ترجمان پاک فوج کا ٹویٹر اور فیس بک کے معاملات کا بجا نوٹس
پاکستان نے سماجی رابطے کی ویٹ سائیٹس فیس بک اور ٹویٹر کے ساتھ مقبوضہ کشمیر کی حمایت میں بیان شائع کرنے پر بند کئے جانے والے پاکستانی اکائونٹس کا معاملہ اٹھا دیا ہے۔ اس سلسلہ میں ترجمان پاک فوج میجر جنرل آصف غور نے گزشتہ روز اپنے ٹویٹر پیغام میں اس امر کی نشاندہی کی کہ کشمیر کی حمایت میں بولنے والے ٹویٹر اور فیس بک اکائونٹس بند کئے جا رہے ہیں کیونکہ سماجی رابطے کی ان بڑی ویب سائٹس کے ریجنل ہیڈ کوارٹرز میں زیادہ تر بھارتی باشندے کام کرتے ہیں جو کشمیریوں کی حمایت کرنے والے اکائونٹس بند کر رہے ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ آج کسی بھی ایشو کو اجاگر کرنے اور حکومتی یا غیر حکومتی سطح پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں یا ناانصافیوں کے خلاف اپنی آواز عالمی برادری تک پہنچانے کے لیے سوشل میڈیا انتہائی موثر پلیٹ فارم ثابت ہوا ہے۔ آج سے پانچ سال قبل برہان وانی کی قیادت میں کشمیری اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوںنے سوشل میڈیا کے ذریعے ہی بھارتی مظالم کے خلاف تحریک آزادیٔ کشمیر کو متحرک کیا تھا جس پر زچ ہو کر بھارتی فوج نے برہان وانی کو شہید کرنے سے بھی گریز نہ کیا تاہم اس کے ردعمل میں کشمیری نوجوانوں نے سوشل میڈیا ہی کو بروئے کار لا کر پوری دنیا کو بھارتی مکروہ چہرے سے روشناس کرا دیا۔ اب بھارت کی مودی سرکار نے اپنے توسیع پسندانہ عزائم کی بنیاد پر مقبوضہ کشمیر پر شب خون مار کر آئین کی دفعہ 370 کے تحت حاصل اس کی خصوصی حیثیت ختم کی اور مقبوضہ کشمیر میں کرفیو نافذ کر کے کشمیری عوام کو عملاً زندہ درگور کیا ہے تو دنیا بھر میں سوشل میڈیا پر متحرک کشمیری اور پاکستانی نوجوانوں نے ان بھارتی مظالم کو اتنا اجاگر کیا کہ ’’سٹاپ کشمیری کلنگز‘‘ سوشل میڈیا پر ٹاپ ٹرینڈ بن گیا۔ سوشل میڈیا اس حوالے سے مودی سرکار پر عالمی دبائو بڑھوانے میں بھی موثر ثابت ہوا ہے جس سے سلامتی کونسل میں بھارت کو اپنے لئے نظر آنے والی عالمی تنہائی نے زیادہ پریشان کیا چنانچہ سوشل میڈیا پر متحرک بھارتی لابی کے لوگوں نے چالبازی کے ساتھ سماجی رابطے کی ان ویب سائٹس کو بند کرنا شروع کر دیا جہاں پر کشمیری عوام کے ساتھ یکجہتی اور بھارتی مظالم کے خلاف پیغامات چلائے جا رہے تھے۔ ترجمان پاکستان فوج نے سوشل میڈیا کے صارفین سے اس حوالے سے بجاطور پر بھارتی لابیز کے معاملات کا نوٹس لینے اور اس کے خلاف آواز اٹھانے کا تقاضہ کیا ہے۔ فیس بک اور ٹویٹر کے منتظمین کو بھی اس بارے میں سنجیدگی سے غور کرنا چاہئے کہ وہ بھارتی مظالم کے خلاف اٹھنے والی آوازیں روکیں گے اور غیر جانبداری کا دامن نہیں تھامیں گے تو اپنی ساکھ کھو بیٹھیں گے۔