یکساں تعلیمی نصاب اور متوقع قومی تشخص
تعلیم کسی بھی قوم کے سوچ و عمل کی حقیقی آئینہ دار ہوتی ہے۔ اس ضمن میں نظامِ تعلیم اور نصابات تعلیم قومی سوچ و عمل کو اس کی اصل روح میں ڈھالنے کے براہِ راست زمہ دار ہوتے ہیں۔ اصل سے نقل کی طرف پیشقدمی قومی نظریاتی اساس کو کھوکھلا کر دینے کی خوفناک سبیل بن جایا کرتی ہے۔ قومی تعلیمی اغراض ومقاصد کا اس کے بنیادی قومی نظریے کے ساتھ ہم آہنگ ہونا ایک ایسا بنیادی سنگِ میل ہے جو اگر عدم توجہی کا شکار ہو جائے تو یقیناً منزِل کھو جایا کرتی ہے اور پھر بھٹکنا مقدر ٹھہرتا ہے۔ ایسی بھٹکتی قوم پھر بنی اسرائیل کی طرح کئی چالیس برس ایک ہی دائرے میں بھٹکتی ہوئی ٹکریں کھاتی رہے تب بھی درست سمت جانچنے کے قابل نہیں ہو پاتی، بلکہ بار بار اپنی گزشتہ غلطی کا اعادہ کرتی رہتی ہے۔ یہی کچھ ہمارے ساتھ بھی ہوتا چلا آیا ہے۔ 1947 سے آج 2012 تک پاکستانی قومی لیڈران اسی ناکام فارمولے کو مشعلِ راہ بنائے فلاحی راہیں تلاش کرتے رہے لیکن افسوس تاک میں بیٹھے رہزن منزل اُچک کر لے گئے۔
یقیناً اس قوم نے ان رہزنوں کے ہاتھوں ہر معاملے میں لٹتے لٹتے اپنے اقدار اور قومی وقار کو بہت حد تک کھو دیا ہر۔ لیکن پے در پے اُن حادثات کا شکار ہو کر کم از کم یہ شعور ضرور بیدار کر لیا ہے کہ اب چودھری رحمت علی کی طرح وہی نعرہ '' ابھی ورنہ کبھی نہیں'' بلند کر دیا ہے۔ 27 برس گزر جانے کے بعد بھی قومی نظریاتی حاصلات یا تو نظرانداز ہوئے رہے اور یا پھر اگر اُنہیں عین نظریاتی اور قومی اُمنگوں کے مطابق ڈھال بھی لیا گیا تو پھر انہیں عملی جامع پہنانے کا حوصلہ نہ کیا جا سکا۔ اس ضمن میں سربراہانہ صلاحیتوں یا نیتوں کے اخلاص کی کمی اور پھر بیرونی آقاؤں کا بلواسطہ یا بلاواسطہ دباؤ اتنا غالب رہا کہ قوتیں, ارادے, اور وسائل کی کمی کے جواز پیش کرتے ہوئے اپنی کوتاہیوں پر مسلسل پردے ڈالے جاتے رہے۔ کہا جاتا ہے کہ مظلوم خود پر کیا گیا ظلم کبھی نہیں بھولتا۔ جی ہاں! پاکستانی قوم کی مسلم اکثریت سے بڑھ کر مظلوم کون ہوگا کہ جس نے اکثریت ہونے کے باوجود اپنی دینی و قومی اصل پر ایک نہیں بار بار سمجھوتا کیا۔ آج اس قوم کی پستہ حالی انہیں سمجھوتوں کی مرہونِ منت ہے۔ ہاں تعلیمی بدحالی اور دینی و قومی روح سے اس کا عاری ہوتے چلے جانا وہ مسلسل ظلم ہے جس نے اب اس کی آنکھیں کھول دی ہیں اور قوم اب ضرور اس کا فوری مداوا چاہتی ہے۔
یکساں نصابِ تعلیم کا نفاذ اس قوم کی وہ دکھتی رگ ہے جسے بیشمار ہیلے بہانوں سے سن کیا جاتا رہا لیکن اب شاید اس تکلیف کی شدّت اتنی بڑھ چکی ہے کہ کوئی متبادل دوا قابلِ اثر نہیں رہی۔ اس ملک کی۹۷ فیصد مسلم آبادی اپنے آباء و اجداد کے پاک و قیمتی خون سے سینچی گئی اس جنت میں ابھی تک وہ تعلیمی ماحول حاصل نہ کر سکیجو انکا دیرینہ خواب تھا۔ اس ملک کا تعلیمی نظام ایک سوچ سمجھی سازش کے تحت نہ صرف نظر انداز کیا جاتا رہا بلکہ شعوری طور پر اس کے مسودوں میں اور یا ان کی حقیقی عمل داری پے ایسی نقب لگائی جاتی رہی جس کے تحت پروان چڑھنے والی پاکستانی نسل نہ صرف پاکستانیت سے عاری ہوجائے بلکہ اسلامیت سے بھی اس کا کوئی ناتہ نہ رہے۔پاکستان کی 97 فیصد اکثریت کو نظر انداز کر کے صرف تین فیصد اقلیت کو اُن پر فوقیت دینا کسی ظلمِ عظیم سے کم نہیں اور بنیادی انسانی حقوق کے بھی سو فیصد منافی ہے۔ پاکستان میں اقلیتوں کے تمام بنیادی حقوق کی فراہمی ایک ایسی خوبصورت حقیقت ہے جس کا کسی بھی بین الاقوامی حوالے سے اگر کسی دوسرے ملک سے موازنہ کیا جائے تو یقیناً نتائج پاکستان کے حق میں ہونگے۔ پاکستان کے نصابات میں کبھی بھی غیر مسلم اقلیتوں کے بارے میں ایسا مواد شامل نہیں رہا کے جس سے بین المذاھب ہم آہنگی متاثر ہوتی۔ اس کے ساتھ ساتھ تعلیمی نصابات میں ایسے مواد کا شامل کرنا اس قوم کا دیرینہ مطالبہ رہا ہیجو 97 فیصد مسلم اکثریت کی نسلوں کی اپنے دینی و قومی نظریات و معلومات کے ذریعے ذہن سازی کر سکے۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صحیح معنوں میں یہ مطالبہ کبھی بھی پورا نہ کیا جا سکا۔ اس کے برعکس ہونا تو یہ چاہیے تھا کے تمام مضامین کے نصابات کا بنیادی ڈھانچہ اُن جزویات پے مشتمل ہوتا جو عین اسلامی نظریاتی حاصلات سے براہِ راست مربوط ہوتے مگر افسوس دن بدن اس صورتحال میں بہتری کے بجائے مزید ابتری اتی رہی۔ آج صورتِ حال یہ ہے کہ پاکستانی مسلم اکثریت اپنے خواہشات و ضروریات سے مزیّن تعلیمی نظام سے بڑی حد تک مایوس ہو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نظامِ تعلیم سے فارغ التحصیل ہونے والی ہماری نسلیں نہ سہی معنوں میں مسلمان رہی ہیں اور نہ ہی پکستانی، بلکہ پاکستانی3فیصد اقلیت کے اوصاف سے زیادہ مزیّن دکھائی دیتی ہے۔اِن حقائق سے نظر پوشی کے بجائے اگر ان پر توجہ مبذول کی جائے تو یہ وہ لمحہ فکریہ ہے کہ جب غلطی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ اب وہ وقت آ چکا ہے کے اسلامی جمہوریہ پاکستان کو اس کے حقیقی تشخص کے ساتھ آگے بڑھانے کی خاطر اس کے تمام مضامین کے نصابات کو نہ صرف یکساں حیثیت میں مرتّب کیا جائے بلکہ ہر مضمون کے نصاب کو اسلامی و پاکستانی نظریاتی حوالے سے مکمل طور پر مرتّب و مربوط بھی کیا جائے۔ یہ امر بھی قابل توجہ ہے کہ اسلامی تعلیمات سے مزیّن مواد عین انسانی بنیادی اصول و ضوابط سے مزیّن ہے اور امن و خیر کی عام تعلیم و دعوت دیتا ہے۔ ایسے مواد پے کسی بھی قسم کا اعتراض ہر طرح سے پاکستان کے 97فیصد مسلم اکثریتی آبادی کے بنیادی حقوق کی حق تلفی تو ہے ہی لیکن 3فیصد غیر مسلم اقلیت کو بھی ان کے بنیادی انسانی اخلاق و معاملات کی آگاہی سے محروم رکھنے کی انجانی غلطی ہے۔ اس سلسلے میں حکومتِ وقت کو نہایت ہوش مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی دینی و قومی ذمہ داری نبھانے کی سعی کرنا ہوگی۔ پاکستانی تعلیمی نظام کو عین دینی و قومی روح کے مطابق مرتب کرتے ہوئے تمام مضامین کے نصابات کو ان سے ہم اہنگ کر کے اس کے خلاف ہونے والی موجودہ سازش کو ناکام بنانا ہوگا۔ ہہ امر درستگیء سمت کے ساتھ حقیقی منزِل کی طرف گامزن ہونے کی نہ صرف نایاب بلکہ کامیاب کوشش ہو گی۔ اس سلسلے میں حقیقی قومی تعلیمی اہداف کے حصول میں حکومتِ وقت کی ثابت قدمی ہی اس کی کڑی آزمائش ہے۔