وزیر اعظم عمران خان کا جلسوں، دھرنوں، جلوسوں، کارنر میٹنگ اور ہنگامہ خیز پریس کانفرنسوں میں خطابات سے ’’قوم سے پہلے خطاب ‘‘تک کا سفر واقعی کٹھن تھا۔ ایک وقت تھا جب ’’تحریک انصاف‘‘ کا آغاز ہوا تو اُس وقت سوائے پی ٹی وی کے اورکوئی چینل نہیں تھا۔ عمران خان نے جب سیاست میں قدم رکھا اور پارٹی کی بنیاد رکھنے کے بعد پہلا خطاب کیا تو مجھے یاد ہے کہ اُس خطاب میں اور آج کے ’قوم سے خطاب‘ میں کوئی واضع فرق نہیں ہے۔ اُس وقت بھی عمران خان نے سسٹم کی بات کی، آج بھی انہوں نے سسٹم کی بات کی، اُس وقت بھی کرپشن کے خلاف جنگ لڑنے کا عزم کیا اور آج بھی انہوں نے خطاب میں کرپشن کے خلاف ’’ایٹمی جنگ‘‘ لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے سچ بات کہی کہ وہ لیڈر ہو ہی نہیں سکتا جس کا پیسہ باہر کے بینکوں میں پڑا رہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اُس وقت اُن کے لیے اپوزیشن کی ’’پوزیشن‘‘ صفر تھی جبکہ آج اُن کا گھیرائو ملک کی دو بڑی پارٹیوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے ایسے لیڈروں جن پر کرپشن کا الزام ہے نے کیاہوا ہے۔ انہی دونوں جماعتوں کے قائدین کی کرپشن کو آشکار کرکے عمران خان کو عوام نے منتخب کیا ہے اور اُنہیں موقع دیا ہے کہ آئو اور اس ملک کی تقدیر بدل دو!
وزیر اعظم عمران خان نے اپنے خطاب میں بہت سی باتیں کی ہیں جن کے بارے میں قارئین جان چکے ہوں گے۔ مگر چیدہ چیدہ باتیں جن کا یہاں ذکر کرنا مناسب سمجھتا ہوں اُن میں وزیر اعظم کا بڑا پن ہے کہ وہ محض دو ملازم اور دو گاڑیاں رکھ کر عوام کے پیسے بچانے کی مہم کا اپنے آپ سے آغاز کریں گے۔ وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی بھی اتنے مشکل مالی حالات نہیں تھے ،ہمیں قرضوں پر سود ادا کرنے کیلئے بھی قرضہ لینا پڑتا ہے،بھکاری قوم عظیم نہیں بنتی، ہمیں سوچ اور رہن سہن بدلنا ہوگا۔وزیر اعظم نے اُن کارکنوں کا دل بھی جیت لیا جو یہ سوچتے تھے کہ عمران خان نے انہیں بھلا دیا ہے، حالانکہ انہوں نے اس تاریخی خطاب کے پہلے لمحے میں ہی اُن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ سب سے پہلے اپنے کارکنوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جو 22 سال سے میرے ساتھ ہیں،انہوں نے تانگہ پارٹی کا طعنہ بھی سنا،بڑے مشکل وقت میں میرے ساتھ چلنے والوں کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔انہوں نے خطاب میں قائداعظم کو اپنا آئیڈیل کہا جس کے بارے میں وہ اکثر اپنے خطاب میں کہا کرتے تھے۔ وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ سیاست میں اس لئے آیا کہ پاکستان کو ویسا ملک بنائیں جیسا اسے ہونا چاہیے،قائد اعظم اوراقبال کا پاکستان چاہتا ہوں، پیپلزپارٹی کی حکومت گئی تو قرضہ 60ارب ڈالر تھا،روپے پر سارا دبائو بیرونی قرضوں کی وجہ سے ہے۔ان کا کہناتھاکہ ایک طرف قوم مقروض ہے ،دوسری طرف صاحب اقتدار کا طرز زندگی انگریز دور جیسا ہے ،ڈی سی ،کمشنر، گورنر بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں،اگر ملک اسی طرح چلتا رہا تو قوم ترقی نہیں کریگی۔عمران خان کا کہنا تھا کہ میں نے ساری زندگی میں ایک چیز سیکھی ہے مقابلہ کرنا، انہوں نے مدینہ کی ریاست کیلئے خلفا راشدین کی زندگی سے کئی مثالیں دی اور کہا کہ یہ اصول مغرب نے اپنالئے ہیں،صاحب اقتدار کرپشن کرتا ہے تو ادارے تباہ ہوتے ہیں،کوئی بھی ملک اتنی کرپشن برداشت نہیں کر سکتا،کرپشن کے خاتمے کیلئے پورا زور لگانا ہے،آج وقت ہے کہ ہم اپنی حالت بدلیں۔معیشت کے حوالے سے عمران خان نے کہا کہ بیرونی ملک مقیم پاکستانوں کیلئے سرمایہ کاری کے مواقع پیدا کریں گے،ہمیں اس وقت ڈالر کی ضرورت ہے، اوورسیز پاکستانی اپنا پیسہ پاکستان کی بینکوں میں رکھوائیں، بیرونی ملک پاکستانیوں کیلئے پیسے ملک بھیجنے میں آسانیاں پیدا کریںگے،بیرون ملک کام کرنے والے ملک کا اثاثہ ہیں۔وزیراعظم کا یہ کہنا کہ آپ کا ٹیکس آپ پر خرچ ہوگا،باہر بھیجا گیا پیسا واپس لانے کیلئے ٹاسک فورس قائم کریں گے،ہم سادگی اور کفایت شعاری کی مہم چلائیں گے،بڑے بڑے گھروں میں رہنے والے لوگ ٹیکس نہیں دیتے،سب سے پہلے ایف بی آر کو ٹھیک کرنا ہے۔حقیقت میں خوش آئند باتیں ہیں۔ اورعمران خان نے پاکستان کا ایک تبدیل شدہ نقشہ پیش کیا ہے۔ ہم دعا کرتے ہیں کہ وہ اپنے خیالات و نظریات میں پورا اُتریں اور پاکستان میں ایک نئی تبدیلی کا امکان موجود رہے۔
آج یہ بات تو ہر شخص کہہ رہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کے سامنے بڑے چیلنج ہیں اور اس پر مستزاد یہ کہ اُن کے عوامی دعوے اور بھی عظیم الشان ہیں۔ ایک بڑا مالیاتی اور مالی بحران منہ پھاڑے کھڑا ہے اور پہلے سے بھی بڑے کشکول کا متقاضی۔ پاکستان گرے لسٹ سے بلیک لسٹ پر پہنچنے کو ہے دُنیا میں یکا و تنہا ہے۔ پھر انتظامی، عدالتی اور اداراتی اصلاح کا وسیع ایجنڈا ہے اور اوپر سے 100 روز کے عوامی اعلانات کے وعدے، یہ سب کچھ معیشت کے عالمِ نزاع میں کیا جانا ہے۔میرے خیال میں وزیراعظم عمران خان کو اپنے جلوے دکھانے کا پورا موقع دینا چاہیے۔ لوٹی ہوئی دولت کو واپس لانے کا کام جوئے شیر لانا ہے۔ جب آوے کا آوا ہی بگڑا ہو تو اچھی حکمرانی کے لیے دو چار بڑے اچھے افسر کافی نہیں۔عمران خان کی بڑی حمایت متوسط طبقے کے نوجوانوں میں ہے جو اُن کی محبت میں کچھ سننے کو تیار نہیں۔عمران خان نے اُن کے لیے بھی کچھ کرنا ہے۔ خیر وقت کم ہے اور عمران خان کے لیے مقابلہ تیز جبکہ اپوزیشن بھی چھریاں تیز کیے بیٹھی ہے۔اور ٹف ٹائم دینے کا تیار ہے۔ دعا ہے کہ عمران خان اور اُن کی ٹیم ڈوبتے ہوئے پاکستان کو بچانے میں اہم کردار ادا کریں گی۔
دوسری جانب پنجاب کے نو منتخب وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کے حوالے سے یہی کہنا چاہوں گا کہ وہ ایک متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے شخص ہیں ۔ اور نئے پاکستان میں ایسے ہی وزیر اعلیٰ فٹ بیٹھتے ہیں جو عمران خان کے وژن کو آگے لے کر چلیں۔ جس طرح عمران خان خود پروٹوکول لینے کے قائل نہیں ہیں اُن کی ٹیم بھی یقینا ایسا نہیں کرے گی اور یہ اسی بات کی زندہ مثال ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب نے آج صوبائی اسمبلی سے منتخب ہونے کے بعد نا صرف پروٹوکول لینے سے منع کیا بلکہ کسی قسم کی سکیورٹی بھی نہیں لی۔ اور نہ ہی سرکاری رہائش گاہ کو لیا، میں سمجھتا ہوں کہ یہی پاکستان میں سب سے بڑی تبدیلی ہے۔ کیوں کہ ماضی میں سب کو یاد ہوگا کہ کہاں ابھی لوگ نامزد ہوتے تھے تو سائرن، ہوٹر والی گاڑیوں کے ساتھ سڑکوں پر نکل جاتے تھے۔لیکن عثمان بزدار حقیقت میں عوامی لیڈر ہیں۔ جو ابھی رات گیارہ بج رہے ہیں مگر وزیر اعلیٰ پنجاب اپنی گاڑی میں مختلف جگہوں کا بغیر پروٹوکول دورہ کر رہے ہیں ۔ اور قانون کے احترام کے ساتھ وہ اپنے ملک کے شہریوں کے ساتھ مل رہے ہیں ۔ یقینا یہی نیا پاکستان ہے اور نئے پاکستان کی یہی اعلیٰ ٹیم ہے جو عوام کی مدد سے ڈوبتے ہوئے ملک کو بچائے گی۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024