امریکہ کا بیان خوش آئند اس پر عمل بھی کرے!
امریکی محکمہ خارجہ سے گزشتہ روز جاری کئے گئے بیان میں امریکہ کی طرف سے نومنتخب وزیراعظم عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھانے پر مبارکباد دی گئی اور امید ظاہر کی گئی ہے کہ پاکستان کی نئی حکومت خطے میں امن اور خوشحالی کیلئے کام کرے گی۔ بیان میں نئی حکومت سے مل کر کام کرنے کی خواہش کا بھی اظہار کیا گیا۔ امریکی محکمہ خارجہ نے مزید کہا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات سات دہائیوں پر محیط ہیں۔
برصغیر آزاد ہوا تو دو سپر عالمی طاقتوں امریکہ اور سوویت یونین میں سرد جنگ زوروں پر تھی۔ دنیا دو مختلف کیمپوں میں بٹ چکی تھی۔ اس مشکل دور میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دیا۔ اس دوستی سے امریکہ کو خاطرخواہ فائدہ ہوا مگر پاکستان نے نقصان اٹھایا۔ امریکہ نے پاکستان کاکسی بھی مشکل وقت یا مسئلے پر ساتھ نہیں دیا۔ خواہ وہ کشمیر کا مسئلہ ہویا65ءاور 71ءکی پاک بھارت جنگیں۔ بدقسمتی سے ملک کو ایسے حکمران نصیب ہوتے رہے جنہوں نے عوام کے جذبات اور ملک کے مفادات کا کبھی پاس نہیں کیا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ نے افغانستان پر حملہ کیا تو مشرف نے ایک بار پھر پاکستان کو امریکی مفادات پر قربان کر دیا۔ پاکستان کی اس سٹرٹیجک امداد کی بدولت ہی امریکہ افغان جنگ جیت سکا‘ لیکن پاکستان کو اس سے زیادہ جانی و مالی نقصان برداشت کرنا پڑا۔ افغان جنگ اختتام کو پہنچی تو امریکہ نے پاکستان سے نہ صرف آنکھیں پھیر لیں بلکہ بھارت کو علاقے کا حوالدار بنا دیا۔ طالبان اور حقانی نیٹ ورک کے بہانے تراش کر پاکستان پر اقتصادی پبابندیاںعائد کرنا شروع کر دیں۔ پاک امریکہ تعلقات کے اس مختصر پس منظر اور تلخ تجربات کی روشنی میں نئی حکومت سے مل کر کام کرنے کی خواہش کے اظہار پر کوئی پاکستانی بہ مشکل اعتبار کرے گا۔ اس وقت دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی صرف اسی صورت ختم ہو سکتی ہے کہ امریکہ نے جو کہا ہے‘ اس پر عمل بھی ہو۔ ساتھ ہی امریکہ یہ بھی یقین دلائے کہ وہ سی پیک منصوبے کو پاکستان کی خوشحالی کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور پاکستان کے اس بیان پر بھی یقین کرے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے واقعات سے پاکستان کاکوئی تعلق نہیں اور نہ ہی پاکستان میں طالبان کے ٹھکانے ہیں اور نہ ہی حقانی نیٹ ورک کا کوئی وجود ہے ۔ورنہ امریکی وزارت خارجہ کے عمران خان کے نام مبارکبادی کے پیغامات کو اس طرح کے سابقہ بیانات کا نیا ایڈیشن سمجھا جائے گا۔ پاکستان بھارت اور افغانستان سمیت تمام ہمسائیوں کے ساتھ اچھے تعلقات کا خواہاں ہے اور دوسروں کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کی پالیسی پر سختی سے کاربند ہے۔پاکستان ہمسایوں سے بھی اسی طرح کے رویئے کی توقع رکھتا ہے امریکہ اگرواقعی نئی حکومت سے مل کر کام کرنے میں سنجیدہ ہے تو وہ بھارت پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کرتے ہوئے تنازع کشمیر کو اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل کرا دے ۔اگر یہ مسئلہ حل ہو جائے تو برصغیر سے کشیدگی مستقلاً ختم ہو سکتی ہے۔