پنجاب ترقی کا محور بن کر ملکی افق پرابھرنے لگا
وتعزمن تشاء وتذل من تشاء
سردار عثمان احمد خان بزدار کی استقامت رنگ لے آئی
ابن آدم
2018ء کے سرد دسمبر کا آخری ہفتہ تھا ۔ بستی کے لوگوں نے حیرت کے ساتھ نیلے ہیلی کاپٹر کو گزرتے دیکھا۔ اس کی اس کے پروں کی زوردار آواز سنی اور گھروں سے باہر نکل آئے۔ ہر کوئی منہ اٹھا کر نیلے ہیلی کاپٹر کو دیکھ رہا تھا جوچوٹی پر اترنے کے لئے فضا میں چکر کاٹ رہا تھا۔ خشک پتے اور اِکادُکا پرکاہ اڑنے لگے۔ بڑے بوڑھے، نوجوان ، بچے سبھی کی نظروں کا محور نیلا ہیلی کاپٹر تھا۔ جس کے کہنہ مشق پائلٹ نے چوٹی پر لینڈنگ کے لئے مناسب جگہ اور ہوا کے مخالف رخ پر ہیلی کاپٹر کو یوں حفاظت سے اتار لیا جیسے ماں بچے کو حفاظت اور نزاکت سے گود لے لیتی ہے۔ زمین پر ٹائر دھرتے ہیںہیلی کاپٹر کے پھڑپھڑاتے پروں کو گویا قرار آنے لگا۔ پروں کی رفتار کم ہوتی چلی گئی اور بالآخر رک گئے۔ نیلے ہیلی کاپٹر کا دروازہ ہولے سے کھلا۔ باریش سٹیورڈ نے باہر جھانکا اور اطمینان سے پائیدان دروازے کے سامنے ٹکا دیا۔ عمدہ لباسوں میں ملبوس افسران تیزی سے باہر اترنے لگے۔ ہیلی کاپٹر کے سامنے مقامی انتظامیہ اور چند عمائدین موجود تھے۔ سب نیچے اترے اور دروازے کی طرف منتظر نگاہوں سے دیکھنے لگے۔ اچانک ایک مانوس سا چہرہ شرمیلی سی مسکراہٹ اور انکسار پسندی کے ساتھ خاموشی سے نمودار ہوا۔ پل بھر کو ٹھہر کر اس نے منظر پر گہری نظر ڈالی۔ سب کچھ تو وہی ہے۔ وہی سادہ مزاج لوگ، سادہ سی زندگی، تھوڑی خواہشیں اور بہت سا اطمینان۔ یہ کتنے اچھے لوگ ہیں ۔ اتنی دیر میں ہجوم کا ہجوم ہیلی کاپٹر کو حصار میں لئے چند سپاہیوں کے گرد اکٹھا ہو چکا تھا۔ مانوس چہرے نے پائیدان پر قدم دھرے۔ تشکر اور اعتماد کے ملے جلے جذبے کے ساتھ اپنی سرزمین پائوں رکھا اور دل میں سوچا میرے لوگ کتنے اچھے ہیں اور ان کی محبت کتنی خالص ہے۔ ہجوم میں سے ایک بچہ جوش جذبات سے چلایا ’’ہمارا سردار عثمان آ گیا۔‘‘
بارتھی کے سردار عثمان احمد خان بزدار نے سوچا بھی نہیں تھا کہ وہ رکن پنجاب اسمبلی کاحلف اٹھانے جائے گا اور پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کے سب سے بڑے منصب کا حلف اٹھا کر واپس آئے گا۔ لیکن یہ ہو چکاتھا۔ سردار فتح محمد خان بزدار کے بڑے بیٹے سردار عثمان احمد خان بزدار کو اللہ تعالیٰ نے وزارت اعلیٰ کا منصب عطا کر دیا۔ شرمیلی سی مسکراہٹ ، جس میں خلوص اور سادگی جھلکتی اور امڈتی تھی۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم تمہارے درمیان دن اور رات کو بدلتے ہیں۔ جو کل تھا وہ آج نہیں ہے اور جو کل کہیں نہیں تھا وہ آج ہر کہیں ہے۔ جب اللہ تعالیٰ کسی کو عزت، وقار، اختیار اور اقتدار سے نوازتے ہیں تو یہ کسی انسان کے عمل یا کوشش کا نتیجہ نہیں ہوتا بلکہ اگر غور کیا جائے تو یہ صرف اللہ تعالیٰ کی نوازش ہوتی ہے کیونکہ انسان کی تدبیر رائیگاں جا سکتی ہے اللہ کا امر اٹل ہے۔ وہ دن اور رات کو بدلنے پر قادر ہے۔ وہ اقتدار کو پھیرنے پر پورا اختیار رکھتا ہے۔ اس کے اختیار کے سامنے سبھی تدبیریں رائیگاں جاتی ہیں۔ وہ نہ کرنا چاہے تو لاکھ چاہنے سے بھی کچھ نہیں ہوتا اور جب وہ کرنے پر آتا ہے تو یونہی سب کچھ ہوتا چلا جاتا ہے۔ سردار عثمان احمد خان بزدار کا معاملہ بھی یونہی کچھ ہے۔ کوئی کہتا ہے کہ اسے فلاں نے چنا۔ کسی کا خیال ہے کہ وہ فلاں کی دعا ہے اور کوئی کسی کے خواب کی تعبیر قرار دیتا ہے۔سوچنے والے سوچتے ہی رہ گئے۔ قیاس آرائیاں کرنے والے قیاس آرائی کرتے رہ گئے۔ کچھ لوگوں کے نام وِش لسٹ میں یار لوگوں نے ڈالے اور کچھ نے اپنے نام اس فہرست میں شامل کروا کر خود کو امیدوار ڈکلیئر کر رکھا تھا۔ ہر اینکر اور ہر کالم نویس نئی خبر لاتا تھا۔اندر کی خبریں نکالنے والے روزایک نئی بات کرتے تھے۔ ایک نیا بت تراشتے تھے۔ اسے خدا بنانے کی کوشش کرتے۔ ناکام ہو کر خود ہی ڈھا دیتے۔ تجسس اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا۔ سبھی امید سے تھے۔ مگر امید بر نہیں آتی تھی۔ کیونکہ انسانی سوچ جہاں ختم ہوتی ہے اللہ تعالیٰ کے اختیارات اس سے کہیںپہلے شروع ہو جاتے ہیں۔ قیاس کے گھوڑے دوڑائے۔ اندر کی خبریں نکالیں۔ باہر کی چاٹ اوپر ڈالی مگر کچھ بن نہ پڑا۔ صرف اتنی سی بات تھی اور روزروشن کی طرح عیاں تھی جسے اللہ تعالیٰ نے کتاب حکمت میں واضح طور پر بیان کر دیا ہے۔ وہ جسے چاہتا ہے عزت دیتا ہے اور جس سے چاہتا ہے واپس لے لیا کرتا ہے۔ عزت بھی اس کا اختیار ہے اور ذلت بھی۔ انسانوں کے بس کی بات ہوتی تو انسان اسے ریوڑیوں کی طرح بانٹتے پھرتے۔ مگر یہ میرا رب ہے جو کہتا ہے وتعزمن تشاء و تذل من تشائ۔
سردار عثمان احمد خان بزدار کے حلف اٹھانے سے پہلے ہی یار لوگوں نے بے پر کی اڑانا شروع کر دیں اور جب انہوں نے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا اور باقاعدہ طور پر کام کا آغاز کر دیا۔ کچھ ہی عرصے کے بعد دبی دبی آوازیںآنا شروع ہوئیں۔ پہلے سرگوشیاں تھیں۔ پھر وہ بلند آہنگ آوازیں بن گئیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ جیسے ماضی کی بڑی سیاسی جماعتوں کو کئی کئی دہائیوں تک حکمرانی کا موقع دیا گیا۔ انہوں نے اقتدار کو پوری طرح برتا اور پاکستان تحریک انصاف کی آمد سے پہلے عملی طور پر پاکستان میں دو جماعتی نظام ہی رائج تھا۔ دو جماعتی باریاں مقرر تھیں اور ایک کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد پہلی۔ برسوں یہی سلسلہ چلتا رہا اور عمران خان اپنے بلند آدرشوں کے ساتھ اسمبلی میں پہنچنے کی تگ و دو میں لگا رہا۔ عمران خان نے بارہا سیاسی ناکامیوں کا سامنا کیا مگر ہمت نہ ہاری اور بالآخر لیلائے اقتداف کے وصال سے سرشار ہوئے۔ مرکز کے ساتھ پنجاب اور دیگر صوبوں میں حکومت بنانے کا موقع ملا۔ لیکن یہاں ایک نئے صحافتی المیے نے جنم لیا۔ میڈیا کا ایک حصہ ہاتھ دھو کر بالخصوص حکومت پنجاب کے درپے ہوا۔ ہر بات میں مین میکھ نکالی گئی۔ ایک دن، دو دن… ایک ہفتے، دو ہفتے… ایک ماہ، زیادہ سے زیادہ دو ماہ… جنوری سے دسمبر تک ہر مہینے میں رخصتی کا مژدہ سنایا گیا۔ عثمان بزدار سب کچھ سنتے رہے اور خاموشی سے سہتے رہے۔ ہر رات ایک نئے اینگل سے بات شروع کی جاتی جو رخصتی کی خواہش ، مطالبے یا پشین گوئی پر ختم ہوتی۔ بعض مواقع پر تو یوں لگنے لگا کہ عثمان بزدار کسی غیرملکی دشمن صوبے کے وزیراعلیٰ ہیں جن کا جانا عین قومی مفاد ہو گا۔حالانکہ وزیراعظم عمران خان بارہا لاہور آ کر دوٹوک الفاظ میں اعلان کرتے رہے کہ عثمان بزدار کہیں نہیں جا رہے۔ جب تک میں وزیراعظم ہوں عثمان بزدار وزیراعلیٰ ہی رہیں گے۔
حقیقت پسندی کا تقاضا تو یہ تھا کہ عمران جو پارٹی کے بانی سربراہ ہیں ان کی واضح تردید کے بعد افواہوں کا سلسلہ تھم جاتا مگر یہ سلسلہ نہ تھمنا تھا اور نہ ہی تھما۔ حتیٰ کہ صوبائی کابینہ نے اپنے متعدد اجلاسوں میں سردار عثمان خان کی وزارت اعلیٰ پر اظہار اعتماد کیا۔ مختلف ارکان پنجاب اسمبلی وزیراعلیٰ سے ملاقاتیں کرتے اور اپنے غیرمشروط اعتماد کا اعلان کرتے رہے۔ یہاں تک کہ وہ لوگ بھی جنہیں باغی گروپ کہا گیا وزیراعلیٰ سے باجماعت ملے اور اپنی پوزیشن کلیئر کر لی۔ پنجاب کے ارکان قومی اسمبلی نے بھی سردار عثمان خان بزدار پر اظہار اعتماد کیا۔ سچ تو یہ ہے کہ سردار عثمان احمد خان بزدار بامروت اور باکردار انسان ہیں۔ وہ سیاسی رواداری اور تعلق نبھانے پر یقین رکھتے ہیں۔ ان کے پاس جو بھی اپنا معاملہ لایا گیا انہوں نے پوری توجہ کے ساتھ بات سنی اور متعلقہ حکام کو کام کر کے رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی۔ لیکن ایک بات وہ برملا کہتے ہیں کہ غلط کام نہ کبھی کیا-- نہ کروںگا اور نہ ہی کسی کو کرنے دوں گا۔ اپوزیشن کے بعض ارکان بھی اپنے حلقوں کے امور لے کر وزیراعلیٰ سے ملے تو انہیں بھی مایوسی نہ ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ خانیوال کے منتخب رکن صوبائی اسمبلی نشاط احمد خان ڈاہا نے انہیں شہبازشریف سے بہتر وزیراعلیٰ قرار دیا۔ نشاط احمد خان ڈاہا متعدد فورم پر وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی واضح وکالت کرتے ہوئے نظر آئے۔عثمان بزدار سیاست کی پیچیدگیوں میں الجھے ہوئے انسان نہیں بلکہ اپنی سادگی سے دوسروں کا دل موہ لیتے ہیں۔
سردار عثمان احمد خان بزدار کو ایک ایسے معاملے میں اہم قومی ادارے نے طلب کیا جس سے براہ راست وزیراعلیٰ کا کوئی لینا دینا نہیں اور معاملہ بھی عدالت میں زیرسماعت ہے۔ لیکن نیب دفتر میں ہونے والی معمول کی کارروائی بھی بریکنگ نیوز بنتی رہی۔ نیب کے سوالات اور اثاثہ جات کی جانچ پڑتال بھی پنجاب کے سردار کو خوفزدہ نہ کر سکی۔ انہوں نے میڈیا کے ذریعے سب پر واضح کر دیا کہ میرا دامن صاف ہے، مجھے ڈرنے کی کیا ضرورت اور مجھے ملزم کے طور پر نہیں بلکہ گواہ کے طور پر بلایا گیا۔ میں نے لائو لشکر کے بغیر ذاتی حیثیت میں پیش ہو کر اپنا موقف دیا۔ اثاثہ جات پہلے ہی ڈکلیئر کئے جا چکے ہیں تو اس میں نئی بات کیا اور خوف کا پہلو کیا۔ حالت یہ ہو گئی کہ عثمان بزدار پیشی بھگت کر بھی راعتماد اور ہشاش بشاش تھے جبکہ اس پیشی کو آخری قرار دینے والے ہانپتے کانپتے رہ گئے۔ نہ جانے لوگ کیوں بھول جاتے ہیں ’’وتعزمن تشاء وتذل من تشائ۔
اگر معروضی حقائق کو مدنظر رکھ کر دیکھا جائے تو وہ کونسا مرحلہ ہے جہاں سردار عثمان بزدار نے اپنی انتظامی صلاحیتوں کو ثابت نہیں کیا۔ پنجاب میں معمولی اکثریت کے ساتھ اتحادیوں کو مطمئن رکھنے کا معاملہ ہو یا شور مچانے والے ارکان سے گفت و شنید ، سردار عثمان بزدار نے ہر مرحلے پر اپنی صلاحیت اور قابلیت کو ثابت کیا۔ انہوں نے بیگانوں کو بھی خوش رکھا اور اپنوں کو بھی ناراض نہیں ہونے دیا۔ کسی سیاستدان کی اس سے بڑی کامیابی کیا ہو سکتی ہے۔ انہوں نے سندھ بلوچستان اور خیبرپختونخوا کے دورے کر کے خود کو صوبائی ہم آہنگی کا علمبردار ثابت کیا اور صوبوں کے درمیان باہمی تعلقات کے فروغ کے لئے اہم کردار ادا کیا۔ خاص طور پر اہل بلوچستان سردار عثمان بزدار کی کاوشوں کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیںجہاںکارڈیالوجی انسٹیٹیوٹ، کالج سمیت متعدد ترقیاتی منصوبے نہ صرف شروع کرائے گئے بلکہ بعض تکمیل کے آخری مراحل میں ہیں۔ اسی طرح بلوچ قبیلے کے جدامجد میرچاکر خان رند کے مزار کو جو اوکاڑہ کے نواحی قصبہ ست گرہ میں واقع ہے اور برسوں سے عدم توجہ کا شکار ہو کر شکست و ریخت کا سامنا کر رہا تھا، سردار عثمان نے نہ صرف مقبرے کی بحالی پر توجہ دی بلکہ اسے ایک سیاحتی مقام کے طور پر ڈویلپ کرنے کا منصوبہ بھی شروع کروایا۔ یہ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے بلوچ قبائل کے لئے اہل پنجاب کا پرخلوص تحفہ ہے۔ جسے مدتوں یاد رکھا جائے گا۔ وزیراعلیٰ عثمان بزدار نے اپنے منصب کا چارج سنبھالتے ہی وعدے کے عین مطابق پسماندہ علاقوں کی ترقی اور خوشحالی پر خصوصی توجہ دینے کا وعدہ پورا کیا۔ ڈیرہ غازیخان کے دورافتادہ گائوں، قصبوں اور شہروں میں ترقی کے آثار برآمد کئے۔ ہسپتالوں، سکولوں، کالجوں کی اپ گریڈیشن پر کام شروع ہوا۔ خاص طور پر بنیادی مراکز صحت پر توجہ دی گئی۔ دیہی مراکز صحت کو تحصیل ہیڈکوارٹر ہسپتال کا درجہ دیا گیا۔ پنجاب کی تحصیلوں میں ریسکیو1122 کا دائرہ کار بڑھایا گیا۔ کاشتکاروں کی سہولت کیلئے قانون گوئی کی سطح تک اراضی سینٹر قائم کرنے کا منصوبہ بھی شروع کیا گیا۔ ماں اور بچے کی صحت سے متعلق پانچ ہسپتال بنانے کا منصوبہ شروع کیا گیا۔ ماں اور بچے کی صحت سے متعلق سب سے بڑا ہسپتال گنگا رام ہسپتال کے ساتھ زیرتکمیل ہے۔ اسی طرح لیہ، مظفرگڑھ اور ملتان میں بھی ماں اور بچے کی صحت کو یقینی بنانے کے لئے ہسپتال قائم کئے جا رہے ہی۔ ڈیرہ غازی خان میں سردار فتح محمد خان انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی بلاشبہ اپنے دور کا سب سے بڑا ہیلتھ پراجیکٹ ثابت ہو گا جس سے چاروں صوبوں کے عوام مستفید ہوں گے اور اس کے ساتھ لاہور اور ملتان کے ہسپتالوں پر مریضوں کا رش بھی کم ہو گا۔ سردار عثمان بزدار نے کوہ سلیمان میں رودکوہیوں کے پانی کو محفوظ کرنے کے لئے چھوٹے ڈیم بنانے کا منصوبہ تیار کیا۔ اسی طرح راولپنڈی ڈویژن میں مختلف علاقوں میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے لئے چھوٹے ڈیم بنائے جا رہے ہیں۔
پولیس کے بارے میں پنجاب کے سردار کا ویژن بالکل واضح اور دوٹوک ہے۔ انہوں نے سب سے پہلے پولیس میں وسائل کی کمی کو دور کرنے پر توجہ دی۔ 10ہزار نئی بھرتیوں کے ساتھ ساتھ 600گاڑیوں کی فراہمی سے یقینا پولیس کی کارکردگی میں بہتری آنی چاہیے۔ 46نئے تھانے بنائے جا رہے ہیں۔ 101تھانوں کے لئے اراضی کی منتقلی کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔ سیف سٹی اتھارٹی کا دائرہ کار پنجاب کے ڈویژنل ہیڈکوارٹرز سے بتدریح اضلاع تک بڑھایا جائے گا۔
شعبہ صحت کی بہتری کے لئے 12ہزار ڈاکٹر بھرتی کئے گئے اور ہسپتالوں میں صورتحال کی بہتری کے لئے متعدد اصلاحات لانے پر کام کیا جا رہا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سب سے اہم بات کورونا وباء کے دنوں میں سردار عثمان بزدار کی انتظامی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ انہوں نے وسیم اکرم پلس کے ٹائٹل کو درست ثابت کرتے ہوئے ایسے اقدامات کئے کہ عوامی سروے میں بھی وزیراعلیٰ عثمان بزدار کی کورونا سے بچائوکے لئے حکمت عملی کو سراہا گیا۔ یہی نہیں بلکہ عالمی ادارہ صحت سمیت دیگر غیر ملکی اداروں نے بھی کورونا سے نپٹنے کے لئے حکومت پنجاب کی سمارٹ لاک ڈائون کی حکمت عملی کو موثر قرار دیا۔
وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار نے جہاں پسماندہ اور محروم معیشت علاقوں کی ترقی، خوشحالی اور بہتری پر توجہ دی وہاں لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد اور ملتان جیسے بڑے شہر بھی ترقی کے ثمرات سے محروم نہیں۔ صوبہ بھر میں 13سو سے زائد ترقیاتی منصوبے یقینا پنجاب کی شکل بدل دیں گے۔ لیکن لاہور میں شروع ہونے والا موجودہ دہائی کا سب سے بڑا اور اہم منصوبہ راوی ریورفرنٹ اربن پراجیکٹ اس دہائی کا سب سے بڑا تعمیراتی منصوبہ ہے جس سے اربوں روپے کی سرمایہ کاری، روزگار کے لاکھوں مواقع اور 18لاکھ نئے گھر بنائے جائیں گے۔ 46کلومیٹر طویل جھیل سے نا صرف آبپاشی، ہارٹیکلچر اور پینے کے لئے صاف پانی فراہم کیا جا سکے گا بلکہ لاہور میں زیرزمین پانی کی سطح کو بھی برقرار رکھنے میں مدد ملے گی۔ لاہور میں پنجاب یونیورسٹی، ٹیچنگ ہسپتال کا منصوبہ ہو یا فردوس مارکیٹ انڈرپاس کی تعمیر، وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار ہر منصوبے کو دل و جان سے یکساں اہمیت دیتے ہوئے مکمل کروانا چاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کی کارکردگی کے بارے میں درجنوں صفحات لکھے جا سکتے ہیں مگر آخری اور حتمی بات یہی ہے کہ وتعزمن تشاء وتذل من تشائ۔
٭٭٭٭
cm article 18aug2020.inp