دور دور تک نظر نہیں آئے۔ دوسری جانب بلاول چاہتے ہیں کہ سینیٹ انتخابات کے بعد استعفوں پر کوئی ٹھوس موقف اپنایا جائے کیوں کہ سندھ میں پیپلز پارٹی کی اکثریت ہے۔ اس کے سات اہم سینیٹر جن میں رحمن ملک، ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سلیم مانڈی والا،شیری رحمن اور زرداری کے وکیل فاروق ایچ نائیک بھی ریٹائرہونے والے سینیٹرز میں شامل ہیں۔ تو پیپلز پارٹی انہیں دوبارہ سینیٹ میں دیکھنا چاہتی ہے اس مقصد کیلئے اسمبلیوں میں موجود رہنا انتہائی ضروری ہے۔ بلاول بھٹو زرداری نے اس حوالے سے شہباز شریف سے جیل میں ملاقات کر کے ان کی رائے بھی لی اور ان کو سپیکر قومی اسمبلی کیخلاف تحریک عدم اعتماد کی پیشکش کی ہے جسے شہباز شریف نے رد کر دیا ہے اور شہباز شریف نے اسمبلی سے استعفوں والی بات کو فی الحال موخر کرنے کو ہی ترجیح دی ہے۔اب تک کی اپوزیشن کی سیاست سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ وہ استعفے دینے میں بالکل بھی سنجیدہ نہیں ہے ۔اپوزیشن یعنی پی ڈی ایم اور اس میں شامل جماعتوں کی یہ حکمت عملی ہے کہ استعفوں کا پریشر ڈال کر حکومت پر دبائو بڑھایا جائے اور سینیٹ کے انتخابات تک یہی کھیل کھیلا جائے ۔سینیٹ انتخابات کے بعد جا کر اگر استعفے دینے پڑیں تو دے دیئے جائیں لیکن سینیٹ میں سب ہی حصہ بقدر جثہ حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔دوسری جانب حالات گھمبیر ہوتے دکھائی دیتے ہیں کیوں کہ حکومت چاہتی ہے شو آف ہینڈ ہو اور اپوزیشن اس کی مخالفت کر رہی ہے ، حکومت چاہتی ہے ایک ماہ قبل انتخابات ہوں اپوزیشن کہتی ہے کہ حکومت راہ فرار اختیار کر رہی ہے۔ایسے میں حکومت نے سپریم کورٹ جانے کا اعلان کیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ سے ہدایت مانگیں جبکہ اٹارنی جنرل کہتے ہیں کہ ایسا آئینی طور پر ممکن ہی نہیں۔اگر اپوزیشن اور حکومت کے مابین حالات یونہی گو مگوکا شکار رہے‘ دونوں کسی بات پر متفق نہ ہوئے اورسیاسی فیصلے عدالتوں میں طے ہوئے تو مارچ کا مہینہ پاکستان کی سیاست کیلئے بھاری ثابت ہو سکتا ہے۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024