سقوطِ ڈھاکہ کے بعد اس منتشر قوم کو یہ امید نہ تھی کہ اسے سقوطِ کشمیر کا دن دیکھنا بھی نصیب ہوگا۔ سیانے کہتے ہیں کہ سانحات کے رو پذیر ہونے سے قومیں سبق سیکھتی ہیں اور جن لوگوں نے سقوطِ مشرقی پاکستان کو اپنی آنکھوں سے ہوتے دیکھا انہیں اچھی طرح یاد ہوگا کہ دونوں سانحات کے اسباب تقریباً ایک جیسے ہی ہیں، جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہماری سیاسی قیادت نے ان سانحات سے کوئی سبق حاصل نہیں کیا۔ کل بھی ہم امریکی بحری بیڑے کا انتظار کرتے رہے تھے اور آج بھی ہم چائینہ، روس اور عرب ممالک کا امید افزا نظروں سے انتظار کر رہے ہیں مگر جنہیں نہ آنا تھا وہ نہ آئے شاید اسی پر یوں کہا گیا تھا :
دیکھا جو تیر کھا کے کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہو گئی
قارئین! پتہ نہیں ہماری معصوم قوم سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کو چونتیس اسلامی ممالک کی فوج کا سربراہ بنوا کر یہ سمجھ رہی تھی کہ ہم یہ نوکری کرکے شاید مالک بن بیٹھے ہیں مگر یار لوگوں نے اسی وقت خبردار کیا تھا کہ ان تلوں میں تیل نہیں ہے۔ آج جب ہمارے ازلی دشمن بھارت نے اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کے لیے آرٹیکل 370اور 35A یکسر ختم کیا ہے تو اس کا مطلب بغیر کسی تمہید کے صرف یہ ہے کہ بھارت نے ہماری شہ رگ کشمیر پر اپنے غاصبانہ قبضے کو آئینی حیثیت دینے کی سازش کی ہے اور اس اقدام کو اٹھانے سے پہلے بلاشبہ مکار دشمن کو عالمی برادری کے سرپنچوں کی درپردہ حمایت حاصل ہو چکی تھی اور تو اور متحدہ عرب امارات، کویت اور سعودی عرب جیسے اسلامی اُمہ کے علمبرداربھارتی شٹل ڈپلومیسی کی زد سے نہ بچ سکے ۔ جہاں تک متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب پر گِلے کی کوئی بات کی جائے تو اتنا کہہ دینا ہی کافی ہے کہ نادان عرب دوستوں نے ستر سال تک فلسطین کے کاز اور القدس کو فتح کرنے کی جو تحریکیں شروع کی تھیں وہ کچھ عرصہ پہلے اسرائیل کی گود میں ٹھنڈے جذبات کی نذر ہو گئیں اور آج فلسطینی عوام رو رو کر اپنی کشتی کے ناخدا کو تلاش کر رہے ہیں۔میں نے اس وقت بھی یاسرعرفات(مرحوم) کی وفات پر اپنے کالم میں لکھا تھا کہ آج پی ایل او( فلسطین لبریشن آرگنائزیشن) اپنی طبعی موت مر گئی ہے اور ہم اتنے سادہ ہیں کہ تین سال تک ادھار تیل دینے کی ڈیل پر ہم نے کراچی کے سمندر سے دریافت ہونے والے نئے تیل کے کنوئوں کو عربوں کے دبائو پر بند کر دیا اور صرف تین ارب ڈالرز کے لالی پاپ پر ہمیں بہلا پھسلا کر خاموش کر دیا گیا جبکہ بعد میں یہ انکشاف ہوا کہ پاکستان سے اس ڈیل سے پہلے سعودی شہزادہ بھارتی بزنس آئیکون اور نریندر مودی کے بزنس پارٹنر مکیش امبانی سے آرامکو کمپنی کے ذریعے 75ارب ڈالرز کی ڈیل کر چکے ہیں۔ اس معاہدے سے یہ ثابت ہوا کہ عربوں کو نہ ہی قبلہ اول القدس سے کوئی غرض ہے اور نہ ہی انہیں کشمیر کے مسلمانوں کی رتی بھر فکر۔ کیونکہ ایک بزنس مین کے لیے پہلی ترجیح اس کا بزنس ہوتا ہے۔ لہٰذا پاکستان ماضی کی خارجہ پالیسیوں اور داخلہ پالیسیوں کا پھر سے احاطہ کرے۔ ہماری خارجہ پالیسی کے ثمرات جو آج برآمد ہوئے ہیں یہ کوئی اچنبھے کی بات نہیں کیونکہ پچھلے دس سالہ دورِ حکومت میں زرداری حکومت سے اختلافات کی بنا پر صرف اڑھائی سال بعد وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کو نکال کر حنا ربانی کھر جیساشو پیس وزیر خارجہ مقرر کر دینا ہماری فاش غلطی تھی جبکہ میاں نوازشریف صاحب کے پانچ سالہ دورِ حکومت میں چار سال تک وزارتِ خارجہ کا منصب خالی رہا قارئین محترم کشمیر جو ہماری شہ رگ ہے اس میں پچھلے دس سال سے مولانا فضل الرحمن جیسی بھاری بھرکم شخصیت کو لا کر بٹھا دیا گیا جو نہ تو کشمیری بول سکتے تھے اور نہ ہی کشمیریوں کی ترجمانی عالمی سطح پر کسی بھی غیر ملکی زبان میں نہیں کر سکتے تھے اور مختصراً یہ کہ کشمیر فنڈز کھانے کے لیے وہ دس سال تک کشمیر ہائوس پر قابض رہے اور ان حالات میں آج ہم اپنی خارجہ پالیسی کا سدِباب اور احتساب کرنے کی بجائے ہم ایک بانجھ خارجہ پالیسی سے ثمرات مانگ رہے ہیں جبکہ راقم نے کئی سال پہلے اپنے کالموں کے اندر سابق اسرائیلی وزیراعظم اور صدر شمعون پیریز سے مذاکرات کا احوال بیان کرتے ہوئے لکھا تھا اور یہ آنجہانی اسرائیلی وزیراعظم کے اپنے الفاظ تھے کہ ہم تو فلسطین کو ایک آزاد جمہوری مملکت کے طور پر دیکھنے کو تیار ہیں مگر آپ کے عرب دوستوں کو یہ گوارا نہیں کہ ان کے درمیان ایک آزاد اور جمہوری فلسطین دنیا کے نقشے پر موجود ہو کیونکہ ایک جمہوری فلسطین کے اردگرد ملوکی ریاستوں کو یہ پھلتا پھولتا جمہوری معاشرہ قابل قبول نہیں۔
5اگست کے اس غیر آئینی اقدام کے بعد دنیا بھر میں کشمیریوں کے لیے ہمدردی کی لہر میں اضافہ ہوا ہے گذشتہ اتوار کے دن ٹورنٹو(کینیڈا) میں کشمیر لبریشن آرگنائزیشن کے رہنمائوں ملک آفتاب ،عبدالستار نیازی، چوہدری پرویز اور نسیم احمد نے سٹی ہال کے سامنے ایک احتجاجی مظاہرہ آرگنائز کیا جس میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستانی، کشمیری، فلسطینی اور خالصتان کے سکھ شریک ہوئے پاکستان کے بائیس کروڑ عوام کسی مذہب ،فرقے، لسان، زبان اور جغرافیے سے بالاتر ہو کر اس وقت پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑے ہیں۔ مگر آج اگر نازی ہٹلر نریندر مودی کو سبق نہ سکھایا گیا تو یہ اپنی مکارانہ، سفاکانہ چالوں سے عالمی امن کے لیے اتنا شدید خطرہ ثابت ہوگا کہ جس کی تلافی آنے والی کئی صدیاں بھی نہ کر سکیں گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024