چائے، پھول اور پاکستان کا شیدائی …اے حمید
ناصر قریشی
اے حمید جب سے گھر بیٹھ گیا تھا اور میں بھی ریڈیو سے فارغ ہو گیا تھا تو نوائے وقت کا اللہ بھلا کرے ملاقات کرادیتا تھا اے حمید کی پرانی یادیں ہی سہی اُن یادوں کو میں سامنے رکھ کرسنا کرتا تھا جب وہ یادیں او ر باتیں ختم ہو جاتیں تو کہتا یار ناصر قریشی تم میری اردو پڑھتے ہو کیسا لگتا ہے میں عرض کرتا یار تمہاری اردو سے اندر والا پاکستان مستحکم ہوتاہے اے حمید نعرہ لگاتا پاکستان زندہ آباد اور پھر ہم معین کے چائے خانے کی طرف چل دیتے راستے میں نواز بھی ساتھ ہو لیتا پھر وہاں کھڑے ہوکر ہم سے ملکر چائے ،پھول اور پاکستان کی باتیں کیا کرتے پاکستان پر سارے اچھے بُرے وقت ہم نے مشترکہ گزارے اے حمید سے میر ی قربت 65ء کی پاک بھارت جنگ کے دنوں میں ہوئی ہم دونوں میرٹھہ اور امرتسر میں پڑسیوں کی دشمنی بھگت چکے تھے چنانچہ اُسی جذبے کو کام میں لاتے ہوئے ریڈیو سے جہاں اور بڑے بڑے پروگرام نشر ہوتے رہیں ایک چھوٹا سا پروگرام ’’ندائے حق‘‘ بھی تھا جو اے حمید لکھتے اور میں پروڈیوس کرتا اے حمید جب سے ریڈیومیں آئے تھے ریڈیو کی ضرورت بن گئے تھے اُردو ،پنجابی کے اکثر پروگرام یا تو وہ لکھتے یا خود بھی شریک پروگرام ہوتے اوراس طرح ریڈیو کی آواز کو چار چاند لگاتے اے حمید چائے ،پھول اور پاکستان کے شیدائی تھے کبھی کبھی ریڈیو سیلون کے مشاہدات و تجربات سنایا کرتے پچھلے دنوں تو وہ ایک چائے کا ڈبہ دکھا رہے تھے کہ یہ چائے سیلون سے ایک صاحب نے بھیجی ہے وہ میرا پروگرام وہاں بھی سنتے تھے اور لاہور سے نشر ہونے والے پروگرام بھی سنتے ہیں ریڈیو میں انکے پسندیدہ چند ہی لوگ تھے جن میں ناصرکاظمی ۔مسافر صاحب۔امانت علی اخلاق احمد دھلوی ۔رشید حبیبی وغیرہ شامل تھے کبھی کبھی تو یوں بھی ہوا کہ اے حمید پھولوں کی باتیں کرتے اور ناصر کاظمی پھولوں جیسے شعر سناتے اور ہم لوگ دونوں سے استعفادہ کرتے ان لوگوں نے ہم سے پردہ کرلیاہے لیکن ہم نے تو ان کو دل و دماغ میں بسا لیا ہے ۔
دفتر کے بڑوں نے حکم دیا کہ نواز،احمد راہی اور اے حمید کے بارے میں مکمل معلومات مہا کی جائیں میں نے عرض کیا اس حکم نامے میں منٹو کو بھی شامل کرلیتے تو پھر حکم نامہ یوں ہوتا کہ منٹو ،احمد راہی اے حمید اور نواز کے بارے میں مکمل معلومات مہیا کی جائیں بلکہ میں تو یوں کہوں گا کہ امرتسر کے بارے میں مکمل معلومات سے آگاہ کیا جائے کیونکہ دلی ،لکھنو اور لاہور کی طرح امرتسر بھی علم و ادب اور تحریک پاکستان کا گہوارا تھا ۔اے حمید رومانوی ادب سے شروع ہوا پھر قیام پاکستان کے بعد اس نے ایمانوی ادب تخلیق کرنا شروع کردیا اسکا ایمان پاکستان تھا اے حمید ان پاکستانیوں میں سے تھا جو دین اور سر زمین کی بات کرتا تھا پاکستان اور قائداعظم سے پیار کرتا تھا روز جب کبھی میں اسکی زیارت کو اسکے گھر جاتا تو دریافت کرتا یار ریڈیو دا کی حال ہے، تو میں عرض کرتا اللہ ہی اللہ ہے۔