صنفی توازن موجودہ وقت کی ا ہم ضرورت
مکرمی! انسان جس تیزی سے ترقی کی جانب گامزن ہے اُسی تیزی سے وہ ا پنی روایات، ثقافت اور تہذیب کو بھولتا جا رہا ہے کہ ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے ہمارے کیا عقائد ہیں اور کیا معاشرتی قدریں ہیں؟ مرد اور عورت کی برابری کی بات کی جائے تو ہر شعبہِ زندگی میں عورت، مرد کے شانہ بشانہ کام کر رہی ہیں۔ پاکستان کی 48.76% فیصد آبادی عورتوں پر مشتمل ہیں اورجو کچھ اب ہو رہا ہے وہ قابلِ قبول نہیں ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کیا جا رہا ہے یا ہوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے اور ا س میں کم عمر بچیاں بھی شامل ہیں اور کہیں ایسی معاشرتی رسمیں ہیں جس کی بنا پر عورتوں کا استحصال کیا جا رہا ہے توکہیں زنی کہہ کر قتل ہو رہی ہیں۔ ان کی اجازت اسلامی اقدار بھی نہیں دیتیں۔ صنفی مساوات کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کیونکہ خواتین انسان ہونے کے ناطے اتنے ہی حقوق رکھتیں ہیں جتنے مردوں کے ہیں۔ ایک اسلامی ریاست میں رہتے ہوئے انہیں اسلامی مذہب کے مطابق عزت و مرتبہ اور تحفظ دیا جائے اور اس امر کے لئے کوشش کی جائے کہ خواتین کو معاشرتی، معاشی اور سیاسی تمام شعبوں میں زیادہ سے زیادہ حقوق و تحفظ فراہم کیا جائے تاکہ معاشرے میں صنفی توازن پیدا ہو اور ہمارے ملک کی آدھی سے زیادہ آبادی پورے اعتماد، حوصلے اور بغیر ڈاکے ملک و قوم کی ترقی میں ا پنا بھرپور کردار ادا کر سکے۔ (عائشہ عثمان، لاہور کالج )