یہ ایک حقیقت ہے کہ وہی ملک ترقی کرتے ہیں جب وہ اپنے وسائل کو ذہانت کے ساتھ استعمال کرتے ہیں اور پیداوار بڑھانے کے لئے طویل المدت منصوبہ بندی کرتے ہیں جو ممالک معاشی طور پر ترقی یافتہ ہوتے ہیں وہ اپنی خارجہ پالیسی خود بناتے ہیں اور بیرونی دباؤ قبول نہیں کرتے۔ یہ ممالک ایک دوسرے ملک کی قیادت کے ساتھ رابطے میں رہتے ہیں یہ ممالک ایک دوسرے کی معاشی ترقی کے لیے مدد بھی کرتے ہیں۔
جن ملکوں کی معیشت توانا ہوتی ہے اور جس کی خارجہ پالیسی بیرونی اقدامات سے آزاد ہو انہی ممالک کی عالمی سطح پر حیثیت اور اہمیت ہوتی ہے۔ خارجہ پالیسی اور معیشت کی ناکامی قوموں کو تنہائی میں دھکیل دیتی ہیں۔ سفارتی تنہائی غیر ملکی سرمایہ کاری کے راستے میں رکاوٹ بن جاتی ہے۔
اس وقت پاکستان کی معاشی صورت حال یہ ہے کہ اس پر106.4 ارب ڈالر سے زیادہ کے بیرونی قرضے چڑھے ہوئے ہیں۔ پچھلی سہہ ماہی میں یہ قرضے 106.4 ارب ڈالر تھے۔ سعودی عرب ‘ متحدہ عرب امارات ‘ جاپان اور فرانس نے پاکستان کو قرضے فراہم کئے ہیں ہم امریکہ‘ آئی ایم ایف ‘ عالمی بنک‘ چین اورسکوک بانڈز بھی ہمارے قرضے میں اضافہ کا سبب ہیں چین سی پیک کے ذریعہ پاکستان کی معیشت میں ترقی کے لیے اپنا کردار ادا کررہا ہے۔ چین کی اپنی کمپنیاں بھی اپنا کردار ادا کررہی ہیں یہ بات اہم ہے کہ چین کی حکومت نے سی پیک کے تحت کام کرنے والی کمپنیوں کو فنڈر فراہم کئے ہیں۔ چین کی طرف سے 6.2 بلین ڈالر قرض کی مد میں دئیے گئے ہیں۔ یہ افسوس ناک بات ہے کہ پاکستان پر غیر ملکی قرضہ 106 ارب ڈالر سے زیادہ ہے جب کہ سٹیٹ بنک کے اعدادوشمار کے مطابق حکومت کے ذمہ بینک قرضہ کا حجم 31,780 ارب روپے ہے۔ پی ٹی آئی حکومت نے مزید 7509 ارب ڈالر قرض لیا ہے۔ معیشت کے ایک طالب علم کی حیثیت سے میرے لئے یہ صورت حال پریشان کن ہے۔ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی راستہ نہیں کہ ہم اپنی معیشت کو فروغ دیں۔ موجودہ صورت حال میں حکومت کو ایف اے ٹی ایف کے معاملے کو غیر سنجیدہ نہیں لینا چاہیے۔ اس وقت جب کہ ملک سفارتی تنہائی کا شکار ہے کہ ایف اے ٹی ایف کا پاکستان مخالف فیصلہ ہمارے لئے مزید مصائب پیدا کر دیگا۔ہمیں ایف اے ٹی ایف رکن ممالک سے اور دوسرے ملکوں سے مزید قرضے نہیں لینا چاہیے ان کے آگے کشکول لے کر نہیں جانا چاہیے ہماری معاشی ٹیم قرض لینے کے لیے باہر جاتی ہے۔ ہمیں بھکاری نہیں بننا چاہیے۔ ایک سٹڈی کے مطابق پاکستان کی معیشت مسلسل زوال کا شکار ہے جس کے باعث ہماری قومی پالیسیاں کمزوری کا شکار ہیں۔
چند ماہ پہلے حکومت نے ملائیشیاء کے ساتھ اپنی دوستی کا جشن منایا۔ یہ تاثر دیا گیا کہ پاکستان ترکی اور ملائیشیاء جب اکٹھے ہوں گے تو ایک نیا طاقت ور اسلامی بلاک وجود میں آئیگا۔ اس سلسلے میں حکومت نے بڑی خوشیاں منائیں اور اسے ایک اہم پیش رفت قرار دیا ۔ وزیراعظم کے بیرونی دورں کو سب سے اہم قرار دیا گیا اور کہا گیا کہ یہ حکومت کی ایک بڑی کامیابی ہے۔
حکومت کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مغربی ممالک ترکی کی ترقی اور اس کے ابھرتے ہوئے امیج سے زیادہ خوش نہیں مغربی ملکوں کو پاکستان اور ترکی کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات پر تحفظات ہیں سعودی عرب جو کہ پاکستان کو مالی امداد دینے والا اہم ملک ہے ۔ ملائیشیاء کانفرنس میں نہ جانے سے وزیراعظم کو ملائیشیاء کے وزیراعظم کے سامنے سبکی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور یہ تاثر عام ہورہا ہے کہ پاکستان ان ملکوں کے زیرنگین ہے جو اسے مالی امداد فراہم کررہے ہیں۔ وزیراعظم اور وزیر خارجہ دونوں ملائیشیاء میں ہونے والی کانفرنس میں نہیں جارہے ہیں ۔
یہ بھی بدقسمتی ہے کہ پاکستان کے بارے میں تاثر یہ ہے کہ وہ منی لانڈرنگ میں بھی ملوث ہے۔ ہماری خود مختاری پر اس وقت اس لئے سمجھوتہ ہورہا ہے کہ ہم معاشی طور پر کمزور ہیں۔ کاش ہمارے پاس چھ سو ڈالر ہوتے تو ہم دوسروں کے سامنے شرمندگی نہ اٹھاتے۔ہماری وزارت خارجہ وزیراعظم کو مناسب مشورہ نہیں دے سکی جس کی وجہ سے ملک کو اس صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ وزیراعظم پاکستان صدر طیب اردگان اور ملائیشیاء کے وزیراعظم کے درمیان ستمبر میں جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملائیشیاء کانفرنس کے بارے میں فیصلہ ہوا تھا۔ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے اس حساس معاملے میں غلط مشورے دئیے ہیں توقع ہے کہ اصل حقائق ضرور سامنے لائے جائیں گے اور شرمندگی کی صورتحال سے بچنے کیلئے مناسب سفارتی اقدامات اٹھائے جائیں گے۔جہاںتک ملائیشیاء کا تعلق ہے وہاں بھی منی لانڈرنگ ہوتی ہے ملائیشیاء نے پاکستان کو منی لانڈرنگ کوروکنے کیلئے امداد دینے کی پیشکش بھی کی ہے تاکہ سراغ لگایا جاسکے کہ وہ کون لوگ ہیں جنہوں نے ملائیشیاء میں منی لانڈرنگ کی ہے۔ اس سلسلے میں ایک پاکستانی نجی کمپنی دوبئی کی ایک کمپنی کے توسط سے خاموشی سے کام کررہی ہے کمپنی مہاترحکومت کو منی لانڈرنگ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کیلئے کام کررہی ہے۔ اسی سلسلے میں راقم جلد ہی معلومات شیئر کرے گا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ کوئی ملک بھی ملائیشیاء کو سربراہ کانفرنس منعقد کرنے سے نہیں روک سکا لیکن ہمیں اس کانفرنس میں شرکت سے روک دیا گیا ہے۔
1970ء کے بعد پاکستانی پاسپورٹ کی بیرون ملک عزت بہت زیادہ ہوگئی تھی لیکن بعد میں معاشی کمزوریوں اور دوسرے عوامل کے باعث اب پاکستانی پاسپورٹ قدرو منزلت وہ نہیں رہی۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024