ویلکم مسٹر پرائم منسٹر
ملک کے 22 ویں وزیراعظم عمران خان کو پاکستان اور دنیا بھر میں خوش آمدید کہا جا رہا ہے ان کے سادگی پروگرام سے قوم مسرور ہے 20 رکنی ٹیم سامنے آ گئی ہے۔ انشاء اﷲ اب عمران خان کی قیادت میں بانی پاکستان کے فلسفے کام ‘ کام اور کام کے خواب کو تعبیر ملے گی۔ یہ درست ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف نے نوجوان نسل کو پاکستان سے محبت کرنے اور پاکستان کی خدمت میں حصہ لینے کا سیاسی شعور دیا۔ یہ اسی شعور آگہی کی برکت ہے کہ پی ٹی آئی سیاست کے بڑے اور دیوقامت برج زمین بوس کر کے ایوان اقتدار میں داخل ہوئی۔ پرسوں حلف کی تقریب بھی سادگی کا نمونہ بنی ہوئی تھی۔ چائے بسکٹ سے تواضع پر 50 ہزار روپے خرچ آیا حالانکہ اس سے پہلے یہ اخراجات 94 لاکھ تک گئے تھے۔ حلف کے دوران قبل خان صاحب کو عینک کی ضرورت پڑی تو اس سادہ منش بندے نے شیروانی اوپر اٹھا کر قمیض کی جیب سے عینک نکالی ۔گو بہت سو کو عوامی لیڈر کا یہ عمل اچھا نہیں لگا مگر مقبول لیڈر شپ ایسے ہی امور کی انجام دہی سے آگے بڑھتی ہے۔ عمران خان نے ثابت کر دیا کہ وہ مصنوعی پن کی ملمع کاری سے خود کو دور رکھنے والے انسان ہیں۔ ذرا 7 روز پہلے کا منظر یاد کریں 13 اگست کو قومی اسمبلی کے ابتدائی اجلاس میں اراکین کا حلف ہونا تھا خان صاحب پارلیمنٹ میں آئے اور قومی اسمبلی میں داخلے سے قبل انہیں رکن کارڈ کی ضرورت پڑی جب فوٹو سیشن کا معاملہ آیا تو واسکٹ ناگزیر تھی۔ عوامی لیڈر نے اسمبلی ملازم سے اس کی واسکٹ لینے اور اسے زیب تن کرنے میں کوئی شرم محسوس نہیں کی۔ سادگی ‘ قناعت اور عوامی دوستی کے یہ انمول جذبے انشاء اللہ قوم آئندہ بھی دیکھے گی۔ قوم مسرور اور نہال ہے کہ اب نیا پاکستان بن رہا ہے۔ ابھی ہم نے توانائی بحران ‘ بے روزگاری اور تعلیم و صحت کے مسائل سے نبٹنا ہے اﷲ کرے پاکستان حضرت قائد اعظم ؒاور حضرت اقبالؒ کے خوابوں کی تعبیر بن جائے آمین …عمران خان کا تعلقمیانوالی ہے ان کے عزیز کثیر تعداد میں جنوبی و شمالی وزیرستان بھی آباد ہیں،5 اکتوبر کو شہر لاہور میں سول انجنیئراکرام اللہ نیازی کے گھر جنم لینے والے عمران خان نے ابتدائی تعلیم ایچی سن کالج،کیلے گرائمر کالج ور آکسفورڈ یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس،فلاسفی اور اکنامکس میں ماسٹرز کیا ، والدہ شوکت خانم کا تعلق برکی خاندان سے تھا ،مشہور کرکٹر ماجد خان اور جاوید برکی ان کے کزن ہیں، عمران خان کے آبائو اجداد میں سے ہیبت خان نامی شخص شیر شاہ سوری کے دور میں گورنر پنجاب تھے،انگریز دور میں ان کے آباء بستی دامنیش جالندھر میں رہتے تھے، عمران خان تیرہ سال کی ہی عمر میں اپنے کالج کی جانب سے کرکٹ کھیلنے لگے ،18سال کی عمر میں انہوں نے پاکستان کی قومی ٹیم میں جگہ بنا لی، عمران خان کی قیادت میں پاکستان نے 1992میں کرکٹ ورلڈ کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا،ہلال امتیاز اور پرائڈ آف فارمنس سمیت کئی قومی و انٹرنیشنل ایوراڈز یافتہ عمران خان نے اپنی والدہ شوکت خانم کے نام سے لاہور میں کینسر ہسپتال کی تعمیر کا نہ صرف اعلان کیا بلکہ اسے پایہ تکمیل تک بھی پہنچایا،،نمل یونیورسٹی بھی بنائی،1996میں عمران خان نے سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا او ر پاکستان تحریک انصاف کی بنیاد ڈالی،پہلی بار میانوالی اور لاہور سے انتخابات میں حصہ لیا مگر ناکام رہے،الیکشن 2002میں صرف ایک نشست حاصل کر پائے مگر ہمت نہ ہاری،30اکتوبر2011کو لاہورکے کامیاب جلسے نے عمران خان کی سیاست کو جلا بخشی، اسی جلسہ میں عمران خان نے تبدیلی کا نعرہ بلند کیا تھا،اور وقت کے ساتھ تبدیلی اور نیا پاکستان کا نعرہ زبان زد عام ہوتا گیا اور اسی تبدیلی کے نعرے نے عمران خان کی سیاست نہ صرف زندہ کی بلکہ انہیں کامیابی کی ڈگر پر ڈال دیا اور آخر کار 2018کے الیکشن میں عمران خان کو وہ کامیابی ملی جو انہیں وزیر اعظم کی سیٹ تک لے آئی ۔جہاں تک پاکستان میں وزارت عظمیٰ کی تاریخ کا تعلق ہے تو یہ کوئی زیادہ خوشگوار نہیں رہی اور حقیقت یہ ہے کہ آج جب کہ اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنی 71سال کی زندگی کے گرم وسرد دیکھ چکا ہے کوئی ایک بھی منتخب وزیر اعظم اپنے عہدے کی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا ، یہاں تک کہ دوتہائی اکثریت حاصل کرنے والے وزیر اعظم بھی اپنی مدت پوری کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے ، دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان جو اپنے اتحادیوں کی حمایت سے وزارت عظمیٰ کی کرسی تک پہنچے ہیں وہ ماضی کی تاریخ تبدیل کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں ؟ عمران خان 22ویں منتخب وزیر اعظم ہیں ، نگران وزیراعظموں سمیت یہ تعداد 26بنتی ہے ۔ 20013میں 24ویں وزیر اعظم کے طور پر میر ہزار خاں کھوسو نگران وزیر اعظم بنے جو سابق چیف جسٹس فیڈرل شریعت کورٹ تھے۔عام انتخابات میںکامیاب ہونے پر نواز شریف نے تیسری مرتبہ بطور 25ویںوزیر اعظم کا حلف اٹھایا،ان کے عرصہ اقتدار میں انقلابی مارچ اور دھرنے ہوئے مگر کچھ نہ ہوا بالآخر ’’پانامہ پیپرز‘‘ کا کیس سامنے آیا اور یوں طویل تفتیش اورسماعت کے بعد 28جولائی2017کو سپریم کورٹ نے انہیں نا اہل کر دیا۔ نااہلی کے بعد شاہد خاقان عباسی کو وزیر اعظم بنایا گیا ، انہیں پاکستان کا 26واں وزیر اعظم بننے کا اعزاز حاصل ہو ا ، انہوںنے مسلم لیگ کی باقی ماندہ مدت پوری کی اور پھر جسٹس (ر) ناصرالملک کو نگران وزیراعظم بنایا گیا جو پرسوں وزیر اعظم عمران خان کے حلف کے بعد اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ۔