تخت پنجاب کا نیاوارث
پنجاب کے دور دراز کونے سے’ پسماندہ ترین تونسہ شریف کے سردار عثمان بزدار وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے مخالفین کو چھوڑیں تحریک انصاف میں بڑے بڑے جغادری منہ دیکھتے اور ہاتھ ملتے رہ گئے۔
سردارعثمان بزدار نے 186 جب کہ حمزہ شہبازنے159ووٹ حاصل کیے۔وزیراعلیٰ کا انتخاب خفیہ رائے شماری کے بجائے اراکین کو اسپیکر کے دائیں اور بائیں جانب جمع ہو کر ان کی گنتی کے عمل سے کیا گیا پیپلز پارٹی نے انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔چودھری پرویز الہی نے عثمان بزدار کو ووٹ دینے والے اراکین کو اسمبلی ہال کے دائیں جانب اور حمزہ شہباز کو ووٹ دینے والے اراکین کو بائیں جانب لابی میں جمع ہونے کی ہدایت کی جس کے بعد ہال کے دروازے بند کرادیے گئے جب کہ اسپیکر نے ہدایت کی کہ جب تک اراکین کی گنتی مکمل نہیں ہوتی کوئی رکن باہر نہیں جائے گا۔ق لیگ سے ہوتے ہوئے نون لیگ اور 6 ہفتے قبل تحریک انصاف میں شامل ہونے والے عثمان بزدار بلوچوں کے بھیڑ بکریاں چرانے والے قبیلے بزدار کے سردار فتح محمد کے بڑے صاحبزادے ہیں۔سردار فتح محمد خان بزدار سیاست میں آنے سے پہلے 70 کی دہائی میں سرکاری سکول میں گریڈ 14 کے استاد تھے وہ ملازمت سے مستعفی ہو کر سیاست میں آئے اور تین مرتبہ رکن پنجاب اسمبلی منتخب ہوئے یہ کس قسم کے بلوچ سردار ہیں اس کا اندازہ اس حقیقت سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی سرداری اور گھر ‘گھر ہستی چلانے کےلئے سکول میں بچوں کو پڑھاتے رہے۔ وزیراعلیٰ سردار عثمان بزدار کے دادا سردار دوست محمد بزدار جماعت اسلامی کے سرگرم رکن رہے۔ انہوں نے 70 کے عام انتخابات میں جماعت اسلامی کے درویش صفت رہنما ڈاکٹر نذیر شہید کی کامیابی میں کلیدی کردار ادا کیا تھا جنہوں نے لغاری تمندار سردار جمال خان لغاری کو شکست دی جو سابق صدر فاروق لغاری کے والد تھے۔ برادر نورالعظیم ریٹائرڈ بنکر ہیں سیاست اور سیاست گری سے گہرا شغف رکھتے ہیں انہوں نے وزیراعلے عثمان بزدار کے حوالے سے تونسہ کے وکیل اور تحریک انصاف کے متحرک ہمدرد فاروق امام ایڈووکیٹ کی عثمان بزدار کے متعلق ان کی رائے اور مشاہدہ پر مبنی گرامی نامہ بھجوایا ہے جس میں وہ لکھتے ہیں۔” عمران خان کا شکریہ کہ انہوں نے پنجاب کے پسماندہ ترین علاقے کے رکن پنجاب اسمبلی کو وزیراعلٰی نامزد کیا. وزیر اعلٰی عثمان بزدار کا خاندان تین نسلوں سے اس علاقے پر حکمرانی کرتا آرہا ہے. لوگوں کے پاس پینے کو پانی نہیں ہے. بجلی نہیں ہے. سڑکیں نہیں ہیں. ہسپتال نہیں ہے. بنیادی مرکز صحت وزیر اعلے کے گھر کے پاس ہی ہے جس کا ذکر کپتان نے کیا اور اس بی ایچ یو میں سردار صاحب کے گھوڑے بندھتے ہیں اور لوگ دوائیاں کریانے کی دوکان سے خریدتے ہیں. کپتان نے کہا کہ سردار صاحب کے اپنے گھر میں بجلی نہیں ہے. یہ درست ہے مگر یہ سردار صاحب کا گھر نہیں‘مکان ہے، ان کے گھر تو تونسہ، ڈیرہ غازیخان، ملتان اور لاھور میں ہیں۔ یہاں سردار عثمان بزدار کبھی کبھار رعایا پہ نظر کرم فرمانے تشریف لاتے ہیں۔ اپنے لئے سردار عثمان بزدار بڑے ترقی پسند واقع ہوئے ہیں ان کے اس سیاسی ڈیرے یا مکان میں پچھلے بیس پچیس سال سے سولر سسٹم کام کر رہا ہے جب کہ اس وقت اچھے بھلے لوگ سولر سسٹم سے واقف بھی نہیں تھے. کپتان نے بجا فرمایا کہ سردار صاحب جانتے ہیں کہ غریب عوام کس طرح رہتے ہیں, وہ کیوں نہ جانتے ہوں گے, تین نسلوں سے غلام عوام کی پسماندگی کا سبب ان کا خاندان ہی تو ہے وہ کیوں نہ جانتے ہونگے. بہر حال ہماری نیک خواہشات کپتان کے ساتھ ہیں“ وزیر اعلیٰ سردار عثمان بزدار کی حمایت میں تونسہ میں کام کرنے کا تجربہ رکھنے والے اسٹنٹ کمشنر قمر زمان بلوچ میدان میں آئے ہیں وہ لکھتے ہیں:
عثمان بزدار وزیرِ اعلیٰ کیا نامزد ہوئے، پنجاب کی دھرتی کو شیرِمادر سمجھ کر چوسنے والی سیاسی اشرافیہ ، مافیاز کا غول، صحافت کے بھانڈ ، سٹیٹس کو کے موقع پرست، پنجاب کو مردار سمجھ کر اس کے بدن سے اپنے اپنے حصے کا ماس بھنبھوڑنے والے گدھ سب مل کر نشانہ باندھے کنکر پہ کنکر ا±چھال رہے ہیں۔ کیا اپنے کیا پرائے عثمان بزدارسب کی آنکھ میں کانٹا بن کر چ±بھ رہا ہے۔ بڑے بڑے جغادری دانشور، سیاست کے کنگ میکر، بلیک میلزر سب حیران ہیں کہ بادشاہی کا ہما ان کے سر کو نظر انداز کر کے ایک مڈل کلاس کے ایسے شخص پہ کیسے مہربان ہو سکتا ہے جس کی بستی میں بجلی نہیں جس کا گھر پنجاب کے ا±س کونے میں ہے کہ جہاں کا مجبور بلوچ لاہور کی روشنیاں دیکھنے آئے تو گھر کا راستہ بھول جائے، ان کی تکلیف کا مداوا کیونکر ممکن ہے کہ جنکو یہ سوچ کر ہول ا±ٹھ رہے ہیں کہ پنجاب کی پگ کا وارث کسی چوہدری، کسی میاں اور کسی ملک کی بجائے کوئی ایسا بلوچ کیسے ہو سکتا ہے کہ جس کے بنیادی حقوق تک کو پائمال± کر کے اس کے پہاڑوں سے نکلے قیمتی پتھر اشرافیہ کے ڈرائنگ روم کی زینت بنے ہوئے ہیں۔ بس سوگ کی کیفیت ہے اور ماتم برپا ہے۔
2011 میں اس خاکسار کی تعیناتی تونسہ شریف میں بطور اسسٹنٹ کمشنر ہوئی تو سردار عثمان خان بزدار سے بھی نشستیں ہوئیں کہ جو صرف نام کے سردار ہیں۔ ان کے والد سردار فتح محمد بزدار کہ جن کی شرافت کی ایک دنیا گواہ ہے۔ میرے دفتر میں آتے تو نہ ہٹو بچو کا شور ،نہ لوگوں کا جم غفیر نہ ہوٹر والی گاڑیاں۔ ایک چِٹ پر لکھے عوام کے چھوٹے چھوٹے کام۔ منکسر المزاج سردار صاحب کو بتایا جاتا کہ کون سے کام ہونے والے ہیں اور کون سے کام ہونے میں کونسا قانونی سقم ہے۔ بڑے سردار صاحب نہ تو کبھی ناراض ہوئے اور نہ ہی کبھی اپنی بات پہ اصرار۔ عثمان بزدار کا لہجہ بھی وہی دھیما اور متانت سے بھرپور۔ یہاں تو ایک کونسلر جامے میں نہیں سماتا اور کہاں ایک تمندار سردار اور ایم پی اے کا نوجوان بیٹا سر جھکائے خاموش رہتا تھا۔
تونسہ شہر کے مشہور کالج روڈ سے تجاوزات ہٹا کر ک±شادہ کرنے کا فیصلہ ہوا تو اس وقت کے سردار اور مقامی ایم پی اے کا گھر دوسرے تیسرے نمبر پر موجود تھا۔ میں نے عثمان خان کو فون کیا تو بولے ”پہلے میرا گھر گرائیے، نہیں گرائیں گے تو آپ کو اور کون ہاتھ لگانے دے گا“ اور یوں عوامی سہولت کا یہ کام شروع ہو سکا۔آپ لاہور کے کسی کن ٹ±ٹے پہلوان کی طرف سے بند کی ہوئی کوئی عوامی گلی کھول کر دکھائیے۔ایک دفعہ میں نے ع±ثمان خان کو کال کر کے ا±ن کے ایک بھائی کی شکائت کی۔ کہنے لگے ”کوئی غیر قانونی حرکت کرے تو میری طرف سے ا±سے گرفتار کروادیں“ لیجئے صاحب، آپ گوجرانوالہ کے کسی ایم پی اے کے ڈرائیور کے قانون شکن بھائی کو گرفتار کرنے کی ہمت کر دیکھیں۔میڈیا ئی بچے جموروں کی چیخیں آسمانوں پر ہیں اور تعصب کا کرب ا±نکے چہروں سے عیاں ہے۔ جھوٹ کے قلابے ملائے جا رہے ہیں۔ گڑے م±ردے ا±کھاڑے جا رہے ہیں پر کہانی ہے کہ بننے میں نہیں آرہی۔ فرسودہ سسٹم کے علمبرداروں کو خبر ہو کہ آپ چاہے عثمان بزدار کے کھاتے میں ہابیل کا قتل ڈال دیں پر تونسہ کی پسماندہ ترین تحصیل کا یہ مڈل کلاس ن±مائیندہ، ک±ہنہ سسٹم کی آخری سسکی اور حقیقی تبدیلی کا استعارہ ہے۔نونی میڈیا سیل چاروں اور سے وزیراعلے بزدارحملہ آور ہو چکا ہے اب ان کے کڑاکے نکالے جا رہے ہیں جھوٹے سچے ثبوت گھڑے جارہے ہیں کسی قتل میں 75 لاکھ قصاص اور دیت کے فسانے سنائے جا رہے ہیں موصوف صرف 6 ہفتے پہلے تحریک انصاف میں شامل ہوئے ہیں ان تمام واقعات کا تعلق تو اس وقت سے ہے جب وہ نون لیگ کا حصہ تھے۔
ایک سکول ٹیچر استاد جو اپنے چھوٹے سے قبیلے بزدار کا سردار بھی ہے کتنا امیر کبیر ہو گا زیادہ سے زیادہ خطِ غربت سے ذرا اوپر متوسط طبقے میں ہی ڈالا جا سکتا ہے جس کا شریف خاندان کی اندھی دولت سے کیا تقابل وہ تو ان کے میڈیا مینجر ملازمین کا مقابلہ نہیں کر سکتے جن کی گوادر میں ہاوسنگ کالونیاں ہیں اربوں روپے مالیت کے سرکاری پٹرول پمپوں کے ٹھیکے ہیں۔فتح کے بعد نو منتخب وزیراعلے سردار عثمان بزدار نے کہا کہ عمران خان اور تمام ارکان کا شکر گزار ہوں جنہوں نے ان پر اعتماد کیا اور خاص طور پر حزب اختلاف کا مشکور ہوں جو جمہوری عمل کا حصے بنے، حزب اختلاف کے اچھے مشوروں کا خیرمقدم کریں گے۔سردار عثمان بزدار نے کہامیرا میرٹ یہی ہے کہ پنجاب کے سب سے پسماندہ علاقے کا نمائندہ ہوں، خیبرپختونخوا کی طرز پر پنجاب پولیس کو بھی بہتر کریں گے، اداروں کو مضبوط کریں گے، ہر جگہ پر کرپشن کا خاتمہ کریں گے اور جمود کو بھرپور طرح سے توڑنے کی کوشش کریں گے۔حمزہ شہباز نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے واشگاف اعلان کیا کہ وہ یقین دلاتے ہیں کہ اگر حکومت صحیح چلے گی تو ہم بھی ٹھیک چلیں گے۔انتخاب ہارنے کے بعد انہوں نے اپنی اور اپنے والد شہباز شریف کی مستقبل کی سیاسی حکمت عملی کی وضاحت بھی کردی جو جناب نواز شریف اور انکی صاحبزادی مریم کے انداز بیان اور اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔حمزہ شہباز تحریکی ارکان کے شور مچانے پر احتجاجاً اپنی نشست پر بیٹھ گئے اور اسپیکر کی مداخلت کے بعد دوبارہ تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جمہوریت پنپ رہی ہے، امید کرتا ہوں آنے والے وقت میں بہتری آئے گی۔
حکومت سوموار کو بروئے کار ہوگی خود احتسابی کا عمل 48 گھنٹے پہلے شروع ہو چکا تھا کپتان کے گرد منڈلانے والے کئی چہرے وزیراعظم عمران خان کے قریب نہیں پھٹک سکیں گے سادگی کیا ہوتی ہے اس کا اندازہ اس تقابل سے کیا جاسکتا ہے کہ حلف برداری میں مہمانوں کی تواضع کے اخراجات یوسف رضا گیلانی۔۔ 76 لاکھ ،نواز شریف، 92 لاکھ،عمران خان تقریباً صرف 50 ہزارروپے ہوئے۔