آزمائش کا آغاز
پی ٹی آئی چیئرمین کی زیر صدارت پارٹی کا اہم اجلاس منعقد ہوا جس میں شاہ محمود قریشی، جہانگیر ترین سمیت پارٹی کے دیگر رہنماو¿ں نے شرکت کی۔اس موقع پر عمران خان نے کہا کہ 100 روزہ پلان کا مقصد پالیسیوں کو تبدیل کرنا ہے جبکہ وفاقی و صوبائی اداروں کے سربراہان کی تبدیلی کی سفارشات ارباب شہزاد نے مرتب کیں جنہیں منظور کرلیا گیا۔اجلاس میں وفاقی سیکرٹری حضرات کے تبادلوں کی بھی فہرستیں تیار کی گئیں جبکہ سیاسی بنیادوں پر اعلیٰ عہدوں پر تعینات افسروں کو بھی تبدیل کیا جائے گا۔ چیئرمین ایف بی آر، نیپرا، ریلوے، پی آئی اے سمیت کئی اداروں کے سربراہوں کی تبدیلی کا منصوبہ تیار کیا گیااور ساتھ ہی سرکاری اداروں میں متعلقہ شعبے کے ماہرین کو تعینات کیا جائے گا تاہم یہ نئی تعیناتیاں 100 دن کے لیے ہوں گی اور 100 دن بعد ان افسروں کی کارکردگی جانچی جائے گی۔ یاد رہے کہ انتخابات سے قبل تحریک انصاف نے حکومت میں آنے کی صورت میں 100 دن کے پلان کا اعلان کیا تھاجس کے مطابق حکومت میں آنے کے بعد اصلاحات لائی جائیں گی، فاٹا کو خیبر پختونخوا میں ضم کریں گے، بلوچستان میں ناراض لوگوں کو منا کر قومی دھارے میں لائیں گے۔ جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانا، کراچی کو ترقی دینا اور کراچی کے اداروں کو سیاست سے پاک کرتے ہوئے امن و عامہ اور سیکیورٹی معاملات کو بہتر کر کے بھتے اور لینڈ مافیا کے خلاف کارروائی کرنا ایجنڈے کا حصہ ہے۔تحریک انصاف کے مجوزہ پلان میں نوجوانوں کے لیے ایک کروڑ نئی نوکریاں پیدا کرنا اور حکومتی اخراجات کو کم کرتے ہوئے آمدن بڑھانا بھی شامل ہے۔
گذشتہ بائیس برس سے عمران خان اقتدار میں آنے کے بعد قوم سے ان کے اور وطن عزیز کے حالات سدھارنے کے حوالے سے وعدے وعید کرتے چلے آرہے تھے، اس امر میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ تین عشروں میں جنرل پرویز مشرف سمیت شریف برادران اور پیپلز پارٹی نے ملک و قوم کی ترقی کے لئے کچھ نہیں کیا بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن نے تو صرف لوٹ مار پر ہی توجہ مرکوز رکھی اس لئے ان ادوار حکومت کا جو نتیجہ سامنے آنا تھا وہی آیا یعنی عوام غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے اور ملک قرضوں کے سمندرمیں ڈوبتا چلا گیا جبکہ حکمرانوں کے خزانے بھرتے رہے، بیرون ملک ان خفیہ خزانوںکا وطن عزیز میں کسی کو بھی کانوں و کان خبر نہ ہوتی اگر شومئی قسمت پاناما کا بکھیڑا نہ پھیل جاتا، بہرحال جب پاناما لیکس سامنے آئیں تو اس میں بھی عمران خان نے ہی پیچھے پڑ کر یہ مقدمات عدالت تک پہنچائے جن میں سے چند مقدمات میں میاں نواز شریف، مریم صفدر اور کیپٹن (ر) صفدر کو سزا ہوئی اور وہ اس کی پاداش میں جیل میں ہیں جبکہ ابھی کئی مقدمات کا فیصلہ ہونا ہے، بہرحال اس دوران انتخابات بھی منعقد ہوئے جن کے نتیجے میں پاکستان تحریکِ انصاف کامیاب ہوکر ابھری اور اب پاکستان تحریک انصاف نے خیبر پختونخوا، پنجاب اور وفاق میں جبکہ سندھ میں پیپلز پارٹی نے حکومت بنالی ہے اور بلوچستان میں مخلوط حکومت قائم ہوگئی ہے۔ وطن عزیز میں نئی حکومتیں قائم ہو گئی ہیں اور اس کے ساتھ ہی عمران خان کا حقیقی آزمائشی دور شروع ہو گیا ہے، کیونکہ اپوزیشن میں رہتے ہوئے وعدے کرنا بہت آسان جبکہ اقتدار میں آکر ان وعدوں پر عمل کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، اب عمران خان کو حقیقی مسائل یہ درپیش ہیں کہ خزانہ خالی ہے، ملک ضرورت سے زیادہ مقروض ہے، سوال یہ ہے کہ اب عمران خان ایک کروڑ اسامیاں اور پچاس لاکھ گھر تعمیر کرنے کے لئے رقم کہاں سے لائیں گے، گو اس ضمن میں امید کی ایک لہر یہ ہے کہ اسلامی ترقیاتی بینک، سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین اور چند دیگر دوستوں نے مدد کی پیش کش کی ہے، لیکن عمران خان نے جو وعدے کررکھے ہیں ان کو پورا کرنے کے لئے ٹھوس اور مضبوط معیشت کی ضرورت ہے جبکہ ہمیں اس کے علاوہ اور بھی بہت سے چیلنج درپیش ہیں جن میں ایک تو قلتِ آب یعنی ڈیموں کی تعمیر کا مسئلہ بھی سر پر خونیںتلوار کی مانند لٹک رہا ہے علاوہ ازیں سابقہ حکومتوں کی پیدا کردہ خرابیوں کو سدھارنا بھی شامل ہے خاص طور پر کراچی کی تعمیر و ترقی، یہ اس لئے بھی ضروری ہے کہ کراچی ہماری تجارت کا گیٹ وے ہے۔ بین الاقومی تاجر کراچی ہی کے راستے پاکستان آتے ہیں اور اگر کراچی کے حالات ہی اتنے مخدوش ہوں گے کہ نہ پینے کو پانی ہوگا نہ چلنے کو سڑکیں اور ہر جانب کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہوں گے تو پھر کون تاجر یا سرمایہ کار یا سرمایہ کاری کرنا پسند کرے گا۔
یہ حقیقت ہے کہ عمران خان کو ایک کروڑ اسامیاں اور پچاس لاکھ گھروں کی تعمیر فوری طور پر ہی عمل میں نہیں لانی، ظاہر ہے اس کے لئے وقت درکار ہوگا اور ایک کروڑ اسامیوں کے لئے شائد پورے پانچ سال بھی کم رہیں، لیکن بہرحال اگر عمران خان اپنے وعدوں پر نصف عمل بھی کر سکے تو یہ بھی ان کی کامیابی ہی شمار ہوگا لیکن اس کے لئے بھی انہیں پوری حکومتی مشینری کو تلپٹ کرنا پڑے گا کیونکہ پرانے افسروں اور سرکاری اہل کاروں کو حرام خوری کی عادت پڑ چکی ہے وہ نہ صرف ہڈ حرام ہوچکے ہیں جس کے بارے میں فاضل جسٹس نے دوروز قبل ہی وزارت خارجہ کے افسر کو کہا ہے کہ کام کرنے کی عادت نہیں رہی فائل ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ جاتی ہے لیکن کام نہیں ہوتا، یہ صرف وزارت خارجہ کا مسئلہ ہی نہیں بلکہ تمام سرکاری اداروں کا مسئلہ ہے، سرکاری اداروں کے اہل کاروں کو فائل کو حرکت دینے کے لئے اس کو پہئے لگانے کی عادت پڑی ہوئی ہے جب تک عوام فائل کو پہئے نہ لگائیں فائل حرکت نہیں کرتی، اس کے لئے عمران خان کو تمام اداروں کے اعلیٰ افسروں کو بلا کر ایک وارننگ دینا ہوگی اور اس کے بعد جو افسر کسی بھی عوامی کام میں غیرضروری تعطل یا تاخیر کرتا پایا جائے اس کو فوری طور پر سزا دی جائے، فوری سزا دوسرے اداروں کے ذمہ دار اعلیٰ و جونیئر اہل کاروں کے دلوں میں خوف پیدا کرنے کا موجب بنے گی۔ اس طرح شائد سرکاری اداروں میں عوام کے کام کرنے کا جذبہ پیدا ہوجائے۔ نیز عمران خان نے محکمہ پولیس اور دیگر اداروں کو سیاسی اثر و نفوذ سے پاک کرنے کا بھی وعدہ کیا ہوا ہے انہیں اپنے ان وعدوں پر بھی فوری عمل درآمد کرنا ہوگا، کیونکہ اگر عوام کو عمل شروع ہوتا نظر آجائے تو بھی وہ مطمئن ہوجاتے ہیں جیسے پنجاب اسمبلی میں جنوبی پنجاب کو ضلع بنانے کی قرارداد پیش کردی گئی ۔اس پر بھی عوام خوش اور مطمئن ہیں، اس طرح عمران خان نے کے پی کے گورنر ہاﺅس کے بارے میں کیا کہا تھا کہ اس کو خواتین کے لئے پارک بنادیا جائے گا اسی طرح دیگر ایوان وزیراعظم، وزیراعلیٰ ہاﺅس اور گورنر ہاﺅسز کے بارے میں کیا اعلان کرتے رہے ہیں ان کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کیونکہ اب جہاں بھی عمران خان اپنے کئے ہوئے اعلان کو فراموش کربیٹھے وہاں عوام کی نظروں میں ان کے کئے ہوئے تمام اقدامات خاک میں مل جائیں گے اور عوام کہہ دیں گے کہ یہ بھی دیگر حکمرانوں کی طرح بس اقتدار میں آنے تک ہی وعدے کرتے رہے اور اقتدار میں آکر تمام وعدے بھول گئے۔
بہرحال ملازمتیں پیدا کرنا اور مکانوں کی تعمیر تو وہ اخراجات ہیں جن کا عمران خان نے وعدہ کیا ہے جب کہ اس کے علاوہ جو ملکوں کے ضروری اخراجات ہوتے ہیں وہ الگ ہیں، ان کے لئے عمران خان کو بیرون ملک مقیم پاکستانی بھائیوں سے مدد مانگنا پڑے گی، ایسی صورت میں عمران خان کو مایوسی نہیں ہوگی کیونکہ عوام عمران خان پر اعتماد کرتے ہیں، اگر عمران خان نے احتیاط اور ذہانت سے کام لیا تو وہ یقیناً کامیاب ہوجائیں گے احتیاط اس لئے کہ انہوں نے اپنے ساتھ تجربہ کار اور منجھے ہوئے سیاست دان بھی رکھے ہیں خاص طورپر چوہدری پرویز الہی، چوہدری محمد سرور، شاہ محمود قریشی،شفقت محمود اور ایسے ہی کئی منجھے ہوئے سیاست دان ہیں جو اگر کام کرتے رہیں تو عمران خان کو بام عروج پر پہنچادیں اور اگر ان کے دل بدل جائیں تو ایسی صفائی کرکے جائیں گے کہ عمران خان بنی گالا میں بیٹھے سوچتے رہیں گے کہ ان کے ساتھ یہ ہو کیا گیا، لہذا عمران خان کو انتہائی محتاط اور اپنے ارد گرد سے چوکس بھی رہنا ہوگا۔ ہماری دعا ہے کہ عمران خان قوم سے کئے ہوئے اپنے تمام وعدے پورے کریں کیونکہ اب عمران خان عوام کی آخری امید ہیں اور اگر عوام کو یہاں بھی مایوسی ہوئی تو یہ مایوسی عوام کو ایسی نفسیاتی الجھنوں کا شکار کردے گی جس سے نکلنا ممکن نہ ہوگا۔