کشمیر میں ہونے والی بربریت، ظلم ، تشدد پر پاکستان نے ہرممکن آواز اٹھائی ہے۔ کشمیر میں شروع سے ہی مسلمان اکثریت میں ہیں اور یہ مکمل طور پر مسلم علاقہ ہے۔ ناانصافی کی ابتداء تو تقسیم کے وقت ہی شروع ہو گئی تھی۔ ناانصافی اور حق تلفی بڑھتے بڑھتے ظلم کی داستان بن گئی۔ ہری بھری وادی کو سرخ لہو میں نہلا دیا گیا۔ امریکہ میں ایک کُتا بھی مار دیا جائے تو اُن کی عدالت کُتے کے قاتل کو سزا دیتی ہے۔ کسی کی حق تلفی ہو تو عدالتیں حرکت میں آ جاتی ہیں۔ خلیج کی جنگ میں امریکہ کے چھ فوجی ہلاک ہوئے تو امریکہ برانگیختہ ہو گیا تھا لیکن چھ ہزار مسلمانوں کو بے رحمی ، سفاکی سے مار کر امریکہ کا کلیجہ نہیں پھٹا تھا۔ گویا مسلمان گاجر مولی سے بھی بدتر ہو گئے تھے لیکن چھ امریکیوں کی موت پر امریکیوں کی آنکھیں اشکبار تھیں۔ ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں دو چار ہزار افراد کی موت کا بدلہ دو تین لاکھ مسلمانوں کو مار کر لیا گیا۔ عراق کو تہس نہس کر دیا گیا۔ افغانستان کے پہاڑوں اور غاروں تک کو مسمار کر دیا گیا۔ یمن کو محصور کر دیا گیا۔ پاکستان اور ایران کو پابندیوں میں جکڑ دیا گیا۔ کسی امریکی یا یورپی ملک میں زرا سی خلاف ورزی ہو جائے تو امریکہ، انگلینڈ، فرانس، آسٹریلیا، اٹلی حرکت میں آ جاتے ہیں ا ور انہیں عالمی قوانین یاد آ جاتے ہیں لیکن بوسنیا ہرزگووینیا، فلسطین ، برما، عراق، یمن ، شام ، لیبیا، افغانستان اور کشمیر میں جو ہزاروں لاکھوں مسلمان مارے گئے۔ اُس پر امریکہ کی انسانیت سوئی رہی۔ اقوامِ متحدہ ذرا ذرا سے معاملات پر ایکشن میں آ جاتا ہے اور اسی طرح دیگر عالمی انسانی حقوق کی تنظیمیں چیخ و پکار شروع کرنے کے ساتھ عملی اقدامات شروع کر دیتی ہیں۔ پاکستان اقوام متحدہ، یورپی یونین، غیر وابستہ ممالک کی تحریک، او آئی سی، ایکو وغیرہ کا اہم رُکن ہے۔ ہر سال اقوام متحدہ اور اسلامی کانفرنس کی تنظیم کی سالانہ فیس بھاری بھرکم ڈالرز کے ساتھ ادا کرتا ہے لیکن اب جب کشمیر میں نریندر مودی نے کشمیریوں کی زندگی میں زہر گھول دیا۔ انہیں گھروں میں قید کر دیا۔ اُن کے بنیادی حقوق سلب کرنے کے ساتھ ساتھ اُن پر ظلم و جبر کی انتہا کر دی۔ ڈیڑھ ہفتے سے وادی کرفیو کی زد میں ہے۔ لوگوں کے گھروں میں راشن پانی تک نہیں ہے۔ دوائیں نہیں ہیں۔ زندگی منجمد ہی نہیں، زخمی بھی کر دی ہے۔ عید تک منانے نہیں دی گئی اور نماز عید پر بھی گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔ کشمیری عورتیں بچے رو رہے ہیں اور بھارت کے سیکولر ہونے کے دعوے پانی کی طرح بہہ گئے ہیں۔ ہر طرف آنسو اور آہیں ہیں۔ کشمیری مسلمانوں کی باقاعدہ نسل کشی کی جا رہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر کا ہر عضو زخمی اور نوحہ کناں ہے۔ پوری وادی میں دردناک کہانیاں جنم لے چکی ہیں ۔ مقبوضہ کشمیر کو کربلا کا میدان بنا دیا گیا ہے۔ لیکن امریکہ منہ میں گھنگھیاں ڈالے بیٹھا ہے۔ اقوام متحدہ نے خود سے کوئی نوٹس نہیں لیا۔ او آئی سی نے اپنی جگہ سے جُنبش تک نہ کی۔ پاکستان نے اس ظلم پر آواز اٹھائی، شاہ محمود قریشی نے بھاگ دوڑ کی اور سلامتی کونسل کا اجلاس بُلایا جس میں محض زبانی کلامی باتیں ہوئیں اور ایک بھی عملی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ عمران خان امریکہ کا دورہ کر کے اسے اپنی عظیم کامیابی قرار دے رہے تھے۔ بار بار ڈ ونلڈ ٹرمپ کی ثالثی کی مثالیں دی جا رہی تھیں لیکن ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنا کارڈ کامیابی سے کھیلا۔ طالبان سے مذاکرات اور افغانستان سے معاملات طے کرائے۔ یہاں تک کہ جب عمران خان نے ٹرمپ کو کشمیر کے حوالے سے فون کیا تو ٹرمپ نے عمران خان کی بپتا مختصراً سُن کر افغانستان پر بات شروع کر دی اور کشمیر کے حوالے سے کوئی عندیہ نہ دیا۔ اُلٹا امریکی وزیر خارجہ نے -15 اگست کو جلتی پر تیل چھڑکا جب کشمیر لہولہان کیا جا رہا تھا۔ پاکستانی یوم سیاہ منا رہے تھے۔ مودی سرکار بربریت مچا رہی تھی تو پوپلے سے منہ والے امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے تزک و احتشام سے بھارت کو تہنیتی پیغام بھیجا۔ مبارکبادی کے ساتھ تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ یہ امریکہ کا مکروہ چہرہ ہے۔ نریندر مودی نے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کر کے مقبوضہ کشمیر کو جہنم بنا دیا۔ باقی لوگوں سے ہم کیا شکوہ کریں جب 57 اسلامی ممالک پر مشتمل اسلامی سربراہ کانفرنس کے تمام ممبران ستّو پی کر سوتے رہے۔ شاہ محمود قریشی کے بار بار خط لکھنے، فون کرنے پر یہ غفلت کی ماری تنظیم بڑی مشکل سے اٹھی۔ او آئی سی سے زیادہ تو بھارت میں موجود کئی بھارتی سماجی تنظیموں نے اپنے طور پر سخت مذمت کی۔ سکھوں نے مثالی کردار ادا کیا بلکہ خالصتان نے نیا نقشہ جاری کیا جس میں بھارت کو چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں منقسم دکھایا۔ بھارت کے ٹوٹنے کے پیشنگوئی کی اور جموں و کشمیر کی پاکستان کا حصہ بنتا دکھایا۔ شاہ محمود قریشی کے بار بار او آئی سی کا دروازہ کھٹکٹانے پر بڑی مشکل سے او آئی سی نے جو مطالبہ کیا ، وہ یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر سے کرفیو اٹھایا جائے۔اسلامی کانفرنس کی تنظیم کے اراکین نے یہ قرار داد منظور نہیں کی کہ وہ بھارت سے تجارتی ثقافتی تعلقات منقطع کر لیں گے۔ اپنے ملکوں سے کروڑوں بھارتیوں کو نکال دیں گے۔ واضح رہے کہ اس وقت سعودی عرب میں مسلمانوں کے مقابلے میں چار گنا زائد بھارتی نوکریاں کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں بھارتیوں کو پاکستانیوں سے زیادہ حقوق اور مراعات حاصل ہیں۔ بھارتیوں کو زیادہ اہم عہدے تفویض کئے گئے ہیں۔ دوبئی قطر ابوظہبی شارجہ میں ہندوئوں کا بول بالا ہے۔ تمام امیر ترین مسلم ریاستوں میں بھارتی ہندوئوں کی یلغار ہے۔ ہمارے شیخ ہندئو حسینائوں کی زلفوں کے اسیر ہیں۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024