ہر دردمند دل کو رونا مرا رُلا دے
بے ہوش جو پڑے ہیں شاید انہیں جگا دے
شب برات کا دن مسلمانوں کے لئے بابرکت حیثیت رکھتا ہے کیونکہ یہ وہ رات ہے جس میں اللہ رب العزت پورے سال کیلئے اپنا میزانیہ فرشتوں پر نازل فرماتا ہے۔ زندگی اور موت اور رزق کی تقسیم کے پیمانے کا تعین بھی اسی رات کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ باایمان لوگوں کی بڑی اکثریت اللہ جل جلالہ کے حضور سجدہ ریز ہو کر اپنے اور اپنے پیاروں کیلئے نیک تمناؤں اور کشادگی رزق کی دعا کرتے ہیں۔ ہمیں آس ہوتی ہے کہ اللہ دعاؤں کو قبولیت بخشے گا اور ہماری مرادیں پوری ہوں گی۔ یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ کیا ہمارے اعمال اس قابل ہیں یا ہماری بداعمالیاں اس حد تک نہیں بڑھ گئیں کہ ہماری دعائیں رد کر دی جائیں؟ یقینا اللہ اپنی مخلوق سے ماؤں سے بھی ستر گنا سے زائد محبت کرتا ہے لیکن ایک بات یاد رکھنے کی ہے کہ اس کی محبت میں عین حکمت اور دانشمندی ہے۔ اللہ نے ہماری کامیابی کے لئے کچھ سازینے مقرر کر دیئے ہیں۔ جو قوم ان اصولوں پر عمل کرتی ہے، کامیاب وکامران ہوتی ہے۔ اللہ نہیں چاہتا کہ اس کی نام لیوا قوم ذلیل ورسوا ہو لیکن جب جدوجہد ترک کر دی جائے اور اپنی فلاح کیلئے بھی دوسروں کے آگے جھولی پھیلائی جائے تو پھر دعائیں بھی رد کر دی جاتی ہیں۔ ہماری ناکامی کی وجہ بھی ہماری یہی بے عملی اور دوسروں کے آگے جھولی پھیلانا ہے۔
13 اپریل کو حکومتی ترجمان نے دعویٰ کیا کہ بجلی کی طلب 14 ہزار میگا واٹ سے کچھ زائد ہے جبکہ ہم 18 ہزار میگا واٹ بجلی پیدا کر رہے ہیں۔ حکومتی ترجمان کا یہ دعویٰ سن کر بظاہر اطمینان ہوتا ہے کہ ہم طلب سے زائد بجلی پیدا کر رہے ہیں لیکن ذرا غور کیا جائے تو انتہائی تلخ حقیقت سامنے آتی ہے کہ گردشی قرضے بڑھنے کی اصل وجہ کیا ہے؟ یہ بات سب جانتے ہیںکہ نجی سیکٹر میں لگائے گئے بجلی گھروں سے بجلی نہ لینے کے باوجود بجلی کی قیمت کا بڑا حصہ کیپیٹل کاسٹ اور منافع کے طور پر دینا پڑتا ہے جس کا اندازہ کم از کم دس روپے فی یونٹ لگایا جا سکتا ہے۔ یعنی چار ہزار میگاواٹ بجلی استعمال نہ کرنے کی صورت میں فی گھنٹہ 40 لاکھ یونٹ کا بل قوم کے کھاتے میں پڑ جاتا ہے یعنی 4 کروڑ روپے فی گھنٹہ۔ اس طرح سالانہ 350ارب روپے کا خطیر فاضل بل ہماری اوپر واجب الادا ہو جاتا ہے۔ ڈھائی ارب ڈالر سے تعمیر ہونے والی اورنج لائن ٹرین کی ماہانہ قسط بھی اپریل 2018 سے پنجاب کی قوم سے وصول کی جا رہی ہے۔
زرعی معیشت کی بنیاد رکھنے کے باعث پانی کی اہمیت فزوں تر ہو جاتی ہے اور جب عالمی اداروں کی طرف سے مسلسل خطرے کا الارم بج رہا ہو تو آبی منصوبوں کی تکمیل کی اہمیت سب سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ گذشتہ سال موسم سرما میں کاشتکاری کے لئے پانی کی شارٹیج کا تخمینہ 40% لگایا جا رہا تھا۔ زراعت اور آبپاشی سے تعلق رکھنے والے ماہرین ربیع کے فصل کے حوالے سے انتہائی فکر مند تھے۔ گندم کی پیداوار میں شدید کمی کا خطرہ تھا۔ لیکن موسم سرما کے وسط میں معمول سے ہٹ کر شدید بارشیں ہوئیں جن کی وجہ سے پانی ضرورت سے زائد دستیاب ہو گیا۔پہاڑوں پر بھی کئی فٹ برف جمع ہو گئی۔ بظاہر تو پانی کی فراہمی کا خطرہ ٹل گیا لیکن اس کے ساتھ موسمیات کی فورکاسٹ کا جائزہ لینے پر سیلاب کے خطرے کا اندازہ بھی سامنے آیا۔ فورکاسٹ کے مطابق امسال موسم گرما میں بارشیں معمول سے زیادہ ہوں گی۔ ان بارشوں کا پہلا سلسلہ شروع ہو چکا ہے جس کی وجہ سے گندم کی کھڑی فصل کو کافی نقصان بھی پہنچا ہے۔ فور کاسٹ کے مطابق بارشوں کا سلسلہ یونہی جاری رہا تو جولائی تک منگلا اور تربیلا دونوں ڈیم بھر جائیں گے اور پھر اگست میں ہونے والی بارشیں ملک میں شدید سیلاب کا منظر پیش کریں گی اور اگر موسم نے جولانی پکڑی تو انتہائی شدید سیلاب ایک بار پھر 2010ء کی تباہی کا پیش خیمہ پیدا کر سکتا ہے۔ یہ بات تمام ماہرین جانتے ہیں کہ سیلابی پانی پر صرف ایک ڈیم کالاباغ ہی ہے جو سیلاب کو کنٹرول کر سکتا ہے۔ بھاشا ڈیم بلاشبہ بڑا قیمتی ڈیم ہے لیکن اس کے ذریعے سیلابی ریلوں پر کوئی بند نہیں باندھا جا سکتا پھر وہ کون سے ہاتھ ہیں جو قوم کو تباہی سے بچانے والے ڈیم کی تعمیر کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ یہی وہ بداعمالیاں ہیں جن کا شکار ہماری قوم مسلسل ہو رہی ہے۔ اگر آج بھی ہم نے اپنی خامیوں کا ادراک نہ کیا اور اپنا محاسبہ نہ کیا تو پھر کوئی دعا ہمارے کام نہ آئے گی۔ اللہ تبارک تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں عمل کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین!
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024