آج ڈیوٹی کے بعد وہ اداس تھی۔ نہیں معلوم کہ بستر پر موجود وہ عورتیں ہیں یا بچہ پیدا کرنے والی مشینیں؟ اس سرکاری ہسپتال میں آنیوالی بیشتر عورتوں کے ساتھ آنے والے افراد / گھر والوں کا برتائو ایسا ہوتا جیسے برائلر مرغی سے انڈے وصو ل کر کے اسے تنگ پنجرے میں بہت سی اور مرغیوں کے ساتھ بند کر دینے والے دکاندار کا ۔ جو پنجرے سے باہر نکلتے پروں کو نوچ کر پھینک دیتا ہے۔ سات آٹھ بچے پیدا کر کے بھی وہ ناکارہ کہلانے والی عورت جو بیٹا پیدا نہیںکر پاتی پیلی پڑتی رنگت میں خون کی بوتل کا انتظار کررہی ہے لیکن خاوند بلڈ گروپ میچ ہونے کے باوجود خن دینے سے ہچکچا رہا ہے کہ سنا ہے کمزوری ہوسکتی ہے لیکن اس عورت کی نقاہت کا اندازہ کسی کو نہیں جس نے اب درد کی شدت کے باوجود کراہنا بھی چھوڑدیاہے۔ اکثر اوقات تو ڈاکٹر اور انتظامیہ کے اوپر چڑھائی کر دی جاتی ہے کہ خون کا بندوبست کروانا بھی آپکاکام ہے۔ بچہ پیدا ہونے کے بعد سبکو اسکی جنس اور صحت کا خیال ہے۔ مٹھائی بھی آ جاتی ہے لیکن سٹریچر پر پڑی اس عورت کو کسی مشین کی طرح فقط ’’آف‘‘ اور ’’کلوز‘‘ کر دیاجاتا ہے۔ شاید دو بولوہ بھی سننا چاہتی ہو شاید کوئی اس سے بھی پوچھ لے کہ تکلیف کتنی ہے درد کیسا ہے۔ اُس کا دھیان بار بار نجمہ کی طرف جا رہا تھا۔ آج اس کو پھر بیٹی ہوئی تھی۔ وہ اپنی تیمار داری خود ہی کر رہی تھی اور پھر وہ نجمی کے پاس چلی گئی۔ ’’باجی اگلی بار بھی میرا کیس آپ ہی کرو گی نا؟ اس نے معصومیت سے پوچھا۔ وہ حیرت سے نجمی کو دیکھنے لگی نجمی اس کی آنکھوں میں موجود سوال سمجھ گئی اور ایک پھیکی سی ہنسی ہنس دی۔ ’’باجی مجھے اس نو ماہ کے سفر کی بالکل تکلیف نہیں۔ درد اُس وقت ہوتا ہے جب وہ بیٹی کا چہرہ دیکھے بغیر چلا جاتا ہے۔تکلیف اس وقت ہوتی ہے جب کسی کو میری تکلیف کا احساس نہیں ہوتا۔ گھر میں پڑی مشین کو بھی آپ چھ ماہ میں ایک باراندر جھانک کر دیکھ لیتے ہیں کہ سب ٹھیک ہے یا نہیں۔ تومیرے آنسو اس وقت نکل آتے ہیں جب کوئی کبھی میرے جھانک کر دیکھنے کی کوشش نہیںکرتا۔ وہ گھبرا کر باہرآ گئی۔ اس نے دور سے دیکھا اسے ایسا محسوس ہوا کہ نجمہ سمیت وہاں موجود تمام عورتیں اپنے اندر ایک درد کے سیلاب کو روکے کھڑے ہیں۔ وہ سیلاب جو اگر آ بھی جائے تو کسی کو نظرنہیں آئے گا۔
بانی تحریکِ انصاف کو "جیل کی حقیقت" سمجھانے کی کوشش۔
Apr 19, 2024