تہران میں کورٹ آف کیسیشن نے برٹش کونسل کی ایک ایرانی خاتون ورکر ارس امیری کی 10 سال قید کی سزا کے خلاف اپیل مسترد کر دی ہے۔میڈیارپورٹس کے مطابق امیری نے ایرانی عدلیہ کے سربراہ کے نام ایک کھلے خط میں اپنے قید کیے جانے کی وجہ کا انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ اس نے ایرانی انٹیلی جنس کے لیے ان برطانوی اداروں کی جاسوسی کرنے سے انکار کر دیا تھا جہاں وہ کام کرتی ہے۔ارس امیری کے خالہ زاد بھائی محسن عمرانی نے ایک ٹویٹ میں لکھا کہ کورٹ آف کیسیشن نے امیری کی 10 سال جیل کی سزا کی توثیق کر دی جب کہ ایک وکیل بھی موجود نہ تھا۔ علاوزہ ازیں رہائی کے بعد امیری کو سفر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی۔ اسی طرح دو برس تک اس کے کسی بھی سرگرمی یا کام میں حصہ لینے پر پابندی ہو گی۔برطانیہ میں مستقل طور پر سکونت پذیر اور کنگسٹن یونیورسٹی کی طالبہ ارس امیری کو ایرانی انٹیلی جنس کی وزارت نے 14 مارچ 2018 کو اس وقت گرفتار کیا جب وہ اپنی بیمار دادی سے ملاقات کرنے پہنچی تھی۔ اس کے 68 روز بعد امیری کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ تاہم 7 ستمبر 2018 کو اسے پھر سے طلب کیا گیا اور گرفتار کر کے ایفین جیل منتقل کر دیا گیا۔امیری نے اپنے خط میں بتایا کہ وہ 2013 سے برٹش کونسل میں کام کر رہی ہیں۔ امیری نے مزید بتایا کہ میں اس مرکز میں ایک عام اہل کار ہوں مگر سیکورٹی اداروں نے مجھ سے تعاون کا مطالبہ کیا جس پر میں نے انکار کر دیا۔ اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس صورت میں ہم تم پر برطانیہ کے لیے جاسوسی کا الزام لگائیں گے۔دہری شہریت رکھنے والے یا یورپی ممالک اور امریکا میں قیام کی اجازت رکھنے والے اکیڈمکس اور ریسرچرز کی گرفتاری ایران کا وتیرہ بن چکا ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق تہران انہیں سیاسی سودے بازے کے لیے بطور کارڈ استعمال کرتا ہے۔ایرانی حکام نے گذشتہ ہفتے علمِ نوعِ انسانی کے ایرانی برطانوی محقق کمیل احمدی کو دارالحکومت تہران میں ان کی رہائش گاہ سے گرفتار کر لیا تھا۔ محققہ ارس امیری اور تھامسن رائٹرز ادارے کے لیے امدادی کارکن کے طور پر کام کرنے والی نازنین زاگری کے بعد کمیل احمد گرفتار ہونے والی تیسری برطانوی ایرانی تعلیمی شخصیت ہیں۔واضح رہے کہ حالیہ عرصے میں تیل بردار جہازوں کو تحویل میں لیے جانے کے حوالے سے تہران اور لندن کے درمیان کشیدگی شدت اختیار کر گئی ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024