ہمیں کشمیر کے بارے میں بلند و بانگ دعوے کرتے ستر سال تین ماہ اور بیس دن گزر چکے ہیں، نہ تو ہم کشمیر کے بارے میں سلامتی کونسل کی قراردادوں کا نفاذ کرا سکے ہیں اور نہ ہی کوئی اتنی مضبوط لابی بنا پائے ہیں جو کم از کم اقوام متحدہ کی قراردادوں کو طاقت کے بل پر نافذ کرائے۔ اگرچہ ہم چین کے شکر گزار ہیں کہ اُس نے کشمیر بارے بھارت کے حالیہ اقدامات پر بحث کے لیے سلامتی کونسل کا بند کمرہ اجلاس طلب کرنے کی درخواست کی ہے۔ اگرچہ سلامتی کونسل کے بند کمرہ اجلاس سے بھی کچھ برآمد نہیں ہوا۔ کیونکہ اس اجلاس نے بھارت سے اتنا بھی نہیں کہا کہ وہ مقبوضہ کشمیر کا سابقہ سٹیٹس ہی بحال کر دے۔ یعنی مودی حکومت نے یکطرفہ اور غیر قانونی طور پر کشمیر کے سٹیٹس کے بارے میں آئین کی دفعات 370 اور 35 اے منسوخ کر ڈالیں۔ اول روز سے ساری دنیا جانتی ہے کہ کشمیر متنازع موضوع ہے اور اب تک اس مسئلے پر اقوام متحدہ اور دیگر عالمی فورموں پر کئی قراردادیں منظور کی جا چکی ہیں۔ یہ مفروضہ بالکل غلط ہے کہ کشمیر کے مسئلے کو سلامتی کونسل کے بند کمرے کے اجلاس میں زیر بحث لا کر اسے بین الاقوامی متنازعہ حیثیت دے دی گئی ہے۔ مجھے اس سے اختلاف ہے۔ اس طرح کی سوچ سادہ لوحی اور مسئلے کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔
دُنیا کشمیر کو اس کی سابقہ حیثیت کی بحالی کی صورت میں ریلیف دینا لاک ڈائون کے مکمل خاتمے اور اقوام متحدہ کے امن مشن کی تعیناتی چاہ رہی ہے جبکہ ہم آس لگائے بیٹھے تھے کہ سلامتی کونسل مقبوضہ کشمیر میں استصواب رائے یعنی ریفرنڈم کی تاریخ کا اعلان کرنے والی ہے۔ ہماری وزارتِ خارجہ کو کشمیر کی خصوصی حیثیت کی بحالی اور آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کی بحالی پر خصوصی زور دیتے رہنا چاہئے۔ مجھے مجبوراً وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو اس حوالے سے خط لکھنا پڑا کہ میری 6 نکاتی تجاویز اقوام متحدہ میں پیش کی جائیں۔ قارئین کی معلومات کے لیے خط کا متن درج ذیل ہے۔
محترم شاہ محمود قریشی صاحب!
میں آپ کی توجہ مقبوضہ کشمیر میں وزیر اعظم نریندر مودی کی براہ راست ہدایات کے تحت ایک عرصہ سے مسلسل اور بلاروک ٹوک ڈھائے جانے والے مظالم کی طرف مبذول کراتا ہوں کہ جن کی مثال نہیں ملتی اور مزید بدقسمتی یہ کہ ان مظالم کو اقوام متحدہ اور دوسرے متعلقہ فورموں نے بھی نظرانداز کر رکھا ہے۔ بھارت نے حال ہی میں مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے لیے بھارتی آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو دستور ہند سے خارج کر کے اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریحاً خلاف ورزی کی ہے۔ آپ فوراً اقوام متحدہ میں وزیر اعظم نریندر مودی اور بھارتی حکومت کے خلاف قرار دادیں لائیں۔ قرارداد میں بتائیں بھارتی حکومت مقبوضہ کشمیر میں غیر قانونی کارروائیاں کر رہی ہے، بے گناہ کشمیریوں پر مظالم کی فہرست خاصی طویل ہے، اجتماعی قتل اور پیلٹ گنوں سے اجتماعی طور پر اندھا کرنا، جبراً غائب کر دینا اذیت کوشی، خواتین سے زیادتیاں ، سیاسی دبائو، آزادانہ اظہار رائے پر پابندی جس میں ریاست میں مکمل کرفیو کا نفاذ جو کہ بین الاقوامی انسانی حقوق کی صریحاً خلاف ورزی ہے ۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کمشن ان کی خلاف ورزی کے بارے میں پہلے ہی رپورٹ دے چکا ہے۔ بھارت انسانی حقوق کے عالمی کمشن کو مقبوضہ کشمیر جانے کی اجازت دینے سے مسلسل انکاری ہے اور کسی قسم کی ملامت یا مذمت کی پروا کئے بغیر مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی مسلسل خلاف ورزی کئے جا رہا ہے۔ وہ بین الاقوامی کمیونٹی کی تحقیقات اور نتائج کو برابر نظرانداز کئے ہوئے ہے۔ بھارت اقوام متحدہ کا رُکن ہے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر اس کا محاسبہ کیا جانا چاہئے اقوام متحدہ کے حق خودارادیت کی قراردادوں یعنی قرار داد نمبر 47 (1948) 98 (1952) اور 122 (1957) کی خلاف ورزیوں پر بھارت پر پابندیاں عائد ہونی چاہئیں۔ میں کشمیر کی جغرافیائی حیثیت تبدیل کرنے کے بارے میں بھارت کے مذموم عزائم اور بدنیتیوں اور کشمیر میں مسلمانوں کی اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے حوالے سے مودی کی بدنیتی سے پہلے ہی متنبہ کر چکا ہوں۔ آئین کی دفعہ 35 اے کے خاتمے سے بھارت کے ناپاک منصوبے عیاں ہو گئے ہیں۔ آئین کی یہ دفعہ کشمیر میں غیر کشمیریوں پر جائیداد کی خرید پر پابندی عائد کرتی ہے۔ میں یہاں یہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ میں اس سے پہلے ہی /5 فروری 2018ء کو بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور اس کی حکومت کی مذموم عزائم کی چارج شیٹ (کاپی منسلک) جاری کر چکا ہوں۔ جس کا اُس نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر کے عملی اظہار کر دیا ہے۔ براہ کرم میرے ان خدشات کو استعمال کیا جائے جن کا اقوام متحدہ نے نوٹس ہی نہیں لیا۔
لہٰذا میں آپ کو حکومت پاکستان کے وزیر خارجہ ہونے کی حیثیت سے اقوام متحدہ کے سامنے رکھنے کے لیے درج ذیل نکات پیش کرتا ہوں۔
-1 اقوام متحدہ سے درخواست کی جائے کہ وہ حقِ خود ارادیت کے بارے میں اپنی قراردادوں کو نافذ کرنے کے لیے استصواب رائے کی تاریخ کا باقاعدہ اعلان کرے۔
-2 اقوام متحدہ مقبوضہ کشمیر میں امن کے قیام کے لیے اپنا امن مشن تعینات کرے تاکہ استصواب رائے اقوام متحدہ کی مقررہ تاریخ کو پُرامن طور پر منعقد ہو سکے جس کا اقوام متحدہ نے اعلان کیا ہو۔
-3 اقوام متحدہ سے درخواست کی جائے کہ وہ یو این ہیومن رائٹس کونسل کو ہدایت کرے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں کی انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کی تحقیقات کرے اور بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کے لیے جامع رپورٹ مرتب کرے۔
-4 اقوام متحدہ سے درخواست کی جائے کہ وہ آئین کی دفعات 370 اور 35 اے کو بحال کر کے کشمیر کی اصلی حیثیت بحال کرے۔
-5 اقوام متحدہ سے درخواست کی جائے کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کی قراردادوں اور عالمی برادری کی مرضی کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کرنے کے باعث بھارت پر بین الاقوامی پابندیاں عائد کی جائیں۔
-6 اقوام متحدہ سے درخواست کی جائے کہ وہ روم کنوینشن کے تحت بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی، بھارتی آرمی چیف اور انڈین نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر کو جنگی مجرم قرار دلانے کے لیے باقاعدہ مقدمہ دائر کیا جائے اور اس کی بنیاد اُس مصدقہ رپورٹ پر مبنی ہو جو بین الاقوامی انسانی حقوق کمشن کے سربراہ نے مرتب کی ہے۔ (کاپی منسلک) لاتعداد کشمیری تنظیمیں متاثرین کے خاندان ، بے گناہ کشمیری جنہیں پیلٹ گنیں استعمال کر کے اندھا کر دیا گیا ہے ، وہ خواتین جن سے زیادتی ہوئی ہے۔ ان مظالم کی گواہی دیں گی۔ علاوہ ازیں بھارتی مظالم کی وہ بھی گواہی دیں گے جنہیں زبردستی غائب کر دیا گیا۔ ٹارچر کیا گیا ، زیادتی کی گئی ، سیاسی دبائو استعمال ہوا ، اظہار رائے پر پابندی لگائی گئی اور مجموعی لاک ڈائون کی صورت پیدا کر دی گئی۔ میں یہ بتانا چاہوں گا کہ سلامتی کونسل کے ایک بند کمرہ اجلاس سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ اُلٹا اسے ، بھارت پر پڑنے والے دبائو کو کم کرنے کے لیے استعمال کیا جائے گا۔ میری تجویز ہے کہ پاکستان کو ایک دفعہ پھر سیکرٹری جنرل سے کونسل کے کھلے اجلاس کی درخواست کرنی چاہئے اور پاکستان کو موقعہ دینا چاہئے کہ وہ ٹھوس شواہد کے ساتھ عالمی برادری کو جھنجھوڑے کہ بھارت کشمیریوں پر کیا مظالم ڈھا رہا ہے۔ اس لیے کہ عالمی برادری کشمیر کے عوام کی چیخ و پکار پر کوئی توجہ نہیں دے رہی۔
بطور پارلیمنٹیرین میں سمجھتا ہوں کہ بھارت کا سرحدوں پر اور سفارتی اور قانونی محاذ پر مقابلہ کرنے کے لیے خاصا ہوم ورک کرنے کی ضرورت ہے۔ میں یہ ریکارڈ پر لانا چاہتا ہوں کہ بھارت بلیم گیم کے لیے ہمارے خلاف پراپیگنڈہ کرنے کے لیے کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھے گا وہ ہر حربہ اختیار کرے گا۔ لائن آف کنٹرول پر دبائو بڑھائے گا اور ہمیں ہر محاذ پر زک پہنچانے کی کوشش کرے گا۔
توقع ہے کہ وزارتِ خارجہ بلاتاخیر اعلیٰ پائے کے قانون دانوں پرمشتمل ٹیم تشکیل دے گی جو اوپر مذکور تجاویز کے مطابق اقوام متحدہ کو متحرک کرے گی۔ دوست ملکوں کی مدد کے لیے اُنہیں قائل کرے گی تاکہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا نفاذ ممکن اور مودی کے خلاف انٹرنیشنل کریمینل کورٹ میں مقدمہ چلانے کو یقینی بنایا جا سکے۔
مخلص سینیٹر اے رحمن ملک
میں نے اس مسئلے سے نبٹنے کے لیے تمام پہلوئوں کا احاطہ کر دیا ہے توقع ہے کہ حکومت ان پر عملدرآمد کرے گی ، جنہیں میں ذاتی حیثیت میں قوم کے وسیع تر مفاد میں تحریر کر رہا ہوں۔
(ترجمہ حفیظ الرحمن قریشی)
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024