کم و بیش 22سال قبل کی بات ہے عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کے بعد میدان سیاست میں قدم رکھا تو میں نے انہیں راولپنڈی اسلام آباد پریس کلب کے صدر کی حیثیت سے ’’میٹ دی پریس ‘‘پرو گرام میں مدعو کیا کسی کو کیا خبر تھی کہ22سال بعد ایک ’’کر کٹر‘‘ ملک کا22واں وزیر اعظم بن جائے گا ۔ یہ تو مجھے بھی یقین نہیں تھا کہ 2002ء میں جنرل پرویز مشرف کی ’’عنایت‘‘ سے ایک نشست حاصل کرنے والا شخص ملک کا وزیر اعظم بن جائے گا۔2008 ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے والی جماعت ،2013ء کے انتخابات میں ملک کی تیسری بڑی جماعت بن گئی لیکن عمران خان نے ’’شکست‘‘ تسلیم نہ کی اور نواز شریف کی حکومت گرانے کے لئے بار بار پارلیمنٹ ہائوس پر حملہ کیا پارلیمنٹ پر وہ لعنت بھیجا کرتے تھے وہ اس میں بیٹھنے کے لئے تیار نہیں تھے۔ گنتی کے چند دن ایوان میں رونق افروز ہوئے آج اسی پارلیمنٹ نے انہیں ملک کا22واں وزیر اعظم منتخب کر لیا ہے یہی پارلیمنٹ ان کی ’’حکومت ‘‘ قائم کرنے کا باعث بن گئی ہے ۔ تمام ’’سیاسی جوتشیوں ‘‘ کی ’’پیش گوئیاں‘‘ غلط ثابت ہو گئیں جو یہ بات برملا کہتے تھے کہ’’ عمران احمد خان نیازی ‘‘ کے ہاتھوں میں وزیر اعظم بننے کی لکیر نہیں ۔اس بارے میں سیاسی حلقوں میں بحث چل رہی ہے بہر حال اس میں شک و شبہ کی کوئی گنجائش نہیں کہ یہ سب کچھ اسی صورت میں ممکن ہوا کہ نواز شریف کے اقتدار کا سورج جب نصف النہار پر تھا کو ختم کر کے انہیں جیل میں ڈال نہیں دیا گیا ، عمران خان کے لئے مسند اقتدار تک پہنچنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور تھا مسلم لیگ (ن) کا جس طرح’’ سائز‘‘ کم کر کے عمران خان کو وزیر اعظم بنوایا گیا وہ کہانی عام آدمی کی زبان پر بھی ہے عمران خان کو قطعی اکثریت نہیں دی گئی تاکہ وہ اپنی مرضی کے فیصلے نہ کر پائیں انہیں جس قدر’’ مینڈیٹ ‘‘دیا گیا اس میں اس بات کی گنجائش رکھ دی گئی ہے کہ جب بھی 10ارکان ’’ادھر ادھر‘‘ ہو جائیں تو ان کے اقتدار کا’’ سنگھاسن‘‘ ڈولنے لگے گا۔ کچھ ایسی ہی صورت حال پنجاب میں ہے جہاں پنجاب اسمبلی میں مسلم لیگ (ن) کی اکثریت کو آزاد ارکان کی مدد سے اقلیت میں تبدیل کر کے پی ٹی آئی کی حکومت قائم کر دی گئی ہے ۔ عوامی مینڈیٹ پر ڈالے جانے والے ’’ڈاکے‘‘ کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر اکھٹی ہونے والی جماعتوں کا شیرازہ بکھیر دیا گیا ہے ۔ مسلم لیگ (ن) ، پیپلز پارٹی ،متحدہ مجلس عمل ،عوامی نیشنل پارٹی، قومی وطن پارٹی ، نیشنل پارٹی اور پختونخوا عوامی ملی پارٹی کے اجلاس میں عمران خان کے مقابلے میں مسلم لیگ(ن)کو اپنا امیدوار نامزد کرنے کا اختیار دے دیا لیکن جب مسلم لیگ (ن) نے میاں شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کا امیدوار نامزد کیا تو پیپلز پارٹی کی جانب سے ’’کھسر پھسر‘‘ شروع ہو گئی اور میاں شہباز شریف کی نامزدگی پر اپنے ’تحفظات ‘‘ کا اظہار کر دیا۔ پیپلز پارٹی کا ایک وفد میاں شہباز شریف کے پاس پہنچ گیا اور ان سے وزارت عظمیٰ کے منصب کی امیدواری سے دستبرادار ہونے کی استدعا کی اور کہاکہ ’’آصف علی زرداری انہیں ووٹ دینے کے لئے تیار نہیں ‘‘ ۔شنید ہے کہ پیپلز پارٹی کا وفد میاں شہباز شریف کی منت سماجت پر اتر آیا کہ وہ اپنی جگہ کسی اور کو امیدوار بنا دیں اس طرح ان کے طرز عمل کی ’’پردہ داری‘‘ ہو جائے گی اور ان کا ’’بھرم ‘‘ رہ جائے گا لیکن میاں شہباز شریف جو میاں نواز شریف کی ہدایات کو پیش نظر رکھ کر اپنی سیاسی حکمت عملی بناتے ہیں انہوں نے پیپلز پارٹی کے مطالبے کو مسترد کردیا اگرچہ انہیں عمران خان کے176ووٹ کے مقابلے میں 96ووٹ ملے ہیں لیکن انہوں نے ’’میچ فکس ‘‘ہونے پر پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو بے نقاب کر د یا ہے ۔ 25اگست 2018ء کی شب عوامی مینڈیٹ کی چوری کے بعد مسلم لیگ(ن) ، پیپلز پارٹی،ایم ایم اے اور عوامی نیشنل پارٹی پر مشتمل پارلیمنٹ میں ’’متحدہ اپوزیشن ‘‘ کے قیام کی امید قائم ہو گئی تھی لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کی’’ مجبوریوں ‘‘نے متحدہ اپوزیشن کے قیام کا خواب بکھیر دیا پیپلز پارٹی کے ’’فرینڈلی اپوزیشن‘‘ کے کردار سے اسے کس حد فائدہ پہنچتا ہے فی الحال اس بات کا اندازہ لگانا مشکل ہے البتہ آصف علی زرداری نے جو جعلی اکائونٹس کیس کے شکنجے میں آئے ہوئے ہیں ، گرفتاری کے خوف سے اسلام آباد ہائی کورٹ سے ’’حفاظتی ضمانت ‘‘کروا لی ہے ۔وہ اس وقت اپوزیشن کے ساتھ قدم ملا کر نہیں چلیں گے جب تک ان کے سر پر ایف آئی اے کی تلوار لٹکتی رہے گی ۔ آصف علی زرداری نے ان کو ’’ ڈاکو اور چور‘‘ کہنے والے عمران خان کے ساتھ مصافحہ کرتے ہوئے تصویر تو کھنچوا لی لیکن میاں شہباز شریف سے ہاتھ نہیںملایا جب کہ ان کے’’ ہونہار سپوت ‘‘ نے دو تین بار میاں شہباز شریف سے مصافحہ کرکے اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کیا انہوں نے تحریر شدہ تقریر کرنے کی بجائے شستہ انگریزی میں تقریر کر کے عمران خان کو مرعوب کرنے کی کوشش کی بلکہ انگریزی زبان میں خوبصورت تقریر کرکے عمران خان کو ان ہی کے الفاظ استعمال کرکے شرمندہ کرنے کی کوشش کی انہوں نے عمران خان کو elect prime ministerکہنے کی بجائےselect prime ministerکہہ کر خوبصورت طنز کیا۔
قومی اسمبلی کے اجلاس میں وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر مسلم لیگ (ن) کے ارکان نے ’’وزیر اعظم نواز شریف ‘‘ ’’میری آواز تیری آواز مریم نواز ‘‘ نہ جھکنے والا ، نہ بکنے والا نواز شریف ، لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی کے فلک شگاف نعرے لگا کر ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دی اور یہ ثابت کر دکھایا کہ مسلم لیگ ایک زندہ جماعت ہے ۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ قومی اسمبلی میں رانا ثناللہ اور مسرت خواجہ کی نئی انٹری ہوئی ہے انہوں نے طاہرہ اورنگ زیب ، مریم اورنگ زیب ، زیب جعفر اور سیما جیلانی کے ہمراہ شدید نعرے بازی کر کے ایوان کا ماحول گرما دیا ، اگرچہ 15ویں قومی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب میں پاکستان تحریک انصاف کے ’’ معرکہ‘‘ سر ہونے سے وزارت عظمیٰ کے انتخابی نتائج کے بارے میں صورتحال واضح ہو گئی تھی لہذا پیپلز پارٹی کے مسلم لیگ ن کے امیدوار کو ووٹ دینے یا نہ دینے سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا کیونکہ جیت پاکستان تحریک انصاف ہی کی ہونا تھی لیکن پیپلز پارٹی نے ایوان میں جس طرز عمل کا مظاہرہ کیا اس سے میاں شہباز شریف اور عمران خان کے ووٹوں میں فرق بڑھ گیا عمران خان پاکستان کی تاریخ کے دوسرے وزیر اعظم ہیں جو بہت کم مارجن سے وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں قبل ازیں جب 2002ء میں میر ظفر اللہ جمالی کو ملک کا وزیر اعظم بنایا گیا تو ایجنسیوں کو پیپلز پارٹی میں ’’پٹریاٹ ‘‘ گروپ بنوانا پڑا انہیں ایک ووٹ کی اکثریت سے وزیر اعظم بنوایا گیا اب عمران خان بھی صرف 4ووٹ سے کامیاب ہوئے لیکن پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ ن کی حمایت نہ کر کے جو ’’فوائد‘‘ حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اس سے پیپلز پارٹی کے’’ سیاسی امیج ‘‘ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ پیپلز پارٹی کی قیادت کو ایوان میں اپنے آپ کو لا تعلق ( Abstain ) رکھنے کے بارے میں ہر جگہ سوالات کا جواب دینا پڑے گاپاکستان پیپلز پارٹی پا رلیمنٹرین کے سربراہ آصف علی زرداری اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپو زیشن کے احتجاجی مظاہرے میں بھی شرکت نہ کر کے’’ مقتدر قوتوں ‘‘کو یہ باور کرایا تھا کہ وہ ’’فرینڈلی اپوزیشن ‘‘ کا کردار ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہیں عام انتخابات میں جو کچھ دے دیا گیا ہے وہ اسی پر اکتفا کرلیں گے اسی طرح آصف علی زرداری نے میاں شہباز شریف سے فاصلہ برقرار رکھ کر مقتدر قوتوںکو یہ پیغام بھی دیا ہے کہ وہ متحدہ اپوزیشن کا حصہ نہیں بنیں گے 139ارکان پہلی بارقومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے ہیں بیشتر ارکان قومی اسمبلی کے قواعد و ضوابط سے ہی آگا ہ نہیں قومی اسمبلی میں احتجاج کرنا اپوزیشن کا حق ہے اگر پی ٹی آئی کے ارکان بھی اسی سطح پر جائیں جہاں انہیں اپوزیشن لا کھڑا کرنا چاہتی ہے تو سپیکر کے لئے ایوان کی کارروائی چلانا مشکل ہو جائے گا موجودہ سپیکر اسد قیصر بھلے مانس شخص ہیں ان کی شرافت اور وضع داری ، پی ٹی آئی کا جوابی رد عمل ایوان کو’’ میدان جنگ‘‘ میں تبدیل کرنے کا باعث بنتا رہے گا عمران خان نے ایوان میں وزیر اعظم کی حیثیت سے جو خطاب کیا ہے وہ ان کے انتخابی جلسوں کی تقریر تو تھی لیکن ان کا خطاب وزیر اعظم کا تھا اور نہ ہی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کا اپوزیشن باالخصوص مسلم لیگ (ن)،، پیپلز پارٹی اور ایم ایم اے کے بارے میں دوستانہ رویہ ہو گا اس بات کا خدشہ کہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ممکنہ تصادم ذوالفقار علی بھٹو کے دور کی یاد تازہ نہ کر دے اب دیکھنا یہ ہے پاکستان تحریک انصاف کی اعلیٰ قیادت اپنے طرز عمل میں تبدیلی لا کر اپنے لئے آسانیاں پیدا کرتی ہے یا مشکلات کا راستہ اختیار کرتی ہے اس سوال کا جلد جواب مل جائے گا۔
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024