سوشلزم ایک پرانا نظریہ ہے جس کی بنیاد سیاسی طور پر یہ ہے کہ معاشرہ ریاست کو فرد پر فوقیت دی جائے اور اگر ریاست کا نظام بہتر طور پر چلانا ہے تو تمام طرح کے ملکیتی حقوق ریاست کے پاس ہونے چاہئیں اور فرد کو ریاست کے ایک آلہ کے طور پر استعمال کیا جانا چاہئے۔ سوشلزم کی آج تک کوئی ایسی واضح اور متعین تعریف نہیں کی جا سکی جس پر تمام اشتراکی مفکرین نے اتفاق کیا ہو۔ سوشلزم میں کوئی فرد ذاتی جائیداد نہیں رکھتا بلکہ کام کرتا ہے اور اپنا معاوضہ لے لیتا ہے۔ سوشلزم میں تمام جائیدادیں‘صنعتیں ‘ تجارتیں ریاست کی ملکیت ہوتی ہیں۔ ذوالفقار بھٹو نے بھی اسی راستہ پر چلنے کی کوشش کی لیکن زبردست ناکام ہوئے ۔ انہوں نے اپنے دور حکومت میں صنعتوں کو حکومتی ملکیت میں لے لیا لیکن اس کے بعد وہ صنعتیں آج تک دوبارہ چل نہ پائیں۔ سوشلزم ابتدا میں ایک سیاسی نظریہ تھا جس کا مقصد بادشاہوں کو مضبوط کرنا تھا اور آج بھی دنیا کے کچھ ممالک میں حکمران اس سے مضبوط ہوتے ہیں کیونکہ سوشلسٹ حکومت ایک مقرر اجرت فرد کو دینے کے بعد باقی سب دولت اپنے قابو میں رکھتی ہے۔ کارل مارکس نے بھی ایک متبادل سیاسی نظام پیش کیا جس کو سوشلزم کی برانچ کمیونزم کہا جاتا ہے۔ یہ نظریہ بڑے بڑے دعوؤں کے ساتھ پیش کیا گیا مگر حقیقت میں اس میں اتنے بڑے تضادات تھے کہ آتے ہی منہ کے بل جا گرا۔ جب اس نظام کو عملی زندگی میں لایا گیا تو اس میں جگہ جگہ غلطیاں نمایاں ہوئیں یہ نظام دنیا کے کئی ممالک میں بہت بری طرح فیل ہوا روس کا شمار ترقی یافتہ ممالک میں ہوتا ہے۔ 1922 سے 1991 ء تک وہاں دستور کے مطابق اشتراکیت کے اصول نافذ رہے۔ روس کو ترقی اور شہرت اسی زمانے میں ملی۔ 1922 سے 1944 تک کا دور سوشلزم کا ابتدائی دور کہلاتا ہے۔ اس دور میں پہلی بار سوشلسٹ اصول و افکار اور اس کے عملی مظاہرے سے دنیا کو متعارف کروایا گیا۔ دوسرا دور 1944 سے1991 ء روس کی ترقی کا دور دنیا میں تقریباً 30 ممالک نے اپنے یہاں سوشلزم کے اصولوں کو نافذ کیا۔ سوویت یونین یو ایس ایس آر کا قیام عمل میں آیا لیکن جس تیز رفتاری سے روس نے ترقی کے آسمان چھوئے اس سے زیادہ تیزی سے واپس زمین پر دھڑام سے آگرا اور زوال پذیر ہو گیا کیونکہ سوشلزم میں انسان کی معاشی ضرورتوں اور مسائل کا حل واقعی نہ تھا۔ اسی وجہ سے آخر زمانے میں اہل روس بھی اس نظام سے متنفر ہو گئے اور اعلان بغاوت کر دیا۔ آخر کار 26 دسمبر1991 ء کو سوشلزم نظام کا جنازہ روس سے اٹھا دیا گیا۔ انیسویں صدی میں مغربی تہذیب کو عروج حاصل ہوا۔ بہت سے باطل نظریات کو فروغ ملا۔ سیکولرازم نیشنلزم اور جمہوریت مادہ پرستی لادینیت قابل ذکر ہیں۔ سوشلزم بھی اسی دور کی پیداوار ہے۔ بعض استحصالی ذہن رکھنے والے لوگوں نے مفکرین کی پشت پناہی سے دنیا کے ایک بڑے حصہ کو متاثر کیا حتیٰ کہ مسلم ممالک کی سیاسی پالیسیوں میں سوشلسٹ افکار آئے لیکن اس کے نظریہ اور اس کے اصولوں میں استحکام نہ ہونے کی وجہ سے اس کی جڑ اکھڑ گئی جس کی عملی مثال حقیقی شہادت سوویت یونین ہے ستر اسی سال میں سوشلسٹ انقلاب آیا اور اسی مختصر عرصہ میں اس کا وجود تمام ممالک سے مٹ بھی گیا۔ آج دنیا میں صرف پانچ ممالک ایسے رہ گئے ہیں جہاں سرکاری طور پر سوشلزم موجود ہے۔سوشلزم نے دنیا کو کیا دیا۔ اس کے داعی اور مرکز روس جو سوویت یونین کہلاتا تھا کے خاتمہ پر روسی صدر نے کہا کاش اشتراکیت کا تجربہ روس جیسے عظیم ملک میں کرنے کی بجائے افریقہ کے کسی چھوٹے ملک میں کر لیا جاتا تو اس کی تباہ کاریوں کو جاننے کے لئے 74 سال نہ لگتے۔ اسی طرح مشرقی جرمنی میں لوگوں نے دیوار برلن کو توڑ کر اشتراکیت کی ناکامی کا عملاً اعتراف کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا کے جتنے نظام لاگو ہوئے بادشاہت ‘ اشتراکیت‘ جمہوریت‘ کمیونزم‘ صدارتی نظام ان میں سے کوئی بھی عام آدمی کے حقوق اور مسائل کا حل نہ دے سکا۔ دنیا کی تاریخ میں صرف ایک نظام ایسا آیا ہے جس میں حقیقی طور پر عام آدمی کے مسائل اور حقوق دئے گئے اور معاشرے میں انصاف قائم ہوا اور وہ دور تھا حضورؐ کا جب آپؐ نے اسلام کی بنیادوں پر نظام نافذ کیا تو لوگ ہاتھوں میں زکواۃ اٹھائے پھرتے تھے لیکن کوئی لینے والا نہ ہوتا۔ انسانیت کی بقا صرف اور صرف اسی نظام میں ہے۔
سوشلزم کی تباہی
Dec 20, 2017