منگل ‘ 18؍ ذی الحج 1440ھ ‘ 20 ؍ اگست 2019 ء
مولانا فضل الرحمن اسلام کے نام پر اسلام آباد کے خواب دیکھ رہے ہیں ۔ شوکت یوسفزئی
تو بھئی اس میں برا ہی کیا ہے۔ ہر سیاستدان خواہ وہ لبرل ہو یا قدامت پرست۔ مذہبی ہو یا سیکولر سب کا سیاسی قبلہ اسلام آباد ہی تو ہے۔ سب دن رات سوتے جاگتے اسلام آباد کے ہی سپنے دیکھتے ہیں۔ الیکشن میں جیتیں یا ہاریں تمام سیاستدان
دل پھر طواف کوئے ملامت کو جائے ہے
پندار کا ضم کدہ ویراں کیے ہوئے
کے مصداق اسلام آباد کی گلیوں پر دل و جان نچھاور کرنے کو بے چین رہتے ہیں۔ کون سا سیاستدان ہے جو اسلام آباد پر مر مٹنے کو تیار نہیں۔ سیاسی جماعتیں اسلام آباد میں ایوان حکومت کی غلام گردشوں میں ایک بار گھس جائیں تو وہاں سے نکلنے کا تصور بھی نہیں کرتیں۔ ایسا کوئی خیال ہی ان کے لیے سوہان روح بن جاتا ہے۔ مولانا فضل الرحمن تو اسلام آباد کے پرانے مکین ہیں۔ چاہے ان کا ذاتی گھر وہاں نہیں مگر ان کا دل تو وہیں ٹکا رہتا ہے۔ اتنی طویل رفاقت تھوڑے وقت میں کہاں بھولتی ہے۔ اس لیے اب وہ باقی اپوزیشن والوں کے ساتھ مل کر اپنا اسلام آباد دوبارہ فتح کرنے کے چکر چلا رہے ہیں تو تحریک انصاف کی حکومت کو پریشانی کیوں ہے۔ آخر تحریک انصاف والوں نے بھی مولانا طاہر القادری کے ساتھ مل کر دھرنے کے نام پر ایک طویل چکر چلایا تھا۔ اسی چکر کے اثرات ہیں کہ اب تحریک انصاف اسلام آباد کے ایوانوں میں داخل ہے اور مولانا صاحب داخل دفتر ہیں۔ اس حساب سے تو خیبر پی کے کے وزیر شوکت یوسفزئی کو مولانا پر طنز نہیں کرنا چاہئے۔ کیونکہ ان کی جماعت بھی یہی خواب دیکھتی آئی ہے۔
٭٭٭٭٭٭
مودی اظہار رائے کی آزادی مانگتا ہے۔ دینے کو تیار نہیں۔ ارون دتی رائے
مودی جی کا المیہ یہی ہے کہ وہ ایک چائے کی دکان سے نکل کر آر ایس ایس والوں کے ہتھے چڑھ گئے۔ نہ علم نہ عقل نہ سوجھ بوجھ کچھ بھی انہیں ملا نہیں۔ چائے کے کھوکھے سے جھڑکیاں اور آر ایس ایس سے رٹے رٹائے مسلم دشمنی والے اسباق ان کے خیال و دماغ میں ٹھونسے گئے اور وہ نفرت اور اندھی عقیدت والی مثال بن کر بھارتی عوام کے سامنے آ گئے۔ ان کی ساری سیاست مسلم دشمنی والے آر ایس ایس کے سیاسی فلسفے کے اردگرد گھومتی ہے۔ ان کے نزدیک ہندوستان صرف ہندوئوں کا ملک ہے۔ یہاں کسی دوسرے عقیدے کے ماننے والوں کی کوئی جگہ نہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ خود ہندوستان میں بدھ مت، عیسائیت، اسلام اور سکھ ازم نے ہندو ازم کی مخالفت کے باوجود نہ صرف جگہ بنائی بلکہ صدیوں ہندوستان پر بودھ۔ مسلم اور عیسائی حکمرانوں نے بھی حکومت کی بلکہ انہی کے دور میں ہندوستان حقیقی معنوں میں متحد بھی رہا ورنہ یہ تو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں بٹا ملک تھا جس پر جو چاہتا حملہ کر کے جہاں چاہتا حکومت بنا لیتا ۔ اب مودی چاہتے ہیں کہ وہ جو اناپ شناپ بولیں وہ سب سنیں کسی اور کو ان کی لغویات کا جواب دینے کا حق نہیں ہونا چاہئے۔ الٹا جو لوگ مودی جی کے فلسفے اور غلط اقدامات کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں مودی اور ان کے ہمنوا اسے غدار قرار دے کر اس کی آواز بندکر دیتے ہیں۔ اس وقت ذرائع ابلاغ پر قدغن ہے۔ کوئی کشمیر کے حوالے سے سچ بولے تو میڈیا پردکھایا اور بتایا نہیں جاتا۔ سول سوسائٹی والوں تک کو سچ بولنے کی اجازت نہیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے۔
٭٭٭٭٭٭
بھوک بے روزگاری مہنگائی کا سونامی آیا، مسلم لیگ (ن) حکومت کا پہلا سال بھیانک خواب ہے۔ پیپلز پارٹی ابھی حکومت کی طرف سے اپنا ایک سال مکمل ہونے پر شادیانے بجاتے ہوئے کارکردگی کے اعلانات و بیانات کی گونج ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے حکومت کی کارکردگی رپورٹ کو ڈرامہ کہہ کر مسترد کر دیا۔ بات صرف یہاں تک ہی رہتی تو حکومت کو بھی صبر آ جاتا مگر
ذکر جب چھڑ گیا قیامت کا
بات پہنچی تیری جوانی تک
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے موجودہ حکومت کے ایک سال کو مشترکہ طور پر بھیانک خواب قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس دوران صرف مہنگائی، بیروزگاری اور بھوک کا سونامی آیا ہے۔ اب اس بارے میں عوام ہی زیادہ بہتر جانتے ہیں کہ سچ کیا ہے۔ ویسے خان صاحب نے حکومت میں آنے سے پہلے ہی اپنی تحریک کو سونامی قرار دیا تھا۔ اب ان دو اپوزیشن جماعتوں کو کون بتائے کہ جب سونامی آتا ہے تو کیا آسمان سے دھن اترتا ہے۔ زمین ہن سے اُگتا ہے یا ہوا سے موتی برستے ہیں۔ ایسا نہیں ہوتا اور یہی خان صاحب نے کہا تھا۔ اس کے باوجود اگر عوام نے سونامی کو ملک کے گلی کوچوں میں آنے کی اجازت دی ہے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔ بس بھوک مہنگائی اور بے روزگاری کے ہاتھوں ستائے لوگ پرانے گورکن کی واپسی کی واپسی کی باتیں کرنے لگے ہیں۔ شاید ان کے دور میں لوگوں کو کچھ آرام محسوس ہوتا ہو گا۔ جواب ذرا مشکل ہو گیا ہے۔ ویسے یہی باتیں ہر سیاسی جماعت کے کارکن اپنے سے پہلے والے حکمرانوں کے بارے میں کرتے ہیں اور ان کے بعد آنے والے ان کے بارے میں کرتے ہیں…
٭٭٭٭٭٭
سعودی عرب میں دلہنوں کی دیکھا دیکھی دولہوں نے بھی شرائط پیش کرنا شروع کر دیں
یہ ہوئی نہ بات نہلے پہ دہلے والی۔ سعودی عرب میں پٹھانوں کی طرح شادی کا سارا خرچہ دولہا برداشت کرتا ہے۔ یعنی دولہا والے اٹھاتے ہیں۔ چونکہ وہاں مال دولت کی کمی نہیں اس لیے اکثر دلہن یا دلہن والے من مرضی کی شرائط کچھ اس انداز میں لکھواتے ہیں کہ بے چارہ دولہا صرف دلہن کے ہی ناز نحرے اٹھائے اور اسے دوسری شادی کی فرصت یا نوبت ہی نہ ملے۔ عربوں میں دوسری یا تیسری اور چوتھی شادی معیوب نہیں سمجھی جاتی۔ وہاں دولہا ہی دلہن کے لئے نیا گھر ساز و سامان اور ملازمہ رکھنے پر مجبور ہے۔ اب ایسے ہی دلہنوں کے شرائط سے ستائے دولہوں نے بھی نکاح ناموں میں اپنی شرائط لکھوانا شروع کر دی ہیں جس سے یہ مقابلہ اب برابری کا ہو گیا ہے۔ ہمارے ہاں بھی نکاح نامہ ہوتا ہے مگر اس میں زیادہ تر دولہا والوں کی من مانی چلتی ہے۔ دلہن والے لڑکی کے ساتھ سارے گھر کا سازو سامان بھی دیتے ہیں۔ جہیز کا یہ سامان جب دولہا کے گھر جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے دولہا والے بے حد غریب ہیں جن کے گھر میں بستر یا برتن تک نہیں اس لئے یہ بے چارے لڑکی والوں سے سامان لے رہے ہیں۔ جتنی بے شرمی سے دولہا والے یہ سامان قبول کرتے ہیں کوئی غیرت مند شاید ہی یہ برداشت کر پاتا ہو۔ مگر جہیز کی یہ رسم ہمارے ہاں بڑے فخر کے ساتھ قبول کی جاتی ہے۔ اب لڑکی والے بھی نکاح نامہ میں جسکی حکومت اور قانون نے اجازت دی ہے ذرا من مانی کڑی شرائط عائد کریں تو دولہا والوں کو بھی پتہ چلے کہ لڑکی مفت میں نہیں ملتی۔ یہاں کوئی کسی لڑکی کو گھر کیا لے کر دے گا، اس کے اخراجات ہی پورے کرے تو غنیمت ہے۔