آج ہمارے لیے جو حالات ہمارے دیرینہ دشمن بھارت نے پیدا کر د ئیے ہیں اس کے پیش نظر آج ہمیں نفاق کا باعث بننے والی کوئی بات نہیں کرنی چاہئے اور اتحاد و یکجہتی کے راستے ڈھونڈ ڈھونڈ کر نکالنے چاہئیں تاکہ ہماری صفوں میں کوئی کمزوری ہے بھی تو دشمن کو اس سے آگاہی نہ ہو سکے۔ میں یہ سطور لکھتے ہوئے بھی اسی تناظر میں شش و پنج میں ہوں کہ ہمارا دشمن تو ایٹم بم لے کر ہم پر چڑھ دوڑا ہوا ہے۔ اس کے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کھیل تماشہ سمجھ کر ایٹم بم پہلے چلانے کا آپشن آزمانے کا واضح اشارہ بھی دے دیا ہے اور مودی سرکار نے پوری منصوبہ بندی کے ساتھ دریائے راوی اور دریائے ستلج میں سیلابی ریلے داخل کر کے بالخصوص ہماری پنجاب کی دھرتی کو سیلاب میں ڈبونے کا بھی اہتمام کر دیا ہے حالانکہ یہی دریا کل تک بھارتی منصوبہ بندی کے تحت عملاً ریگستان میں تبدیل ہو چکے تھے اور ہمارے لیے قحط اور خشک سالی کا اہتمام کر رہے تھے۔ آج یہی دریا بپھر کر ہمارے لیے سیلابِ بلا نازل کرتے نظر آتے ہیں تو سازشی بھارت کی ہمیں مارنے کی ہر سازش کا ہمیں ادراک ہو جانا چاہئے۔ یہی ادراک ہم سے قومی بقاء کی خاطر یکجہت ہونے کا متقاضی ہے مگر بھائی صاحب! یکجہت ہونے کی کوئی تدبیر، کوئی تدبر اشارتاً بھی ہماری تبدیلی سرکار کی جانب سے نظر آ رہا ہے؟ جس نے اپوزیشن کے ساتھ اپوزیشن ہی کے انداز میں لڑتے بھڑتے اپنے اقتدار کا ایک سال پورا کر لیا ہے۔
اس ایک سال کے دوران ہر قومی مرض کا شافی علاج چوروں، ڈاکوئوں کو ہرگز نہ چھوڑنے ، انہیں اُلٹا لٹکانے ، چینی فارمولا کے تحت ان کے سر تن سے جُدا کرنے اور فیصل وائوڈا کے فارمولا کے تحت سرتن سے جدا کرنے سے پہلے انہیں سڑکوں پر بھی گھسیٹنے والا بتایا گیا۔ گھسیٹا گھسیٹی کا یہ عمل تو قومی یکجہتی کے متقاضی موجودہ حالات میں بھی جاری ہے مگر کیا اس سے عوام کے دکھوں کا مداوا ہو گیا ہے۔ کیا ان کے روٹی روزگار، غربت، مہنگائی اور تعلیم، صحت کے گھمبیر مسائل حل ہونے کی کوئی راہ نکل آئی ہے۔ کیا بے روزگاروں کا جم غفیر اپنے محفوظ مستقبل کے حوالے سے مطمئن ہو گیا ہے۔ کیا چین کی بنسری کی مدھر آواز بے چین زندگیوں کو لوری دے کر سلانے کا باعث بنتی نظر آنے لگی ہے اور کیا عوام الناس کے ہر گھر کے کچن میں ٹھنڈے پڑے چولہے زندگی کی رمق دکھانے لگے ہیں۔ بھائی صاحب! یہ سارے اسباب پیدا ہوں گے تو رگوں میں خون دوڑتا، جوش مارتا نظر آئے گا اور دفاع ملک و ملت کے لیے قوم کے سیسہ پلائی دیوار بننے کی گواہی ملے گی مگر دلِ مضطرب کے لیے رجائیت پسندی والا کوئی ماحول بنتا نظر ہی نہیں آتا۔ پھر سوچئے حضور ؎ کس کے گھر جائے گا سیلابِ بلا میرے بعد۔
گزشتہ روز یہی تجسس میاں اسلم بشیر کے گھر چوٹی کے دانشوروں، صنعتکاروں اور د وسرے شعبہ ہائے زندگی کی چیدہ چیدہ شخصیات کی ایک فکری نشست میں نظر آیا۔ سوال بہت سے تھے۔ لبِ لباب ایک ہی تھا کہ آج قو می زندگی میں اُلجھائو ہے تو ا س سے نکلنے کا راستہ کیا ہے۔ منجدھار میں گھری کشتی کو نکالنا کیسے ہے۔ کنارے پر کیسے لگانا ہے۔ حوصلہ دینے اور اطمینان کی جھلک دکھانے والاجواب کسی کے پاس نہ تھا۔ افتخار احمد کا تجسس تھا کہ آپ سب چوروں ڈاکوئوں کو بھلے اُلٹا لٹکا کر ان کی کھال اُتار د یں، آپ کے اس حسنِ کارکردگی پر آپ کو 25 نمبر ضرور مل جائیں گے مگر باقیماندہ 75 نمبر تو آپ نے عوامی خدمت والی اپنی کارکردگی کی بنیاد پر لینے ہیں۔ کیا قوم اس کارکردگی کے حوالے سے مطمئن ہے۔ بھئی آپ کے اقتدار کے ایک سال بعد تو قوم آپ کے اس جواب پرمطمئن نہیں ہو گی کہ ہم سب چوروں ڈاکوئوں کو الٹا لٹکانے میں ابھی تک مصروف ہیں، اگر اس ایک سال کے دوران الٹا لٹکائے جانے کے خوف نے صنعتوں کا پہیہ بھی جامد کر دیا ہے۔ بیورو کریسی کو روزمرہ کے چھوٹے موٹے ترقیاتی کاموں کی جانب پیش رفت سے بھی روک دیا ہے، کھیتوں میں اُگنے والی فصلیں ہن برسانے کے بجائے کسان، مزدور کے لیے روگ پالتی نظر آ رہی ہیں۔ ٹیکسوں کے انبوہِ کثیر میں عفریت بنتی مہنگائی عام آدمی کی برداشت سے باہر نکلتی اور اس کے لیے زندہ درگوری کا اہتمام کرتی نظر آ رہی ہے اور بے روزگاری کے جھکڑ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کو اپنے مستقبل سے قطعی مایوس کر کے انہیں جرائم کی زندگی کی جانب دھکیل رہے ہیں یا خودکشی اور خودسوزی کے راستے دکھا رہے ہیں تو بھائی صاحب؎
جس شہر میں لٹ جائے فقیروں کی کمائی
اس شہرکے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے
اس نشست کی غالب اکثریت بشمول میزبان تبدیلی کے خیر خواہوں کی تھی مگر انہوں نے صنعت و زراعت اور قومی معیشت کی زبوں حالی کے جو مناظر اپنے ذاتی تجربات کے حوالے سے دکھائے وہ ہر ذہن میں اٹھنے والے اس سوال کو مزید پیچیدہ اور مزیدلا ینحل بناتے گئے کہ اس بھنور سے ہم نے خود کو نکالنا کیسے ہے۔ اپنی ایک سال کی کارکردگی پر آپ بھلے مطمئن ہوں مگر عام آدمی جس میں غالب اکثریت آپ کے ووٹرز کی ہی ہو گی، اس ایک سال کے دوران اپنے شہر کی گڑھے بنی ہر سڑک کا جائزہ لیتا ہے، نکاسیٔ آب سے صفائی تک کے بلدیاتی اداروں کے کرنے والے کام ٹھپ پڑے دیکھتا ہے اور اسے کسی نئے ترقیاتی کام کی جھلک تک کہیں نظر نہیں آتی تو لاحاصلی کا روگ اسے پچھتاوے کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔
اس ایک سال کا جائزہ لیتے ہوئے اپوزیشن تو یقیناً اپنے خلاف ہونے والی کارروائیوں کی بنیاد پر آپ کو جا بے جا تنقید کا نشانہ ہی بنائے گی اور تصویر کا منفی پہلو ہی اجاگر کرے گی مگر حضور آپ اپنے خیرخواہوں کو تو مایوس نہ ہونے دیں۔ اگر آپ نے عوامی فلاح کے کاموں کی جانب آنکھیں موندلی ہیں اور عوام کے لیے سکون و راحت کا باعث بننے والے معمولی پیج ورک سے بھی ہاتھ کھینچ لیا ہے تو وہ آپ کے لیے اعتماد کی سولی پر چڑھنے کے لیے شائد ہی تیار ہو پائیں گے۔ خدارا عوا م کا بھرم نہ توڑئیے۔ بھرم ٹوٹتا ہے تو من مندر میں بسائے ، سجائے گئے دیوتائوں کو بھی راندۂ درگاہ بنا دیتا ہے۔ اس حوالے سے آپ نے ایک سال میں قوم کو کچھ دیا ہے تو ضرور اس کا کریڈٹ لیجئے اور قوم اس ایک سال میں اپنے روزمرہ کے مسائل کے حل کے معاملہ میں مایوس ہوئی ہے تو پھر اس کے ہاتھوں ڈس کریڈٹ ہونے سے بچنے کا سوچئے، یہی آپ کا ایک سال کا سبق اور ایک سال کا امتحان ہے۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024