تھیلیسیمیاء سے متاثرہ ایک کروڑ نونہال
تھیلسیمیاء کی دو اقسام ہوتی ہیں ایک میجر اور ایک مائینر ہو تی ہے۔یہ بیماری والدین سے بچوں تک منتقل ہوتی ہے۔تھیلسمیاء (میجر) کے بچے کی اوسطاََ زندگی اٹھ سے پندرہ سال اور زیادہ سے زیادہ بائیس سال ہوتی ہے۔چارسال سے کم عُمر بچوںکو مہینہ میںایک مرتبہ اور چارسال سے بڑے بچوں کو مہینہ میں دودفعہ ٹرانسفیوژن (خون کی منتقلی ) کے مرحلے سے گزرنا پڑتاہے۔ہر ماہ اوسطاََ بارہ سے پندرہ ہزار کا خرچ والدین کو ہر صورت میں بندوبست رکھنا ہوتاہے۔تھیلسیمیاء مائینر والوں کو کوئی علاج کی ضرورت نہیںہوتی ہے اور وہ نارمل زندگی گزارتے ہیںمگر اُنکے لیے بس یہ ایک احتیاط ضروری ہے کہ وہ شادی کسی مائینر تھیلیسیماء والے جین رکھنے والے سے نہ کرئے کیونکہ دو ایسی اقسام والوںکی شادی سے پچیس فیصد چانس میجر ،پچیس فیصد نارمل اور پچاس فیصد مائینر تھیلسیمیاء والے بچوں کی پیدائش کے چانس ہوتے ہیں ۔پاکستان میںاِس وقت ایک کروڑسے زائد افراد تھیلیسمیاء مانیئرز ہیں اور ایک اندازے کے مطابق سالانہ تقریباََپانچ سے چھ ہزار تھیلسیمیامیجرکے ساتھ پیداہوتے ہیں۔پاکستان میں تھیلیسیمیاء کے حوالے سے ایک قانون سازی کی جائے کہ شادی سے پہلے ہر جوڑے کو تھییلیسمیاء ٹیسٹ لازمی کروانا چاہیے تاکہ کہ دو مائنیر تھیلیسیمیا کی شادی ممکن نہ ہوسکے عموماَیہ خاندانوں میں شادی کرنے کی وجہ سے زیادہ ہوتاہے ۔ایک مائینر اور ایک نارمل کی شادی میں میجر تھیلسیمیاء کے چانسز تو صفر فیصد ہوتے ہیں۔نارمل کے 75فیصد ہوتے ہیں مگر مائینر تھیلیسمیاء کے پچیس فیصد چانسز ہوتے ہیں۔پاکستان میں صرف سندہ اسمبلی میں یہ شادی سے پہلے تھیلسیمیاء ٹیسٹ کروانے کا قانون پاس ہواہے۔مگر وہاں بھی میرا نہیںخیال ہے کہ اِس پر ایک فیصد بھی عمل درآمد ہورہاہو۔چارسال سے کم عُمر بچوںکو مہینہ میںایک مرتبہ اور چارسال سے بڑے بچوں کو مہینہ میں دودفعہ ٹرانسفیوژن (خون کی منتقلی ) کے مرحلے سے گزرنا پڑتاہے۔ہر ماہ اوسطاََ بارہ سے پندرہ ہزار کا خرچ والدین کو ہر صورت میں بندوبست رکھنا ہوتاہے۔ایک غریب یا مڈل کلاس طبقہ کے والدین میں سے اگر اُن کا بچہ تھیلسیمیاء میں مبتلا ہے تو پھر وہ کیسے اپنے ماہانہ بجٹ سے ایک فکس رقم ہر ماہ تھیلسیمیاء علاج بچے کے لیے برداشت کرتاہوگا ۔حکومت کو چاہیے کہ جن والدین کے بچے تھیلیسیمیاء کے مریض ہیںاُن کو خصوصی ہیلتھ کارڈ کے ذریعے ماہانہ امدد کم از کم بارہ سے پندرہ ہزار دی جائے جس سے وہ اپنے بچے کے ہر ماہ کے انتقال خون عمل کے لیے اخراجات برداشت کرنے کے قابل ہوسکیں ۔پاکستان میں فاطمیدفائونڈیشن ،ہلال احمر ،تھیلسیمیاء سوسائٹی آف پاکستان،تھیلسیمیاآغا یونیورسٹی ہسپتال،تھیلسیمیاء فیڈریشن آف پاکستان ،سلطانہ فائونڈیشن اور سُند س فائونڈیشن تھیلسیمیاء کے حوالے سے خدمات سراِنجام کرنے والوں میں سہرفہرست ادارے ہیں۔ میںایک اُستاد سید زوار کوجانتاہوں جو کہ ایک پرائیویٹ سکول ڈیرہ اسماعیل میں ملازمت کرتاہے گھر کی ذمہ داریوں کو بڑی مشکل سے بجٹ سے پور ا کررہاہے۔اُس کے دوبیٹے اور ایک بیٹی ہے۔دونوں بیٹے تھیلسیمیاء کے مریض تھے ایک بچہ 2014 ء فوت ہوگیا ۔دُوسرے بارہ سالہ بچہ سید امان حُسین جو کلاس چھٹی کا طالب علم ہے وہ بھی تھیلسیمیاء کا مریض ہے۔ بچے کے لیے ہر ماہ ڈیر اسماعیل خان سے چار سو کلومیٹر سات گھنٹوں کا فاصلہ طے کرکے ہ راولپنڈی میںسلطانہ فائونڈیشن بلڈ ٹرانسفیوژن کے لیے جاتے ہیں ۔مہینہ میں دو مرتبہ اُنہیں بلڈ ٹرانسفیوژن لازمی کروانا ہوتاہے ۔تین بوتل لگتی ہیں۔سلطانہ فائونڈیشن ویسے تو بلڈ مفت دیتاہے اور ادویات بھی مگر میرے بچے کے بلڈکا ایشو ہے جس وجہ مجھے آرمڈ فورسز اِنسٹیٹوٹ آف ٹرانسفیوزن سے فی بوتل دو ہزار میں خریدنی پڑتی ہے۔ ۔ یہ فائونڈیشن کرنل (ر) توقیر عباس کی زیرنگرانی تھیلیسیماء کے مریضوں کے لیے کئی سالوں سے مثالی سروسز دے رہے ہیں ۔ خوش اخلاق عملہ اور ہر لمحے تعاون کے لیے ہمارا منتظر رہتاہے۔ میرے ایک دوست پروفیسر ثقلین کی ایک ہی لاڈلی بیٹی ہے جو تھیلسیمیاء میں مبتلا ہے اور وہ بھی سلطانہ فائونڈیشن سے ہی ہر ماہ دو مرتبہ ٹرانسفیوزن کے لیے جاتے ہیں۔اُن کی زندگی کا کل سرمایہ یہ ان کی بچی ہے جس کے لیے وہ زندگی کو جی رہے ہیں۔پروفیسر صاحب کو سرکاری ہسپتالوں سے گلہ ہے وہ کہتے ہیںکہ گورنمنٹ تھیلسیمیاء سنٹربرائے نام اِس سلسلے میں کام کررہے ہیں ۔سنٹر تو بنا دیے گئے ہیں مگر وہاں سہولتیں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہیں ۔بلڈبھی نہیں ملتاہے ۔ملے بھی اگر تو وہ پُراناہوتاہے اور اُس میںغذائیت نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے ۔دُوسرا تمام ڈسٹرکٹ ہسپتالوں تک تھیلسیمیاء سنٹرز مکمل سہلولتوں کے ساتھ ہونا ضروری ہیں ۔
مشہور کالم نگار منوبھائی ایک عظیم اِنسان تھے اُنہوں نے بائیس سال قبل جو راہ اِنسانیت کا درد اپنے دِل میںمحسوس کرتے ہوئے تھیلا سیمیا ء کے بچوں کے لیے خون منتقلی کا ادارہ سُند س فائونڈیشن بنایا تھا آج وہ تنا آور درخت بن چُکاہے ۔ بائیس سال کے دوران سُند س فائونڈیشن چار لاکھ چھ ہزاریونٹ سے زیادہ صحت مند اور سکرینڈبلڈ بیگ اور خون کی مصنوعات فراہم کی ہیں۔سُند س فائونڈیشن ہر روز دو سوبچاس سے تین سویونٹ خون اور خون کی مصنوعات فراہم کرتی ہے۔یہ لاہور ،اِسلام آباد سیالکوٹ ،گوجرانوالہ ،ٖٖفیصل آباد میں رضا کارانہ طور پر بلڈ ٹرانسفیوژن خدمات کے حوالے سے خون اور خون کی مصنوعات کی مجموعی ضروریات کا تقریبا چالیس سے پچاس فیصد ہے۔یہ سب سُند س فائونڈیشن کو حکومت کے علاوہ طبی برادری ،کارپوریٹ سیکٹر،عوام اورخصوصاََ طالب علموں کی طرف سے تھیلیسیمیا ء کے مریضوں کے لیے خون کے عطیہ کی شکل میں میسر ہے ۔ایئر وائس مارشل ریٹائر آفتا ب حُسین ستارہ امتیاز کو میں ذاتی طور پر جانتاہوں ایک خدمت اِنسانی کا پیکر ،اتنے بڑے عہدے سے ریٹائرڈ ہونے کے بعد اپنی زندگی تھیلسیمیاء کے مریضوں کی خدمت کے لیے وقف کی ہوئی ہے ۔کاش ہمارے سب سینیئر عہدوں سے ریٹائرڈ ہونے والے آفیسران ریٹائرمنٹ کے بعد اور نوکری ومراعات میںنہ پڑیں اور لیفٹینٹ جنرل(ر) معین الدین حیدر،ایر وائس مارشل آفتاب ک،کرنل (ر) توقیر عباس کے نقش قدم پر چلیںتو وہ فلاحی کاموں کے لیے بہت کچھ اپنے سابقہ عہدے اور تعلقات کی بنیاد پر کر سکتے ہیں۔وہ کہتے ہیںکہ کروناوائرس کے بحران نے جہاں دُنیا بھر کے کروڑوں افراد کی زندگی کو متاثر کیا ہے وہاں تھیلسیمیاء کے مریض بُری طرح متاثر ہوئے ہیں۔
جنہیں زندہ رہنے کے لیے باقاعدگی سے خون کی منتقلی اورآئرن چیلیشن تھراپی کی ضرورت ہوتی ہے۔سندس فائونڈیشن اِسلام آباد سنٹراِسلام آباد چارسو سے زائد تھیلیسیمیاء مریضوں کو مفت تھیلیسیمیاء علاج کررہاہے۔ وسائل کی کمی،حالیہ مہنگائی میں دوائوں کی قیمتوں کا بڑھناسے ادارے کے نیک مقاصد وکوششیں متاثر ہورہی ہیں۔ماہ رمضان کا بابرکت مہینہ ہے ۔ تھیلسیمیا ء اور ہیمو فیلیا ء مریضوں کے علاج کے لیے اپنی زکوۃ،صدقا ت اور عطیات سے ہمارے مشن میں ساتھ دیں۔