اسلام میں زبان کی اہمیت
اللہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم میں لوگوں کی زبانیں مختلف ہونے کو اپنی نشانی قرار دیا ہے (دیکھیں: سورۃ روم: ۲۲)۔ ظاہر ہے اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کی حفاظت چاہئے، نہ کہ ان سے دشمنی اور انہیں مٹانے پر کمر کسنا۔ بلکہ اگر کوئی بہت چھوٹی اور نادر زبان بولتا ہو تو اس پر فخر بھی ہونا چاہئے کہ میں ان چند آدمیوں میں سے ہوں جس نے اس نشانی کو ابھی تک باقی ومحفوظ رکھا ہوا ہے۔ اسی طرح سرکارﷺ کو نہ صرف دنیا کی تمام زبانوں کا علم تھا، بلکہ ہر کسی کے ساتھ اسی کی زبان میں بات کرنا پسند فرماتے تھے (جب تک کوئی اور حکمت حائل نہ ہوتی)۔ مثلاً حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ فارسی اور حبشہ سے ہجرت کر کے آنے والی ننہی ام خالد (رضی اللہ عنھا) کے ساتھ حبشی بولنے، نیز مختلف قبائل کے لوگوں سے ان کے لہجے میں بات کرنے وغیرہ کے واقعات صحیح بخاری میں موجود ہیں بلکہ امام بخاری نے اس کا پورا الگ باب بنایا ہے(کتاب الجہاد والسیر: باب من تکلم بالفارسیۃ الخ)۔ سرکارﷺ کو دنیا کی تمام زبانوں اور لہجوں کا علم قرآن شریف سے ثابت ہے۔ فرمایا: ’’ ہم نے ہر رسول اپنی قوم کی زبان کے ساتھ بھیجا‘‘ (سورۃ ابراہیم: ۴، تفسیر نور العرفان کا بھی مطالعہ کریں)، اور ظاہر ہے آقاﷺ تمام انسانوں کی طرف بھیجے گئے ہیں تو تمام لوگوں کی ہر زمانے کی زبانوں کا جاننا ضروری ہے۔ اسی لئے حضورﷺ کو کسی بھی زبان میں سلام کرنا جائز ہے اور آپﷺ کو اس کا جواب، اسی زبان میں دینے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی۔ نیز جب حضرت آدم علیہ السلام کو زمین پر بھیجنے سے پہلے دنیا کی تمام زبانیں سکھائی گئی تھیں، حضرت سلیمان علیہ السلام پرندوں تک کی زبانیں بول لیتے تھے (یہ دونوں قرآن سے ثابت ہیں) تو سرکارﷺ کو اس کمال سے کیسے محروم رکھا جاتا؟ لہذٰا یہ نہیں سمجھنا چاہئے کہ صرف عربی ہی آپﷺ کی واحد زبان تھی۔
اخلاقی لحاظ سے بھی دیکھیں تو اپنی زبان کو چھوڑنے عموماً کمتری کے احساس سے ہی ہوتا ہے۔ اگر آدمی کسی دوسرے ملک چلا گیا ہے جہاں اپنی زبان کوئی نہیں بولتا تب تو اور بات ہے، ورنہ اپنے ہی علاقے میں رہتے ہوئے سرائیکی یا پنچابی کو چھوڑنے کا کیا جواز ہوا؟ صاف ظاہر ہے، یہ آدمی اپنے کو دوسروں (اُردو، انگریزوں وغیرہ) کے مقابلے میں کمتر سمجھتا ہے، ان زبانوں کے ظہور کو برداشت نہ کر سکا اور کم ظرفی کا شکار ہو گیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے ماضی، نسل، زبان، خاندان کے تاریخی ورثہ خصوصاً اللہ کی نشانی اور حضورﷺ کی ایک زبان کو مٹانے کی کوششیں شروع کر ڈالی۔ نیز یہ بات بھی یاد رکھیں، انسان جتنا جتن کر لے، کبھی اپنے ماضی کو مٹا نہیں سکتا۔ اپنی زبان کو چھوڑنے کے بعد اپنا رنگ بھی مٹائیں گے؟ اپنا رنگ بدلنے کے بعد اپنے مقامِ پیدائش بھی تبدیل کریں گے؟
یہ بھی خوب سمجھ لیں، کوئی قوم بھی غیر کی زبان سے ترقی نہیں کر سکتی۔ ہر زبان کو اپنی جگہ پر ہی رکھنا سب سے بہتر ہے۔ انگریزی کو یورپ میں چھوڑیں، اُردو کو اپنی سرکاری زبان سمجھیں، باقی معاملات میں ہرگز اپنی مادری زبان کے علاوہ کوئی زبان استعمال نہ کریں جب تک مجبوری نہ ہو۔ یعنی کوئی آدمی آپ کی زبان نہیں سمجھ سکتا تو ظاہر ہے ایسی زبان استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں جو وہ بھی سمجھے، آپ بھی سمجھیں۔ اگر ایسا نہیں ہے تواپنی زبان ہی استعمال کریں اور اسی کو اپنا شرف وفخر جانیں۔یورپ دیکھیں امریکہ دیکھیں، کہیں انگریزوں کے سوا کوئی قوم گھر میں یا باہر (مجبوری کے علاوہ) انگریزی بولتی نہیں ملے گی۔ فرانسیسی اگر انگریزی جانتے بھی ہوں تو آپ کو جواب فرانسیسی میں ہی دیں گے، جرمن اگر سکول میں انگریزی کا استاد ہی ہو تو کبھی سکول سے باہر انگریزی نہیں بولے گا۔ ان کی ترقی کا راز ہی یہی ہے کہ اپنی طاقت کو غیر زبان سیکھنے میں صرف نہیں کرتے۔ آج یورپ کے چھوٹے سے چھوٹے ممالک بلکہ صوبوں میں بھی مقامی زبانیں ہی سرکاری زبانیں ہیں۔ مثلاً پانچ لاکھ آدمیوں کی ایک چھوٹی سی زبان Basque زبان ہسپانیہ کے ایک صوبے میں سرکاری ہے، اسی طرح ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی زبان Corsian بھی فرانس کے ایک جزیرہ پر سرکاری زبان کی حیثیت رکھتی ہے، انگلستان کے ایک بڑے علاقے میں چھوٹی سی زبان Wales کو بھی سرکاری حیثیت حاصل ہے کیونکہ وہاں کے لوگوں کی اصلی زبان یہی ہے۔ ان لوگوں نے ہرگز انہیں فرانسیسی، ہسپانوی یا انگریزی سیکھنے پر مجبور نہیں کیا۔ ترقی یوں ہی ہوا کرتی ہے۔ یہ بھی دیکھ لیں، جو لوگ آج اپنی مقامی زبان کو چھوڑ کر کسی بڑی زبان کو اپنانے کی کوشش کرتے ہیں، کل جب ان کی اپنی زبان سرکاری زبان ہوگی تو ان کے بچوں کو شرمندگی بھی ہوگی اور اس کو نئے سرے سے سیکھنا بھی پڑے گا۔
دیکھیں اسلام انسان کو خوداری کا سبق دیتا ہے، کسی اور آدمی، قوم، زبان یا مذہب کے سامنے زیر ہونا مسلمان کی شان نہیں۔ اپنی شناخت کو بچانا ہی انسان میں غیرت وخوداری کے فضائل پیدا کرتا ہے، خصوصاً اگر اس شناخت والے زیادہ مسلمان ہی ہوں (جیسے سرائیکی، پنچابی اور اکثر پاکستانی قومیں) زبان، شناخت کا ایک نہایت اہم ترین حصہ ہوتی ہے، اسے فراموش کر کے یہ دعویٰ کرنا کہ میں نے اپنی شناخت کو محفوظ رکھا ہوا ہے، نرا زعم ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی نشانیوں کو محفوظ رکھنے اور کمتری کا شکار ہونے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے! آمین ثم آمین!