امیر العظیم جماعت اسلامی کے سیکرٹری جنرل ہیں یہ بہت عزت اور ذمہ داری کا منصب ہے ،امیر العظیم محض کارکن ہی نہیں بلکہ لیڈر شپ کی جملہ صفات بھی ان میں موجود ہیں وہ مفکر ہیں نظریاتی انسان ہیں اور کم سنی سے ایسے منصوبوں میں ہاتھ ڈال رہے ہیں کہ جو بڑے بڑے اسٹریٹجسٹ بھی انجام نہیں دے سکتے،ان کا حلقہ اثر اس قدر وسیع ہے کہ جس کی میں توقع بھی نہیں کر سکتا تھا ،ایک روز سوئٹزرلینڈ سے بڑی طویل کال موصول ہوئی ،انہوں نے اپنا نام درویش بتایا ،وہ کہہ رہے تھے کہ میں امیر العظیم کے قدموں کی خاک کے برابر نہیں ہوں ،اس لیے ان کے سوال اور اس پر باندھے گئے آپ کے مضمون کا جواب میں دوں گا ،اب درویش صاحب کا جواب آتا ہے یا نہیں،میں نے اس سوال پر کچھ تحقیق کی ہے اور میرے ذہن میں ایک نیا مضمون ابھرا ہے ،جسے میں قارئین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ۔
افغان مجاہد اور سابق وزیر اعظم گلبدین حکمت یار منصورہ آئے تو امیر العظیم نے ان کے لیے استقبالیہ کلمات ادا کرتے ہوئے جہاد افغانستان پر ایک نگاہ واپسیں ڈالی ،ان کے ذہن میں یہ سوال ابھرا کہ جب سوویت افواج نے افغانستان پر حملہ کیا تھا تو امریکہ خود ان کے خلاف لڑنے کے لیے میدان میں کیوں نہیں اترا اور نائن الیون کے بعد امریکہ نیٹو افواج کے ساتھ افغانستان میں مورچہ زن ہوا تو ان کا نشانہ صرف ایک نہتا شخص تھا،اسامہ بن لادن ۔امیر العظیم نے اس تضاد کو تو نمایاں کیا مگر اس کا تجزیہ نہیں کیا اور یہ فریضہ میں نے نبھایا ،مگر اب سوچتا ہوں تو مجھے امریکی طرز عمل میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی،امریکہ کو اپنا مقصد پورا کرنا تھا چاہے وہ اپنی فوج کے ذریعے حاصل کرے یا کسی کی فوج کو استعمال کرے یا مجاہدین کو میدان میں اتارے ،مجاہدین کو آپ نان اسٹیٹ ایکٹرز کہہ سکتے ہیں ،اس لحاظ سے امریکہ کو جو اسٹریٹیجی سوٹ کرتی تھی وہ اس نے اپنائی ،اور کامیابی حاصل کی ۔
اب یہ جو اعتراض ہے کہ ہم امریکہ کی ایک ٹیلی فون کال پر کیوں ڈھیر ہوجاتے ہیں یا ڈالروں کے عوض کیوں بک جاتے ہیں تو مجھے تو یہ سوال بھی بہت بھونڈا لگتا ہے اور سوال کرنے والے پاکستان کی تاریخ اور عالمی تاریخ سے بالکل نابلد لگتے ہیں ،سب جانتے ہیں کہ پاکستان شروع سے امریکی کیمپ میں شامل رہا ہے ،اگرچہ روس نے کوشش کی تھی کہ وہ لیاقت علی خان کو دورے پر بلائے لیکن پاکستان کے منصوبہ سازوں نے روس کی دعوت ٹھکرا دی اور امریکہ کا پلو پکڑ لیا،لیاقت علی خان نے امریکہ کا سرکاری دورہ کیا ،اورسرکاری دورے کی مدت ختم ہونے کے بعد انہوں نے وہاں اپنی بیگم صاحبہ کیساتھ نجی دورے پر ایک طویل عرصے کے لیے قیام کیا ،یہ درست ہے کہ امریکہ وسعتوں کی سرزمین ہے ،اس کی چمک دمک آنکھیں چندھیا دیتی ہے لیکن لیاقت علی خان کے طویل نجی دورے کا کوئی جواز پیش نہیں کیا جاسکتا ،بہر حال اس دورے نے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی سمت طے کردی تھی،پاکستان نے امریکی اشارے پر سیٹو اور سینٹو کے معاہدوں میں شمولیت اختیار کی ۔
امریکی اشاروں پر چلنا محض پاکستان کا شیوہ نہیں ایک دنیا امریکی مدار میں رہنا پسند کرتی ہے ،یورپ جیسا ترقی یافتہ بر اعظم کوئی اور نہیں ہوگا ،معاشی طور پر بھی اور فوجی طور پر بھی لیکن وہ بھی ہمیشہ سے امریکہ کی نمک خواری کر رہا ہے ۔ پرانی تاریخ میں ہم نہیں جاتے صرف عراق اور افغانستان کی جنگوں پر نظر ڈال لیجئے آپ دیکھیں گے کہ برطانوی وزیر اعظم ٹونی بلیئر امریکی صدر کا پوڈل بنا رہا اور عراق پر چڑھائی کرنے کے لیے ٹونی بلیئر کی حکومت نے ایک جھوٹی انٹیلی جنس رپورٹ جاری کی کہ صدر صدام حسین ایٹمی جراثیمی اور حیاتیاتی اسلحے سے لیس ہے اور وہ دنیا میں بڑی تباہی مچا سکتا ہے،چند سطروں کی اس رپورٹ کو جواز بنا کر امریکہ اور برطانیہ نے عراق کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ،ٹونی بلیئر اس برطانیہ کا وزیر اعظم تھا جس کی ایمپائر میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا لیکن اس طاقت ور ترین ملک کا وزیر اعظم امریکہ کا پٹھو بنا ،یہ الگ بات ہے کہ اقتدار سے الگ ہونے کے بعد اپنے عوام سے معافی مانگی کہ صدام حسین کے خلاف انٹیلی جنس رپورٹ جھوٹی اور بے بنیاد تھی،میں آپ کویہ بھی بتاتا چلوں کہ جاپان اور سنگاپور نے امریکہ سے دفاعی چھاتہ بھی لے رکھا تھا ،ان ملکوں کے وزرائے اعظم کو کسی نے طعنہ نہیں دیا کہ وہ امریکہ کے پٹھو اور حاشیہ نشین ہیں ۔بھارت دنیا کا آبادی کے لحاظ سے بہت بڑا ملک ہے ،ایک زمانہ تھا جب وہ روس کی گود میں بیٹھا رہا اور پھر اس نے اپنی خارجہ پالیسی میں یو ٹرن لینے میں ایک لمحے کی تاخیر نہیں کی اور وہ امریکی اشاروں پر ناچنے لگا ۔ اس طرح ناچنے لگا جیسے شراب میں مست چوہا ناچتا ہو ،اس نے امریکہ کے اشارے پر چین پر چڑھائی کردی مگر منہ کی کھائی ،کیا کبھی بھارت کے میڈیا اور دانشوروں نے اپنی حکومتوں پر انگلی اٹھائی کہ وہ امریکہ کے اشاروں پر کیوں چلتے ہیں،کیا یہ حقیقت نہیں کہ کارگل میں جنگ بندی کا حکم امریکی صدر بل کلنٹن نے بھارتی وزیر اعظم کو آدھی رات کی نیند سے جگا کر ایک ٹیلی فون کال پر دیا تھا ۔اب پھر برطانیہ عظمٰی پر نظر ڈال لیتے ہیں کہ جس کی سلطنت میں کبھی سورج غروب نہیں ہوتا تھا اس ملک کے تین وزیر اعظموں کو امریکہ نے کس طرح تگنی کا ناچ نچوایا ،ایک وقت تھا کہ پورا یورپ متحد ہو رہا تھا،ایک پاسپورٹ ،ایک کرنسی مگر امریکہ کے ایک اشارے پر برطانیہ کے موجودہ اور پچھلے دو وزیراعظموں نے یورپ کے اتحاد کا خواب چکنا چور کردیا،کیا یہ تینوں وزرائے اعظم پاکستان کے ضیاء الحق اور مشرف کی طرح کمزور ملک کے حکمران تھے،کون نہیں جانتا کہ پاکستان نے اپنے قیام کے فوری بعد امریکہ کو جاسوسی اڈوں کے قیام کے لیے اپنی زمین سونے کی طشتری میں رکھ کر پیش کی ،پشاور کے نواح میں بڈبیر ایئر پیس سے اڑنے والا یو ٹو طیارہ اگر روسی فضائیہ نہ گرا لیتی تو دنیا کو پتہ ہی نہ چلتا کہ پاکستان کس حد تک امریکی غلامی میں چلا گیا ہے ،ضیاء الحق نے افغانستان میں روس کے خلاف کمانڈو جنگ لڑی اور مشرف نے امریکی اشارے پر دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کمر کس لی تو ان کو لعن طعن کا نشانہ کیوں بنایا جاتا ہے ،ہم لوگ بات بات پر ترکی کے قصیدے پڑھتے ہیں اور اسے اسلامی دنیا کا قائد بنانے کی کوشش کرتے ہیں ،لیکن کیا ہم نہیں جانتے کہ اس ترکی نے اسرائیل کو تسلیم کر رکھا ہے اور اسی ترکی کی فوجیں نیٹو افواج میں شامل ہوکر افغانستان میںپاکستان کے خلاف صف آرا ہیں۔کیا اس سارے پس منظر کے باوجود ہم یہ سوال دہراتے رہیں گے کہ ایوب خان ،ضیاء الحق اور مشرف نے امریکہ کے بوٹ کیوں پالش کیے،کیا ہم نہیں جانتے کہ ایک دنیا امریکہ کے بوٹ چمکانے میں مصروف ہے ۔ میرا جواب تو حاضر ہے اب دیکھیے سوئزر لینڈ سے درویش صاحب کیا منطق پیش کرتے ہیں۔
ذرا کی ذرا رک کر ارطغرل کو دیکھ لیجئے کہ امریکہ بھی شام کو تہس نہس کر رہا ہے اور ترکی بھی اس نیک کام میں پیچھے نہیں۔ اور کیا سننا چاہتے ہیں،اسرائیل کو تسلیم کرنے کے لئے کس سپر پاور کے اشارے پر عرب ریاستوں کی قطار لگی ہوئی ہے۔
٭…٭…٭
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے … یاد نہیں دلائوں گا
Mar 18, 2024