ڈاکٹر مریم چغتائی
منکیرہ ضلع بھکر کی ایک اہم تحصیل ہے ۔یہ تحصیل پنجاب کی شیر گڑھ تحصیل کے بعد سب سے بڑی تحصیل ہے منکیرہ لاہور سے مغرب میں 320کلومیٹر کے فاصلے پو واقع ہے اس تحصیل کے مغرب میں دریائے سندھ اور مشرق میں دریائے جہلم اور چناب بہتے ہیں ۔مون سون کے موسم میں یہ سب دریا بہت تباہی پھیلاتے ہیں ۔یہ علاقہ زیادہ تر ریتلا ہے اور اس کے کچھ ھصے آبپاشی تھل نہر سے ہوتی ہے اور باقی علاقے میں آبپاشی کا انحصار قدرتی بارشوں پر ہے ۔لوگوں کا زیادہ تر ذریعہ معاش زراعت ہے جس کا انحصار بارشوں پر ہوتا ہے ۔جس سال بارشیں اچھی ہو جاتی ہیں اس سال فصل بھی اچھی ہو تی ہے اور یہاں کی ایک خاص بات یہ ہے کہ ہوامیں ریت ہوتی ہے اور تیز ہواﺅں کی وجہ سے ٹیلے بنتے اور ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے رہتے ہیں بعض فعہ ٹیلے ختم ہونے کی صورت میں صاف زمین بھی نکل آتی ہے اور یہ زمین بہت زرخیز ہوتی ہے۔جب ٹیلے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں تو بعض دفعہ سڑک کو بھی ڈھانپ لیتے ہیں جس سے مقامی آبادی کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہت ۔منکیرہ تاریخی اہمیت کی حامل تحصیل ہے ۔تاریخ کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ اکبر اعظم کے دور میں اس علاقے کے نام کے آثار ملتے ہیں اور محمد بن قاسم کے دور میں بھی اس علاقے کا نام موجود ہے اور فتح کرنے والے محمد بن قاسم کے جرنل عبدل اسود بن ظاہر کا نام تاریک کے صفحات پر محفوظ ہے ۔منکیرہ کے پہلے مسلمان گورنر کا نام احمد بن خوذیمہ ہے اور ان کی قبر منکیرہ کے قلعہ میں موجود ہے ۔آج کل منکیرہ و قلعہ کی حالت انتہائی خستہ ہے اور اس کی تمام دیواریں گر چکی ہیں ۔اب مقامی لوگوں نے اس جگہ پر قبضہ کر لیا ہے اور گھروں کی تعمیر کر لی ہے ۔حکومت کو چاہیے کہ اس تاریخی اہمیت کی حامل جگہ کو واگزار کرایا جائے اور محکمہ آثار قدیمہ اس تاریخی اہمیت کی جگہ کو اس کی اصل حالت میں بحال کرے ۔تاکہ مقامی اور بین الاقوامی سیاحوں کو متوجہ کیا جا سکے اور حاصل شدہ رقم سے مقامی لوگوں کو فائدہ پہنچا یا جا سکے ۔منکیرہ کا کل رقبہ آٹھ لاکھ تینتیس ہزار سات سو تیس فٹ ہے بارانی رقبہ چونسٹھ ہزار دو سوا کا ون فٹ ہے ۔15سے 20فیصد شہری آبادی ہے باقی سب دیہی آبادی ہے ۔صحت ،تعلیم اور سڑکوں کی حالت انتہائی خراب ہے ۔صحت کے مراکز میں ڈاکٹر موجود نہیں ہیں اور بعض جگہ ایک سکول سے دوسرے سکول کا فاصلہ 25کلومیٹر سے بھی زیادہ ہے ۔منکیرہ میں کل سکولوں کی تعداد 246ہے ۔یہ سب سکول مسجد مکتب ،پرائمری ،مڈل /ایلیمنٹری ،ہائی اور ہائر سکینڈری سکولوں کی تعداد دو ہے ۔ان سکولوں میں 84سکول طالبات کے لئے ہیں جن میں سے 14مڈل اور 70پرائمری سکول شامل ہیں ۔یہ شعبہ بہت سے مسائل کا شکار ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں ۔س علاقے کے سکول میں سب سے بڑا مسئلہ اساتذہ کی خالی آسامیاں ہیں دور افتادہ علاقہ ہونے کی وجہ سے یہاں پر کوئی آنا پسند نہیں کرتا اور جو اساتذہ یہاں خدمات انجام دے رہے ہیں و سفری سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے بہت پریشانی کا شکار ہیں ۔ایک تو سڑکوں کی حالت خراب اور دوسرا دن میں ایک دفعہ صبح سات بجے بس بھکر سے شیر گڑھ کے لئے نکلتی ہے اور واپسی ایک بجے ہوتی ہے اور شام 5سے 6بجے واپس پہنچتی ہے ۔اسی وجہ سے دوسرے علاقوں سے آنے والے اساتذہ کو اسی علاقے میں قیام کرنا پڑتا ہے اور دوسرا مسئلہ اس وقت این ٹی ایس کے تحت اسی علاقے سے اساتذہ کو منتخب کرنا ہے جس کی جگہ آسامی ہو ۔اب اس علاقے میں اتنے پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں جو اس نظام کے تحت امتحان پاس کر سکیں اور اپنے علاقے کے لوگوں کو تعلیم دے سکیں ۔حکومت کو چاہیے کہ ایسے علاقے جہاں پر پڑھے لکھے لوگ موجود نہ ہوں وہاں کوئی ایسا نظام وضع کریں کہ دوسرے علاقوں سے لوگوں کو زیادہ مراعات دے کر ان علاقوں میں اساتذہ کے طور پر خدمات کےلئے رضا مند کرسکیں ۔سکولوں کی عمارتوں کا نہ ہونا یا پھر انتہائی خستہ ہونا بھی ایک بہت اہم مسئلہ ہے زیادہ تر سکول بنیادی ڈھانچے سے ہی محروم ہیں اور کئی سکول ایک کمرے پر مشتمل ہیں یا پھر ایک درخت کے نیچے ایک استاد کے زیر سایہ چل رہے ہیں ۔سکولوں کے سروے میں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ یہاں معذور بچوں کی تعداد زیادہ ہے اور اس کی وجہ اس علاقے میں کزن میرج ہے جب سکولوں میں داخلے کی مہم شروع کی گئی تو پتہ چلا کہ یہاں کی ایک بستی یاوالا ہے ۔جہاں سکولوں سے باہر ایک سو چونسٹھ بچو ںکا سروے کیا گیا ان میں سے 47 بچے کسی نہ کسی معذوری کا شکار تھے ۔اسی طرح منکریہ کا ایک علاقہ ماہنی ہے جہاں سکول کافی دور ہیںاور اسی وجہ سے بچوں کو تین تین کلو میٹر تک پیدل کچے راستوں پرچل کر جانا پڑتا ہے ۔منکیرہ ،حیدر آؓاد ،ماہنی ،پتی بلندہ ،گوہر والا ،لٹن ،چک نمر6،ڈنگانہ۔