مجھے بحثیت وزیر مہمان داری مختلف ممالک کے وفود کے ساتھ ذمہ داری نبھانے کا شرف حاصل ہوا ہے۔ان میں چائنہ کے گورنر سے لیکر ہندوستان کے وزیر خارجہ ایس ایم کرشنااور خاص طور کشمیری قیادت جو میر واعظ عمر فاروق کی قیادت میں پاکستان آئے تھے۔ہندوستانی وزیر خارجہ کو مینار پاکستان لے جانے اور قرارداد پاکستان پڑھ کر گوش گزار کرنے کا موقع بھی نہیں گنوایا ہماری حکومت ہمیشہ امن اور دوستی کا پیغام بھیجتی رہی اور ہر بڑی جماعت جو برسراقتدار آئی اپنے اپنے انداز سے مسئلہ کشمیر کا حل نکالنے کے لیے کوشاں رہے اور اسی دوران کئی جنگیں بھی لڑی گئیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ دونوں ممالک ایٹمی طاقت بن کر ایک بڑی جنگ کے لیے تیا ر ہیں۔ہر دفعہ پہل ہندوستان کی طر ف سے ہوئی اور ہندو بنیا پاکستان کے خلاف مسلسل ہر Levelپر سا زشوںکے جال بنتا رہا ہے۔مگر اﷲ فضل سے ہمیشہ ناکام رہا۔یہاں یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ صرف ایک انڈیا ہمارا مخالف نہیں ہے بلکہ اسلام اور پاکستان کے خلاف ایک مائینڈ سیٹ جس کا حصہ صرف ــ"را" نہیں بلکہ مختلف ممالک کی Intelligenanceایجنسیاں جن میں "موساد" قابل ذکر ہے ہمارے خلاف برسرپیکار ہیں۔ہندوستان میں انسانی حقوق اور سیکولر ازم کے قاتل مودی نے گجرات کے بعد مقبوضہ کشمیر میں سرعام قتل وغارت شروع کروادی ہے اور بد قسمتی سے ابھی تک دنیا کے منصف اُسے روکنے میں ناکام نظر آرہے ہے۔16اگست کے سکیورٹی کونسل کے اجلاس کا بھی کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا سوائے اس کے کہ مسئلہ کشمیر دینا کے ایجنڈے پر ضرور آیا ہے۔مجھے ایسا لگاکہ جیسے کوئی زندگی موت کی کشمکش میں مریض کو ڈاکٹر دیکھ کر یہ تو کہیں کہ یہ بہت سیریس ہے مگر اس کا علاج نہ کریں اور مریض کے لواحقین یہ کہیں کہ ہمیںعلاج کروانے میں کامیابی حاصل ہوئی ہے۔میری درخواست ہے کہ اس مسئلے کو ایسے دیکھیں جیسے وہ ہے ایسے مت دیکھیں جیسے آپ دیکھنا چاہتے ہیں۔پاکستان کی سرحدوں کی طرف کوئی دیکھنے کی جرات نہیں کر سکتا کہ پاکستان قوم اور افواج پاکستان سر بکف ہیں۔مگر کیا سفارتی محاذ پر ہم کچھ کمزور نظر نہیں آرہے ۔OICکو جس طرح اسلام اور پاکستان کے لیے کھڑا ہونا چاہیے تھا کیا انہوں نے اپنا رول ادا کیا ہے۔میرے خیال کے مطابق ہرگز نہیں کیا بلکہ کئی اسلامی ممالک غیر محسوس طریقہ سے ہندوستان کے ساتھ کھڑے نظر آئے اور یہ عمل کسی صورت بھی پاکستانی قوم کو قابل قبول نہیں ہےOIC کے ممبرممالک میں ہمارے جتنے سفیر حضرات انہیں پوچھنے کا وقت آگیا انہیں بلایا جائے اور ان سے کارکردگی رپورٹ لی جائے اور ذمہ داری کا تعین کیا جائے کہ کس نے اپنا رول صیحح ادا نہیں کیا ہمیں آج یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہمارے مشنز نے اُس طرح کام کیا ہی نہیںجتنی پاکستان کو ضرورت تھی ہر سسٹم میں کچھ نااہل اور کچھ انتہائی قابل لوگ موجود ہوتے ہیں۔چیک کیاجائے کہ کون پاکستان کے لیے اور کون کون اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے مصروف عمل ہے۔
وزیراعظم صاحب پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ مسئلہ کشمیر ہے جس دن یہ حل ہوگیا اس دن نہ صرف پاکستان بلکہ ہندوستان اور خطے کے اندر امن آیگا آپ براہ کرم جہاں دوسرے شعبوں میں تبدیلی لارہے ہیں اس پر خاص توجہ فرمائیں جناب وزیراعظم صاحب آپ اور آپ کے وزیر خارجہ رات دن اس پر کام کر رہے مگر یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ثالثی کا رول ادا کرنے والے کشمیری بہنوں،بیٹیوں کے بدترین قتل وغارت پر خاموش کیوں ہیں۔کیا کشمیری دود ھ پیتے معصوم بچوںکی آواز دنیا کے منصفوں کا سنائی نہیں دے رہی ۔
اﷲ قرآن میں فرماتے ہیں۔
ترجمعہ:( آخرکیا وجہ ہے کہ تم اﷲ کی راہ میں ان بے بس مردوں عورتوں اور بچوںکی خاطر نہ لڑو جو کمزور پا کر دبالیے گئے ہیں اور فریاد کر رہے ہیں کہ خدا یا ہم کو اس بستی سے نکال جس کے باشندے ظالم ہیں اور اپنی طرف سے ہمارا کوئی حامی اور مددگار پیدا کر دے)
میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ حالت کو مد نظر رکھتے ہوئے آج جہاد واجب ہوچکا ہے ۔حکومت پاکستان اور خاص طور پر علماء کرام غور فرمالیںا ور اﷲ کے حکم کے مطابق اپنے گھوڑے تیا ر کر لیں۔آج پاکستان کی 22کروڑ عوام منتظر ہیں کہ اعلان جہاد ہو اور ہم اپنا رول ادا کر سکیں۔بالا آخر یہ ہونا ہی ہے۔جتنا چاہیں جنگ سے بچیں مگر یہ کفار کی طرف سے ہمارے اوپر مسلط کر دی گئی ہے۔شاید ہندو بنیے کا علاج شاہین اور غوری ہی کریں گے۔وزیر اعظم صاحب قوم مسئلہ کشمیر پر یک جان ہے۔جناب وزیر اعظم پاکستان پر اس سے زیادہ مشکل وقت نہیں آئے گا۔مشکل وقت میں قومیں مشکل فیصلے کرتی ہیں۔اور یقین جانیے جب قومیں مشکلات سے گزرتی ہیں تو دنیا میں اپنا لوہا منواتی ہیں۔پھر کہتا ہوں کہ غلطی کے گنجائش نہیں ہے۔وزیراعظم صاحب بہترین حکمت عملی کے ساتھ ترجیحات پر OICاور باقی دنیا کو اپنے قریب لائیں۔
جناب وزیر اعظم صاحب ہمیں ہر صورت دوست ممالک کے درمیانGaps Communicationکو ختم کرنا ہوگا اور اپنی اپنی جگہ سب سے دوستی رکھنا ہوگی ۔یاد رکھیں ہمارے دوست وہی ہیں جو آج اس مشکل وقت میں ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024