جمہوری روایات کہاں گئیں؟
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے ملک کے 22 ویں وزیراعظم کا حلف اٹھا لیا‘ وزارت عظمیٰ اور کابینہ کے اراکین کے حلف کے بعد مرکز و صوبائی حکومتوں کی تشکیل کا مرحلہ خوش اسلوبی سے طے ہونے جا رہا ہے ۔ مسلسل تیسری مرتبہ انتقال اقتدار کی پرامن منتقلی پر قوم نازاںہے جمہوریت چلتی رہے اور پروان چڑھے تو اس میں ملک و قوم اور قومی اداروں کا فائدہ ہے۔ پرسوں قومی اسمبلی نے 330 اراکین کے ایوان نے چیئرمین پی ٹی آئی کو 176 ووٹ کے ساتھ قائد ایوان (وزیراعظم) چنا مسلم لیگ اور اس کی حلیف جماعتوں کے امیدوار میاں شہباز شریف 96 ووٹ پا سکے۔ پیپلز پارٹی میں قائد ایوان کے لئے صدر مسلم لیگ کو ووٹ دینے پر تقسیم نظر آئی ۔ جناب آصف زرداری کے بغیر پی پی اراکین ایوان میں حاضر تھے مگر پی پی اراکین ووٹنگ سے لاتعلق رہے ۔ پیپلز پارٹی جس مجبوری کا شکار ہے اور جس ممکنہ صورتحال سے متاثر ہے اس کی بناء پر جناب آصف زرداری نے جو کارڈ کھیلا اس کے درست اور صحیح سمت کا تعین تو وقت کرے گا؟ تاہم سیاسی پنڈت چیئرمین پی پی بلاول بھٹو زرداری کے قومی اسمبلی میں ابتدائی خطاب کو بہت اہمیت دے رہے ہیں۔ عدم برداشت ‘ بے صبری اور مخالفین کو برے نام دے کر جس برے انداز سے پکارنے کی جو رسم پی ٹی آئی کے حصے میں آئی ‘ اس کا ذکر بھٹو کے نواسے نے خوب کیا ۔ خان صاحب آپ ان کے بھی وزیراعظم ہیں جنہیں آپ باسٹرڈ کہا کرتے تھے۔ ان کے بھی آپ پرائم منسٹر ہیں جنہیں آپ ہر جلسہ میں طعنے دیتے رہے۔ بلاول بھٹو نے عمران خان کو منتخب وزیراعظم کی بجائے ’’سلیکٹ‘‘ پرائم منسٹر کہہ کر پکارا تو دوسری جانب عمران خان اور شاہ محمود قریشی چیئرمین پیپلز پارٹی کے اس طنز کو سمجھ نہ پائے اور ڈیسک بجا کر ان کلمات کا خیر مقدم کیا۔ ہمارے نزدیک چیئرمین پی پی کے خطاب کی سب سے اہم بات عمران خان کی تیزی سے مقبولیت اور پذیرائی سے متعلق تھا وہ کہتے ہیں کہ آپ کو اس مقام اور اس نشست تک لانے کے لئے کس کس نے کیا کیا قیمت ادا کی اس منظر سے اب پردہ اٹھا دینا چاہئے۔یقیناً جب پردہ اٹھے گا تو قوم کو بہت سے حالات سے آگاہی ملے گی۔ قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کو پہلی بار غیر متوقع احتجاج کا سامنا کرنا پڑا۔ اب شاید اس پارٹی کو شور ‘ تنقید اور امتیازی رویے کی سیاست کا اندازہ ہو گیا ہو گا۔ خیال تھا کہ قائد ایوان کی حیثیت سے عمران خان تاریخی لمحات میں تاریخی خطاب کریں گے مگر وہ یہ قیمتی لمحات ضائع کر گئیَ,, کسی ڈاکو کو این آر او نہیں ملے گا‘ شہباز شریف اور مولانا فضل الرحمن نے احتجاج کرناہے تو شوق سے کر لیں کنٹینر حکومت فراہم کرے گی،، قائد ایوان منتخب ہونے کے بعد قومی اسمبلی کے ماحول کو پرامن اور سازگار رکھنے کی اولین ذمہ داری عمران خان اور ان کی حکومت پر عائد ہوتی ہے ایسے لمحات میں انہیں اپنی انتخابی مہم اور احتجاجی جلسوں میں کی گئی تقاریر کے انداز خطابت کو یکسر بدلنا ہو گا خان صاحب کو اس بات کا ادراک ہونا چاہئے کہ اب حکومت ان کی ہے۔ اپوزیشن کے کڑوے کسیلے سوالات کا جواب دلیل اور تحمل سے دینا ہی دانشمندی اور اچھی طرز حکمرانی کی نشانی ہے۔ رہا ایسے سوالات سے بچنے کا طریقہ تو وہ میاں شہباز شریف نے پارلیمانی کمشن بنانے کی صورت میں دے دیا ہے پیپلز پارٹی نے بھی اس کی تائید کی ہے۔ یہ کمشن دھاندلی کے الزامات کا جائزہ لے کر ان امور کی نشاندہی کرے گا کہ انتخابی صورتحال بند گلی کی پراسرار مسافر کیوں بنائی گئی۔ تجویز ہے کہ پارلیمانی کمشن ایسی تجاویز بھی دے جس سے الیکشن کمیشن کو کلی آزاد بنا دیا جائے اور جب پارلیمانی کمشن کی سفارشات آ جائیں تو پھر اس کی روشنی میں قانون سازی کرنے کا انقلابی فیصلہ بھی لگے ہاتھوں ہو جانا چاہئے۔ اس سارے سیاسی حالات سے ’’پرے‘‘ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کا ٹرائل بھی ہو رہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ ان دنوں احتساب کورٹ کے فیصلے سے متعلق سماعت میں مصروف ہے میاں صاحب کو بکتر بند گاڑی میں لانے کا انداز سخت تنقید کی زد میں رہا اور جب مسلم لیگ ن نے بطور جماعت اس قدم کے خلاف احتجاج کیا توسابق وزیراعظم کو کرولا (گاڑی) میں لایا گیا جبکہ لیگی کارکن بکتر بند گاڑی کی طرف احتجاج کرتے رہے۔ گاڑی کی تبدیلی سے ثابت ہو رہا ہے کہ فیصلے کس انداز سے کئے جا رہے ہیں اور تبدیل ہو رہے ہیں؟ سوال یہ ہے کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف کے جرم ایسے ہیں کہ انہیں دہشت گردوں کی طرح جیل سے عدالت تک کا سفر کرایا جائے ؟ ان کی سیکورٹی کے پیش نظر ایسے اقدامات بھی کئے جا سکتے ہیں جو لیگی قیادت اور ان کے کارکنوں ناگوار نہ ہوں یاد رکھیں وقت سدا ایک سا نہیں رہتا۔ وقت نے پلٹنا ہے اور ضرور پلٹے گا۔ فواد چودھری کہتے ہیں کہ اگر لیگی کارکنوں نے روش نہ بدلی تو نواز شریف کے جیل ٹرائل پر غور ہوسکتا ہے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ آپ حالات سے ڈر گئے ہیں یا یہ آپ کی بھی مجبوری ہے ؟