میرا وزیراعظم اور بلاول کی مبارکباد !
کہتے ہیں جنگ میں آدمی ایک ہی دفعہ مرتا ہے مگر سیاسی جنگ میں بار بار مرنا مقدر ہوتا ہے۔ خیر، یہ بھی تو کہہ سکتے ہیں کہ، میدان سیاست میں بندہ بار بار جیتا ہے اور بار بار مرتا ہے۔ جی جی کر مرتا ہے اور مر مر کر جیتا ہے!
بلاول بھٹو زرداری کی پہلے بات کرلوں، کیونکہ پھر مجھے اپنے وزیر اعظم محترم و مکرم عمران خان کی بات کرنی ہے۔ بلاول کی یہ بات کہ، اس کی پارلیمنٹ میں پہلی تقریر اچھی تھی، بری تھی، ساری تحریر شدہ تھی یا آدھی ، دل سے تھی یا دماغ سے ، مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا؛ میں تو بس اتنا جانتا ہوں کہ ، بہت سارے بھٹو مخالفین اور زرداری مخالفین نے اسمبلی میں اور اس اسمبلی کے باہر اس بات پر فوکس کیا اور عزت دی کہ ، کون کہہ رہا ہے۔ عام طور پر لوگ کہتے ہیں کہ ، چھوڑو کون کہہ رہا ہے لیکن دیکھو تو کیا کہہ رہا ہے تاہم بلاول کی اسمبلی کی پہلی تقریر میں دونوں باتیں سامنے آئیں کہ (1) کون کہہ رہا ہے اور (2) کیا کہہ رہا ہے!! جو بھی ہے، اس نے میرے وزیراعظم کو میری طرف سے بھی مبارکباد پہنچا دی، شاید میں خود نہ پہنچا سکتا۔ کیونکہ مجھے نہیں معلوم میں لاشوں میں شمار ہوں، گدھوں یا بھیڑ بکریوں میں۔ جن میں بھی شمار ہوں لیکن اللہ بھلا کرے بلاول بھٹو زرداری کا اس نے "غیر" ہوکر بھی میرے وزیراعظم کو میری طرف سے مبارکباد کہہ دیا، شکریہ بلاول کہ، مجھے بھی بتادیا کہ، نعیم مسعود عمران خان آپ کا بھی وزیراعظم ہے، فکر مت کرو۔
ہمارے پاس اور کوئی حسن ہو یا نہ ہو لیکن سردست عمران خان کی وزارت عظمی کے حوالے سے ہم حسن ظن ضرور رکھتے ہیں یا رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جانے کیوں ہمیں اس دفعہ ان مقتدرہ قوتوں پر پیار بھی آرہا ہے اور اعتماد بھی اور نہ جانے ہم کیوں بار بار ان قوتوں کو ریاست کا رومانس بھی قرار دے رہے ہیں۔ اور ہم نے تھک ہار کر یہ بار بارکہنا شروع کردیا ہے کہ، جمہوریت اگر ریاست کا حسن ہے تو مقتدرہ قوتیں ریاست کا رومانس! مر کے بھی چین نہ پایا تو کدھر جائیں گے ؟ ۔
وزیراعظم صاحب! ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے اور بحیثیت کپتانی لیڈر اپنی اس ٹیم کو احسن انداز میں چلا لیں گے جس کے کھلاڑیوں کی اکثریت کا تعلق بہرحال پرویز مشرف اور ق لیگ سے ہے۔ ایک بات کی سمجھ بہرحال نہیں آئی کہ جب الیکشن سے چند روز قبل ن لیگ چھوڑ کر تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کرنے والے عثمان بزدارکے سر پنجاب کی پگ سجانے کا فیصلہ کرلیا جاتا ہے تو سابق سپیکر قومی اسمبلی سید فخر امام جیسے جہاندیدہ، تجربہ کار اور دیانتدار سیاستکار کو وفاقی کابینہ کے لئے کیسے نظرانداز کیا جاسکتا ہے؟ یہ وہ شخص ہے جس نے 1985 میں حکومتی اور آمریت پسند خواجہ صفدر کو سپیکر الیکشن میں شکست سے دوچار کیا اور جس کی جمہوری روش ہمیشہ ان دنوں آمریت کی چھاتی پر مونگ دلتی رہی، آخر ایک جمہوری روش کی رولنگ کی پاداش میں سید فخر امام کے خلاف عدم اعتماد لاکر بے اصولی کو رواج بخشتے ہوئے حامد ناصر چٹھہ کو سپیکر قومی اسمبلی بنایا گیا۔ لوکل گورنمنٹ و لوکل باڈیز (بلدیات و دیہی ترقی سسٹم) کو یہ خوب سمجھتے ہیں جن سے پالیسی سازی میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔ میری ان سے ملاقات ان دنوں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف پارلیمنٹری سروسز اسلام آباد PIPS میں ہوئی جب سابق وفاقی وزیر مملکت چوہدری جعفر اقبال جونیئر نے بطور خاص انہیں ضلع گجرات کے نومنتخب یونین کونسلز چئیرمین و وائس چیئرمین حضرات کے تربیتی پروگرام کے لئے مدعو کیا۔ ساری باتیں اپنی جگہ ایسی سنجیدہ و فہمیدہ اور باکردار و باوقار شخصیت کو ٹیم کا حصہ بنانا سہ جہتی سیاسی و حکومتی و انتظامی فوائد کے دریچے کھولتا ہے! وزارت داخلہ اور وزارت پلاننگ و ڈیویلپمنٹ و ریفارمز میں بہرحال کوئی احسن اقبال سا چاہئے، آپ پسند کریں نہ کریں ریلوے میں سعد رفیق سا منتظم درکار ہے اللہ کرے کہ اب شیخ رشید کے پاس بڑھکوں کے علاوہ ریلوے کیلئے بھی وقت ہو۔ اور انتہائی قابل غور بات آئین سازی ہو یا آئینی ترامیم ایسے پارلیمانی امور میں پیپلزپارٹی کے پارلیمینٹیرین جیسا کوئی نہیں دیکھا۔ یہ بابر اعوان و چوہدری فواد چھاتی کا زور زیادہ لگاتے ہیں دماغ کا کم، سو خیال رکھئے گا۔ ڈاکٹر عشرت جیسے مشیر بھی اچھے ہیں اگر بوڑھے نہیں ہوئے یا نوکری کی طرح نہ کھیلیں اور عہد حاضر کی جدتوں کو مدنظر رکھیں۔ 18 ویں ترمیم کی افادیت کو بروئے کار لانا بھی ضروری ہے۔
ہاں وہ یاد آیا، خان صاحب!وزارت داخلہ سمیت کئی وزارتوں کے قلم دان آپ نے اپنے پاس رکھے( انہیں بہرحال قابل اعتماد اور باکردار لوگوں کو جلد سونپ دیں "ضرورت مندوں " کو نہیں، کیونکہ عمل سے زندگی بنتی ہے، جنت بھی جہنم بھی ) کاش وزارت تعلیم اور وزارت صحت بھی آپ پاس رکھ لیتے کم از کم پلیجرزم ، پروفیسر مافیا، طرم خانی وائس چانسلروں، تیس مار خان بیوروکریٹس اور صوبائی و قومی ہائر ایجوکیشن کمیشنز کے تساہل پسند چئرمینوں کو سمریوں شمریوں کا ڈر تو رہتا، اسی طرح جعلی ادویہ ساز کمپنیوں، جعلی فارمیسی کونسلوں اور ان کے سفارشی سیکرٹریوں، مرکز اور صوبوں کے ڈی جیز ہیلتھ اور ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹیز کے سربراہان کی اپنی صحت تو ٹھیک رہتی۔ اوکے! ہم شفقت محمود کے حوالے سے بھی حسن ظن رکھتے ہیں وہ الگ بات ہے کہ وہ میرے ہی حلقے سے منتخب ہوئے ہیں اور کسی کے جینے مرنے کو بھی لفٹ نہیں کراتے مگر امید ہے کہ وہ ایچ ای سی پاکستان اور اس کی صوبوں سے کوآرڈینیشن کو موثر بنائیں گے۔ اور اپنے محب وطن بھائی اور بہت اعلی تعلیم دوست، سابق وفاقی و صوبائی سیکرٹری ڈاکٹر صفدر محمود سے استفادہ ضرور کریں، ہم ہمیشہ ان سے رہنمائی لیتے ہیں جو اقربا پروری سے پاک ہوتی ہے۔ فیڈرل ہیلتھ سروسز کے وزیر عامر کیانی کو بھی چاہئے کہ وہ سابق وزیر سائرہ افضل تارڑ کے ڈرہپ، فارمیسی کونسل ، نرسنگ کونسل اور پی ایم ڈی سی سے تمام سفید ہاتھیوں کو فارغ کریں تا کہ گلشن کا کاروبار چلے۔
عزت مآب وزیراعظم! بقول بلاول بھٹو زرداری جس طرح آپ سب کے وزیراعظم ہیں اسی طرح آپ ہائر ایجوکیشن، یونیورسٹیوں و کالجوں اور امتحانی بورڈز کے بھی وزیراعظم ہیں۔ تعلیم اور صحت کو ہمیشہ یتیم خانے سمجھا گیا ان کو کبھی باپ نہیں ملا سو آپ ان کے بھی وزیراعظم بن جائیے۔
عمران خان صاحب! ایک انفرادیت آپ میں یقینا ہے کہ جن کے ہاں واقعی حسن کا فقدان ہے وہ بھی آپ کے حوالے سے حسن ظن رکھتے ہیں پس خیال رکھئے گا شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار اینکر ہوں یا منسٹر یہ مروا دیتے ہیں یہ۔ہم آپ کی پہلی اسمبلی تقریر کا بھی خیر مقدم کرتے ہیں ، شوق سے احتساب کیجئے اور کروائیے بھی مگر متعلقہ اداروں سے، اور جہاں کچھ غیروں کے احتساب کی ضرورت ہوتی ہے وہاں کچھ اپنوں کو لگام دینا بھی فرض ہوتا ہے۔ ہاں! بقول بلاول (حالانکہ زباں ان کی ہے بات میری ) انتہا پسندی، انتشار پسندی، خود پسندی اور من پسندی کو دفن کرنا ہوگا۔ ہو سکتا ہے آپ کو آپ کے اپنے لوریاں دیں لیکن بلاول بھٹو زرداری جیسے ناقد آپ کو جگائے بھی رکھیں گے ، اور زندہ بھی، واقعی کپتان بنئے گا لائی لگ نہیں ورنہ شاہ محمود قریشی اور چوہدری سرور سے چھنی خارجیاں اور گورنریاں ان کا ہدف تھا۔ سو گیارہ گنا کے ساتھ انہیں تو مل گیا، انہیں کہئے گا اب کچھ قوم کو بھی دیں! رہی بات چوہدری فواد کی ، تو اس نے جو در در کی سیاسی خاک چھان رکھی ہے اب صبر شکر کریں دانیال و طلال بننے کی کوشش نہ کریں۔ یہ سرداریاں اور حکمرانیاں جہاں اعزاز ہیں وہاں آزمائش بھی۔ مکافات عمل اور تاریخ کو نہ بھولئیے گا، تاریخ کبھی گڈ بائے نہیں کہتی، کہتی ہے پھر ملیں گے! پانچ سال گزرتے پتہ بھی نہیں چلتا یہ سو دن کا ہنی مون، راستوں اور منزلوں کے تعین کا دور تو گزرتا ہی آنکھ جھپکنے میں ہے۔ ویسے بھی آپ کے ہاتھ میں عنان اقتدار ہے بلا نہیں ، آپ تخت پر ہیں کنٹینر پر نہیں۔ بقول بلاول لاشوں، گدھوں، بھیڑ بکریوں اور پوری قوم کے وزیراعظم ہیں ، حتی کہ مجھ جیسے فریادی کے بھی.... ٹھیک ہے سیاست میں بندہ بار بار مرتا ہے لیکن اگر مفاد عام کیلئے ایک سیاسی حکومتی دور بھی شان سے جی لیا جائے تو تاریخ مرنے ہی نہیں دیتی۔
اور "میرے" وزیراعظم! کیا "میری" مبارکباد بذریعہ بلاول بھٹو زرداری آپ نے قبول فرمالی؟؟