وزیراعظم کے حلف کی جھلکیاں
نئے وزیر اعظم کا حلف شروع ہوا توعمران خان کی زبان لڑکھڑاتی رہی۔ ایک لفظ اور تھا روز قیامت ،اس کو روز قیادت کہہ ڈالا۔ صدر مملکت نے تصحیح کرائی تو سوری کہہ کر تلفظ درست کر لیا۔ حلف کے آغاز ہی میں وزیر اعظم اپنا نام لینا بھول گئے۔ صدر مملکت نے پتہ نہیں کیسے توجہ دلائی کہ اپنا نام پکاریں تو حلف لینے والے کو عمران ا حمد خان نیازی کہنا پڑا۔
عام پاکستانی نے ان غلطیوں یا کوتاہیوں کو یہ سمجھ کر نظر انداز کر دیا کہ ایک شخص ساری عمر انگریزی اسکولوں کا پڑھا ہے۔ مگر میڈیا میں شور برپا تھا ایک دانشور نے اپنی طرف سے بڑا تیر مارا کہ حلف کے الفاظ مشکل تھے۔ ان کی جگہ آسان الفاظ بھی استعمال کئے جا سکتے تھے۔ انہوںنے اگلے سانس میں یہ بھی کہا کہ حلف کی عبارت ایسی ہونی چاہیئے کہ عام آدمی کو بھی سمجھ آ سکے کہ اس کا مطلب اور مفہوم کیا ہے اور پھر سانس توڑے بغیر کہا کہ بہتر ہوتا کہ انگریزی زبان میں حلف لیا جاتا۔، انہوںنے دلیل دی کہ آخر نواز شریف نے بھی تو انگریزی زبان میں حلف لیا تھا۔ لاہور شہر کے ایک میئر ہو گزرے ہیں جو ایوب خان کے بڑے چہیتے تھے۔ ان کے دور میں برطانوی ملکہ لاہور تشریف لائیں تو زندہ دلان شہر کی طرف سے عالی شان تقریب کاا ہتمام کیا گیا، میئر صاحب خطبہ استقبالیہ پڑ ھتے ہوئے جب ملکہ معظمہ کے لفظ پر پہنچے تو شاید ان کی نظریں مہمان خصوصی پر مرکوز تھیں اور ان کے جثے کو دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے نکلا کہ گرامی قدر مٹکہ معظمہ۔۔۔ مجمع ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو گیا، یہی میئر صاحب ایک بار اسلام آباد جا رہے تھے۔ جہاز میں ان کے ساتھ والی سیٹ پر کوئی صاحب براجمان تھے ، ان سے پوچھا کدھر کا ارادہ ہے اور کس سے ملو گے۔ جواب ملا کہ ایوب خان سے ملنے جا رہا ہوں۔ میئر صاحب نے پوچھا کہ کیا کیابات کرو گے ، جواب میں انہیں کچھ مسائل بتائے گئے تو میئر صاحب نے کہا کہ آ پ توپڑھے لکھے لوگ ہیں ، میرے پاس تو بس ایک دماغ ہی دماغ ہے۔ کچھ میری باتیں بھی ان تک پہنچا دینا۔
پڑھے لکھوں کی بات سے یاد آیا کہ لاہور میں جنرل ضیا الحق کے پرستار اخبار نویسوں نے ایک تنظیم بنا رکھی تھی، اس کے مدار المہام دو اصحاب تھے۔ وہ جنرل صاحب کے بے حد چہیتے تھے۔ کیوں تھے اس کی وجہ تو میں نہیں جانتا لیکن انہوں نے ایک بار جنرل صاحب کو لاہور مدعو کیا۔ الحمرا ہال میں اخبار نویسوں کا بہت بڑا اکٹھ تھا ۔ انہوںنے اپنے مہمان خصوصی کا جو انتظار شروع کیا تو دوپہر سے رات ہو گئی۔ عام طور پر اخبار نویس کسی کے دیر سے ا ٓنے پر سیخ پا ہو کر تقریب کا بائیکاٹ کر جاتے ہیں مگر اس تقریب میں شریک کسی اخبار نویس کی کیا مجال کہ ہال سے باہر بھی نکلتا۔ بہر حال جب ضیا الحق آ گئے تو ایک عالم فاضل اخبار نویس میزبان نے خطبہ استقبالیہ شروع کیا۔ انہوںنے جنرل صاحب پریہ جتلانے کے لئے کہ ان لوگوںنے کس بے تابی سے ان کا انتظار کیا، اس کے لئے انہوںنے کہا کہ ہم لوگ دوپہر سے پیشاب تک روک کر بیٹھے آپ کے منتظر ہیں ۔
انگریزی زدہ طبقہ ہم اردو میڈیم والوں کا خوب مذاق اڑاتا ہے کہ ہم گَرل کو گِرل بولتے ہیں اور ان کی طرح منہ ٹیڑھا کر کے انگریزی نہیںبول سکتے۔ یہ خرابیاں ہم اردو میڈیم والوںمیں ضرور موجود ہیں مگر اس انگریزی زدہ طبقے کے ایک فرد نے اردو کا جو حشر کیا ہے وہ براہ راست نشریات میںدنیا بھر کے کروڑوں لوگوں نے دیکھ لیا۔یہ انگریزی زدہ طبقہ دعوے کرتا ہے کہ وہ ملک میں تعلیم کا نظام ٹھیک کرے گا،۔ خاک کرے گا۔ اس کے مبلغ علم کا معیار ہم نے دیکھ لیا، محترمہ بے نظیر بھٹو کی مشہور مثال ہے بلکہ اسے ضرب المثل میں شمار کیا جانا چاہئے ، انہوںنے ایک بار کہا تھا کہ اذان بج رہا ہے۔ان کا بیٹا بلاول، ماں پر بازی لے گیا ہے اور فر فر انگریزی بھی بولتا ہے ا ور اردو بھی۔ خواہ وہ رومن اردو میں لکھی ہوئی پڑھتا ہے مگر بول تو صحیح لیتا ہے۔
میںنے ایک بار جنرل نصیر اختر کوایک محفل میں تبادلہ خیال کے لئے بلایا، وہ بھارت کے دورے سے واپس آئے تھے اور پاک بھارت ریٹائرڈ فوجیوں کی تنظیم کے سربراہ بھی تھے۔ میںنے ان سے پوچھا تھا کہ جب تک ا ٓپ وردی میں رہے آپ نے ہمیں بھارت دشمنی کا ٹیکہ لگایا اور جونہی آپ نے وردی اتاری تو آپ بھارت دوستی کے ترانے گانے لگ گئے ہیں،پا ک فوج دنیا بھر کی افواج کے ساتھ مشترکہ مشقیں کرتی ہے مگر میںنے کبھی نہیں سناکہ اس نے بھارتی افواج کے ساتھ بھی کوئی فوجی مشق کی ہو، یہ کام ہو سکتا ہے مگر صرف اس وقت جب مسئلہ کشمیر حل ہو جائے اوربھارتی جنتاا ور ان کی قیادت پاکستان کو دل سے قبول کر لے مگر اب کر بھی لے تو ہمیں قائد اعظم کا پاکستان واپس نہیں مل سکتا ، اسے تو بھارتی جنرل اروڑہ نے سن اکہتر میں دو ٹکڑے کر کے رکھ دیا تھا،اب ہم نیا پاکستان تو بناتے ہیں مگر کوئی مجھے قائد کا پاکستان واپس دلو ادے تو میں گاندھی کی قبر پر بھی پھول چڑھانے چلا جائوں گا۔
سوائے اس کے عمران ا حمد خاں نیازی نے اس تقریب میں بطور وزیر اعظم اپنا حلف اٹھایا اور یہ تقریب ہر لحاظ سے سادگی کی مثال بھی تھی مگر سدھو کی آمد اور ان سے جپھیوںنے ساری خوشیاں خاک میں ملا ڈالیں۔
اپنی فوج کے سربراہ سے دوستانہ گلہ تو ہو سکتا ہے، مگرنئے وزیر اعظم سے میں کیوں لڑوں گا۔ میں ا س تقریب کی اور کیا جھلکیاں لکھوں۔