مصطفی زیدی نے افسری سے ہاتھ دھونے کے بعد کراچی کے ایک فلیٹ میں زندگی کے آخری دن یوں گزارے ۔
؎فون خاموش ہے اور گیٹ کی گھنٹی بے صوت
جیسے اس شہر میں رہتا ہی نہیں ہے کوئی
کالم نگار بھی ان دنوں آباد شہر میں یونہی تنہا ہے ۔ شہزاد نیئر نے سیا چن کے محاذ کا سارا تجربہ اپنی نظم ’’سیاچن ‘‘ میں سمو دیا تھا۔ انہوں نے لکھا ۔’جہاں میں ہوں /وہاں خوشبو گلابوں کی پرندے تتلیاں جگنو اسی صورت پہنچتے ہیں /کہ جب اپنوں کے خط آئیں/‘۔کالم نگار اپنے گھر گوشہ عافیت میں ہے ۔ اپنے ساتھ ہیں اور ان کے بچے بھی ساتھ ۔ سو گلابوں کی خوشبو سے دوری نہیںاور گلشن جگنوئوں ، تتلیوں اور بچوں کی کلکاریوں سے آباد ہے ۔لیکن قید قید ہوتی ہے چاہے کسی کے گھر کوہی سب جیل قرار دے دیا جائے۔ دوست ریٹائرڈ سیشن جج جاوید نواز چوہدری بتا رہے تھے ۔ ’میں بالکل کہیں آتا جاتا نہیں ہوں۔ باہر نکلے کئی کئی روز ہو جایا کرتے تھے ۔ لیکن اب باہر نکلنے کو جی چاہتا ہے ۔ زندگی میں محرومیاں بڑی اذیت ناک ہوتی ہیں۔ جس شے سے محرومی ہو ، ہر دم اسی طرف خیال رہتا ہے ۔ سبھی دوست پیارے اور من پسند لوگ فون پر موجود ہیں۔یہ سبھی منتظر بھی ہیں کہ بات بھی ہو اور لمبی بھی ہو۔ لیکن دور پار دوستوں سے گفتگو اک حد تک مزیدار ہوتی ہے ۔ لمس انسانی زندگی کی لذیذ ترین چیزوں میں سے ہے۔ کسی یار جانی کے لمس سے محرومی کو فیض نے یوں لکھاہے۔ اپنی پنجابی نظم ’لمبی رات سی درد فراق والی ‘سے شروع کر کے اپنے مدعا تک یوں پہنچتے ہیں۔
اج لا الاہمے مٹھڑے یار میرے
اج آویہڑے وچھڑے یار میرے
فجر ہووے تے آکھیئے بسم اللہ
اج دولتاں ساڈے گھر آیاں نیں
کوئی نابینا شخص بھی لمس کی اس لذت سے محروم نہیں۔ ’میں نے چھو کر پڑھ لیا چہرہ تیرا‘۔وہ محض ہاتھ کے چھونے سے اپنے محبوب کے سارے جذبات اور احساسات محسوس کر لیتا ہے ۔ پٹھانے خاں نے خیال امروہی کے اس شعر میں اپنا درد بھر کر اسے دو آتشہ بنا دیا ہے ۔
؎اے دوست ذرا اور قریب رگ جاں ہو
کیا جانے کہاں تک شب ہجراں کا دھواں ہو
کالم کدھر سے کدھر جا رہا ہے ۔ یہ سب کرونا کا ہی کیا دھرا ہے ۔ کرونا وائرس کیا ہے ؟ اس کا سارا کچا چٹھہ سمجھ لیں۔ مالتھس نے آبادی کا نظریہ پیش کیا کہ دنیا میں وسائل عددی اعتبار سے بڑھتے ہیں۔ ایک دو تین چار ، اسی طرح آگے ۔ لیکن آبادی اور طرح سے بڑھتی ہے ۔ ایک مرد اور ایک عورت ایک دو چار وغیرہ بچے پیدا کرتے ہیں۔ اسی طرح آبادی دو سے چار ، چار سے آٹھ اور آٹھ سے سولہ کے حساب سے بڑھتی ہے ۔ کرونا وائرس کا پھیلائو ان دونوں طریقوں کی بڑھوتری سے بہت آگے بڑھ جاتا ہے ۔ الجبرا میں جب ہم دس کی طاقت دو لکھتے ہیں تو اس سے مراد صرف دو مرتبہ دس نہیں ہوتا ۔ اس سے مراد دس کا دس گنا ہوتا ہے ۔ یعنی دس ضرب دس برابر سو۔ انگریزی میں اسے Exponentional کہتے ہیں۔ کرونا وائرس ایک چھوت کی بیماری ہے ۔ اس میں ایک مریض انگنت لوگوں کو یہ بیماری لگا سکتا ہے ۔ زندگی کیلئے امید افزا بات صرف یہ ہے کہ اس بیماری میں شرح اموات بہت کم ہیں ۔ اگرچہ اس مرض کا ابھی تک انسان کوئی علاج نہیں ڈھونڈ سکا۔ انسانی جسم محض اپنی قوت مدافعت سے اس مرض پر قابو پاتارہتا ہے ۔ ابھی تک اس سے بچنے کیلئے Stay Home ہی بہتر علاج تجویز ہوا ہے ۔ گھر میں ٹکے رہنا باوسائل لوگوں کیلئے چنداں مشکل نہیں۔ لیکن بیچارے غریب دہاڑی دار لوگ ؟ ان کے لئے یہ مشکل ہی نہیں ناممکن ہے ۔ انہیں ہر رو زاپنے اور بچوں کیلئے دانہ دنکا کی تلاش میں باہر نکلنا پڑتا ہے ۔غربت بہت بڑا عذاب ہے ۔ تاج محل آگرہ شاہجہاں کے عشق کی یادگار ہے ۔ لیکن ساحر لدھیانوی اسے بھی ’اک شہنشاہ نے دولت کا سہارا لے کر ۔ ہم غریبوں کی محبت کا اڑایا ہے مذاق‘ قرار دیتے ہیں ۔ ساحر ؔزندہ ہوتے تو آج سوشل میڈیا پر نام نہاد امیر زادوں کے ہاتھوں خیرات کے نام پر ہر روز غربت کی توہین پر اللہ جانے کیا لکھتے ۔ میرے حضورؐ نے دو لفظوں میں اسلام کی حقیقت یوں فرمائی ۔اول زبان کی پاکیزگی اور دوم امیروں کا غریبوں کو اپنے مال اسباب میں حصہ دار سمجھنا۔ رحمۃ للعالمینؐ کے منہ سے نکلا ہوا لفظ’’ حصہ دار ‘‘شرف انسانیت کا آئینہ دار ہے ۔ حضورؐ کے اس فرمان سے کالم نگارکواپنے شہر کے ایک درویش ادیب اسلم سراجدین یاد آگئے ۔ اکیسویں صدی کی پہلی دہائی کے شروع میں سندھ میں سیلاب سے بہت تباہ کاریاں ہوئیں۔ گائوں کے گائوں برباد ہو کر رہ گئے ۔ ہر طرف بھوک ، بیماری اور بے گھری کا راج تھا۔ لوگوں کے کچھ ڈھور ڈنگر بہہ گئے ۔ کچھ مر گئے۔ ایسے میں گوجرانوالہ کے اسلم سراجدین اپنا سائیکل پکڑ کر گھر سے نکلے ۔ بینک پہنچے ۔ اپنے اکائونٹ میں سے ایک لاکھ سات ہزار روپے نکلوا کر ایدھی کے سیلاب ریلیف فنڈ میں خاموشی سے جمع کروا آئے ۔راز کھلنے پر بتانے لگے ۔مجھے اچھا نہ لگا کہ میرے سندھی بھائی بھوک سے مر رہے ہوں اور میرے اکائونٹ میں پیسے یونہی پڑے رہیں۔ پھر میرے اکائونٹ میں ابھی پانچ ہزار روپے اور بھی تو موجود ہیں۔ چند روز میں ہمیں اگلے ماہ کی تنخواہ بھی ملنے والی ہے ۔یہ دونوں میاں بیوی اسکول ٹیچر تھے ۔ قوم کو کرونا وائرس کے مقابلہ کیلئے ایسے ہی ایثار پیشہ لوگوں کی ضرورت ہے ۔
٭…٭…٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024