فواد عالم کو سلیکٹ نہ کیے جانے پر مکی آرتھر سے زیادہ انضمام الحق کو تنقید کا سامنا ہے یہ کسی حد تک درست ہے کیونکہ منتخب ہونیوالے کھلاڑیوں کا سب سے بڑا ذمہ دار چیف سلیکٹر ہی ہوتا ہے بھلے کوچ اور کپتان کسی بھی کھلاڑی کی ٹیم میں شمولیت کے مخالف ہوں یا حق میں حتمی فیصلہ و ذمہ داری چیف سلیکٹر ہی کے سر پر آتی ہے۔ اس لیے یہ کہنا کہ انضمام پر غیر ضروری تنقید ہو رہی ہے یہ کسی حد تک ناانصافی ہے معاملہ اس وقت زیادہ بگڑتا ہے جب چیف سلیکٹر کسی کو ڈراپ کرنے یا شامل کرنے پر دوٹوک موقف اختیار کرنے کے بجائے مستقبل کے سہانے خواب دکھائیں یا دلاسے دیں۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ تربیتی کیمپ میں فواد عالم تیز گیند بازوں کے خلاف موثر بیٹنگ کرنے میں ناکام رہے سیم اور سوئنگ باولنگ پر کمزور بیٹنگ کی وجہ سے وہ سلیکشن کمیٹی اور کوچنگ سٹاف کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہے۔ تاہم انہوں نے سپن باولرز کا سامنا پراعتماد و بہترین انداز میں کیا۔ لیکن فاسٹ باولرز کے خلاف غیر معیاری بیٹنگ پرفارمنس نے انہیں اسکواڈ سے باہر کر دیا۔بائیں ہاتھ سے کھیلنے والے بلے باز کو ڈراپ کرنے کی سب سے بڑی وجہ بتائی جاتی ہے۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چیف سلیکٹر نے ڈومیسٹک کرکٹ میں دس ہزار سے زائد رنز بنانیوالے بیٹسمین کو ڈراپ کرتے ہوئے یہ حقیقت کیوں نہ بتائی۔ واقفان حال بتاتے ہیں کہ بلے باز سعد علی تربیتی کیمپ میں فاسٹ باولرز کے خلاف اچھی بیٹنگ کیوجہ سلیکٹ ہوئے۔ جہاں تک تعلق وہاب ریاض کا ہے وہ ایک عرصے سے تیز اور شاٹ بائولنگ کر رہے ہیں اور متعدد بار وہ یہ کہہ چکے ہیں کہ انہیں یہ رول ٹیم انتظامیہ کیطرف سے دیا گیا ہے اب یکایک ٹیم انتظامیہ نے اپنے ہی دیے گئے کردار پر وہاب ریاض کو ڈراپ کر دیا۔ سلیکشن کمیٹی و کوچنگ سٹاف کی خبر رکھنے والوں کے مطابق فاسٹ باولر کو منتخب نہ کرنیکی وجہ انکی شاٹ بالنگ بنی ہے چونکہ آئر لینڈ و انگلینڈ لائن و لینتھ کی رفتار سے زیادہ سے ضرورت ہے سو فیصلہ سازوں کو وہاب ریاض کی رفتار کی ضرورت نہیں رہی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ گڈ بکس میں نہیں رہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ"سینئر کش" پالیسی کا نشانہ بھی بن سکتے ہیں۔ انکی گذشتہ دو سال کی کارکردگی کا حوالہ دینے والے مکی آرتھر پانچ روزہ کرکٹ میں اپنے کارناموں کا بھی ذکر کر دیتے تو ماہرین کے لیے آسانی ہوتی۔ سہیل خان، عمر اکمل، کامران اکمل، وہاب ریاض اور محمد حفیظ کے شکار کے بعد سینئر بلے باز شعیب ملک کے لیے بھی "انضی مکی کیمپ" سے اچھی خبر نہیں ہے۔ دونوں نے شعیب ملک کے شکار کی منصوبہ بندی شروع کر دی ہے۔ آنیوالے دنوں شعیب ملک کا کردار بھی محدود ہوتا چلا جائیگا۔ انہیں بھی کچھ سمجھ نہیں ائیگی کہ انکے ساتھ ایسا برتاو کیوں کیا جا رہا ہے جیسا کہ ابھی تک سہیل،عمر،فواد،وہاب اور کامران سمجھنے سے قاصر ہیں۔امکان ہے بہت جلد اس فہرست میں سیالکوٹی منڈا بھی شامل ہو جائیگا۔
دوسری طرف بہت کچھ بدل گیا لیکن نہیں بدلے تو ہمارے کامیاب ترین ٹیسٹ بلے باز یونس خان نہیں بدلے۔ اچھے بھلے لیول تھری کوچنگ کورس کرنے آئے تھے اپنے دوسرے گھر این سی اے کو خبر بنا کر کراچی واپس چلے گئے۔کچھ باتیں ایسی ہیں جو یونس خان نہیں بتا پائے۔ہوا یوں کہ پی ایس ایل کے دوران انہوں نے خود لیول تھری کوچنگ کورس کی خواہش کا اظہار کیا یہ خواہش متعلقہ حکام تک پہنچائی گئی اکیڈمی کے آفیشلز نے یونس خان سے تصدیق کے بعد انہیں معمول سے ہٹ کر ایک تعریف بھری ای میل کی۔ یونس کی موجودگی اور انکی خدمات کے پیش نظر لیول تھری کی فیس بھی نہ لی گئی۔ یونس کو لیول تھری کورس کے لیے بھیجی گئی ای میل میں تاریخ لکھنے کی غلطی ہوئی ایک غلطی یونس خان کیطرف سے اپنی سفری تفصیلات فراہم نہ کرنے کی ہوئی۔ لاہور آمد پر بھی وہ اکیڈمی کے ایک آفیشل کے ساتھ گھومتے رہے انکے گھر بھی گئے۔ پلئیرز بلاک میں تاریخ ساز بلے باز کو انکا من پسند نو نمبر کمرہ دیا جانا تھا تاہم وقتی طور پر ڈائریکٹر اکیڈمیز مدثر نذر کا کمرہ دے دیا گیا۔ یونس خان نے اس کمرے کو ایک ویڈیو پیغام کے ذریعے عالمی شہرت بخش دی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ اتنا بڑا مسئلہ تھا کہ یونس خان ناصرف کوچنگ کورس چھوڑ کر چلے جاتے بلکہ ویڈیو پیغام بھی جاری کرتے۔ اب وہ کھلاڑی نہیں ہیں وہ اپنے دس ہزار رنز کا تجربہ کوچنگ کے ذریعے ہی نوجوانوں کو منتقل کر سکتے ہیں۔ اس کام کے لیے انہیں اپنے مزاج کو بدلنے کی ضرورت ہے۔ پلئیرز ہینڈلنگ ایک آرٹ ہے، ایک اچھا کوچ نامناسب حالات میں اپنے اعصاب پر قابو رکھتے ہوئے بہتر فیصلے کرتا ہے۔ یونس اگر اس طرح کے مسائل میں الجھتے رہیں گے تو انکا کرکٹ بورڈ کو بھی کوئی نقصان نہیں ہو گا نا ہی انہیں کوئی بڑا نقصان ہو گا۔ اصل نقصان نوجوان کرکٹرز کا ہو گا جو انکے تجربے سے فائدہ حاصل نہیں کر پائیں گے۔ ساتھ ہی انہیں یہ بھی دیکھنا ہو گا کہ اسطرح کے تنازعات میں الجھنے سے انکی شخصیت پر کیا منفی اثرات مرتب ہونگے عوامی سطح پر انکی ساکھ کیا ہے اور کیا ہو جائے گی۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ انہیں ہمیشہ مسائل پیدا کرنیوالے انسان کی حیثیت سے یاد رکھا جائے۔ جس طرح لمبی اننگز کے لیے اچھے ٹمپرامنٹ کی ضرورت ہوتی ہے اسی طرح الجھے مسائل کو سلجھانے کے لیے بھی تحمل کی ضرورت ہوتی ہے۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ وہ اس خول سے باہر نکلیں جس کا الزام بحیثیت کوچ وقار یونس پر لگتا رہا ہے۔ کیا وہ ساری عمر اپنی کرکٹ کو یوں ہی دنیا کے سامنے تماشا بناتے رہیں گے۔ اسکا فیصلہ انہوں نے خود کرنا ہے اور جلد کرنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ایک ماہر اور مضبوط اعصاب کے بلے باز کی طرح ڈٹ کر کوچنگ کے میدان میں آتے ہیں یا ایک کھلنڈرے، بے اعتبار و غیر ذمہ دار بلے باز کی طرح غیر ذمہ دارانہ شاٹس کھیلنے کا عمل جاری رکھتے ہیں۔
یونس خان اپنی محنت، لگن، جستجو، جوش و جذبے، ہر وقت بہترین کارکردگی دکھانے کے عزم سے کامیاب بلے باز بنے تھے کوچنگ کے میدان میں کامیابی کے لیے انہیں ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ دیگر معاملات کو بھی بہتر بنانا ہو گا۔ شائقین انہیں دیکھنا چاہتے ہیں لیکن کیا وہ خود کو دوبارہ عملی طور پر میدان میں دیکھنا چاہتے ہیں؟؟؟
میرے ذہن میں سمائے خوف کو تسلّی بخش جواب کی ضرورت
Apr 17, 2024