پاکستان دشمنوں کی صف بندی
آزادی سے قبل انگریزوں کے زمانے میں برصغیر میں آئے دن ہندو مسلم فساد ہوتے رہتے تھے۔ کبھی کسی مسجد کے سامنے سے گزرتے ہوئے بارات کے باجا بجانے پہ، کبھی کسی مندر کے سامنے ہڈیاں پھینکنے پر، کبھی کسی مسلمان کا ہندو لڑکی سے شادی کرنے پر غرض یہ کہ کسی نہ کسی بات پر ہندو مسلم فساد کا ہونا ایک معمول کی بات تھی۔ ہندوﺅں کا منشور ”ہندو توا“ کوئی نیا منشور نہیں ہے یہ انتہا پسند تنظیموں کا اعلانیہ اور نام نہاد لبرل سیکولر کانگرس وغیرہ کا خفیہ ایجنڈا تھا اس سلسلے میں پنڈت جواہر لال نہرو ان کے والد موتی لال اور ان کا پورا گھرانہ مسلمانوں کے ساتھ خصوصی تعلقات رکھتا تھا، ان کا ارادہ تھا کہ ایک بار انگریزوں سے آزادی مل جائے تو پھر ہم جمہوریت اور اکثریت کی بنیاد پر جو چاہیں گے وہ کریں گے اور خاص طور پر مسلمانوں سے چودہ سو سال کی غلامی کا بدلہ لیں گے۔ سیکولر ازم اور لِبرل کا لیبل لگا کر اور متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو سنہرے خواب دیکھا کر منت سماجت اور ہاتھ جوڑ کر نہایت ہی عاجزی کے ساتھ ہندو مسلمانوں کو تقسیم کرنے میں کامیاب ہوگئے وہ تو قائداعظم محمد علی جناح تھے جو ہندوﺅں کے عزائم کو سمجھنے اور ان کا مقابلہ کرنے کی خداداد صلاحیت رکھتے تھے جن کی شب و روز کی کاوشوں کا ثمر ”پاکستان“ ہماری زندگی ہے۔ آزادی کے بعد قائداعظم نے اپنے اور پاکستان کے تمام مخالفوں کو معاف کرکے اتحاد ، تنظیم اور یقین محکم کو پاکستان کی بنیاد بنایا۔ شکست خوردہ عناصر نے منافقت کا راستہ اختیار کیا اور آج تک کئے ہوئے ہیں ان کی سرتوڑ کوشش ہے کہ پاکستان کو ایک ناکام ریاست بنا کر بھارت کی غلامی میں دے دیں۔ بنگلہ دیش کی طرح! پاکستان میں جو انتشار نظر آ رہا ہے وہ قدرتی نہیں مصنوعی ہے لیڈر شپ اس طبقے کے ہاتھ آگئی جو ذہنی طور پر کسی آزاد ریاست کی اہمیت کا شعور ہی نہیں رکھتا تھا۔ نسل در نسل غلامانہ زندگی گزارنے پر فخر کرتا تھا، دشمن نے شکست خوردہ عناصرکے ذریعہ انہیں تعمیر کی بجائے تخریب، لالچ، خود غرضی اور لوٹ مار پر لگا دیا، دیکھتے ہی دیکھتے یہ ”عرشی طبقہ“ بن گیا اور محب وطن پاکستانی فرشی طبقہ بن گئے۔ مہنگائی، بے روزگاری، بے حیائی اس فرشی طبقے کا مقدر بنا دی گئی اور عرشی طبقہ بادشاہت کے خواب دیکھنے لگا، فخریہ کہا جانے لگا کہ ہر نیا پیدا ہونے والا بچہ ایک لاکھ تیس ہزار کا مقروض ہوتا ہے۔ گویا ساری قوم اور اس کے اثاثوں کو گروی رکھ دیا گیا ہے امداد کے نام پر قرضوں کی ایک طویل داستان ہے بھارت ہی نہیں مغربی ممالک جو اسلام اور مسلمان دشمنی میں پاکستان کے خلاف ہونے والی سازشوں میں کھلم کھلا شریک ہیں۔ سازشوں کے گڑھ NGO's اور دینی مدرسے جگہ جگہ ہزاروں کی تعداد میں نظر آتے ہیں، عرشی طبقہ NGO's اور نام نہاد دینی مدرسوں میں سرگرم ہے جبکہ آج تک مدرسوں کی رجسٹریشن بھی مکمل نہیں ہوسکی۔ مساجد میں جمعرات کو محلے کے گھروں سے کھانا لینے والا اب کوئی نہیں ہے۔ پیش امام کے دروازے پر قیمتی گاڑیاں کھڑی نظر آتی ہیں ان مدرسوں کے نصاب تعلیم نے بچوں کو دنیا سے الگ ایک نئی دنیا ”جنت“ کے لئے تیار کیا جاتا ہے یہ خودکش، اللہ اکبر کا نعرہ لگا کر بے گناہ اور معصوم لوگوں کا خون بہا رہے ہیں پاکستان کے ابتدائی پندرہ بیس سالوں میں جب لیاقت علی خان نے بھارت کو مُکّا دکھایا تھا اور بھارتی حکومت ISI کے نام سے خوف زدہ رہتی تھی۔ اس زمانے میں پاکستان نے بھارت کو دھوتی میں رکھا ہوا تھا۔ 65ءکی جنگ کے بعد RAW کے ذریعہ بھارت پاکستان سے اکھنڈ بھارت کے لئے اپنی آخری جنگ لڑ رہا ہے اور پاکستان اور اسلام دشمن متحد ہو کر اِن مذموم کارروائیوں، تخریب کاریوں میں مصروف عمل ہیں، ”پربھوشن یادو سے لے کر تازہ ترین ”منظور پشیّن“ تک ایک کے بعد ایک سازش سامنے آتی رہتی ہے۔ جن سے پاک فوج لازوال قربانیاں دے کر نبرد آزما ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ پاکستان کے محب وطن عوام، منتخب نمائندے فوج کے شانہ بشانہ مدد کرتے نظر آتے۔ شکست خوردہ عناصر اور عرشی طبقے کے نودولتیّے، پاکستان دشمنوں کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں اور پاکستان کو باقی مسلمان ملکوں کی طرح تباہی سے دو چار کرنے اور اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے پر کام کر رہے ہیں جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہندو اور مسلمان ایک ہی ہیں وہ قائداعظم کا ایک انگریز فلاسفر کے ساتھ یہ مکالمہ پڑھیں۔
”انگریز دانشور نے قائداعظم سے سوال کیا۔
جب آپ کہتے ہیںکہ آپ مسلمان الگ قوم ہیں تو کیا آپ مذہب کے معنوں میں سوچ رہے ہوتے ہیں؟
اس پر بابائے قوم نے فرمایا۔
”جزواً کاملاً ہرگز نہیں۔ آپ یہ حقیقت کبھی نظرانداز نہ کریں کہ اسلام صرف نظام عبادت کانام نہیں، یہ تو ایک ایسا دین ہے جو اپنے پیروکاروں کو زندگی کا ایک حقیقت پسندانہ اور عملی نظام حیات دیتا ہے، میں زندگی کے معنوں میںسوچ رہا ہوں، میں زندگی کی ہر اہم چیز کے معنوں میں سوچ رہا ہوں، ان تمام شعبوں میں ہمارا نقطہ نظر نہ صرف ہندوﺅں سے انقلابی طور پر مختلف ہے بلکہ بسا اوقات متصادم بھی ہے۔ ہماری اور ہندوﺅںکی زندگی میںایسی کوئی چیز نہیں جو ہمیں بنیادی طور پر ہم رشتہ کرسکے۔ ہمارے نام، ہمارے لباس، ہماری خوراک ایک دوسرے سے مختلف ہے۔ ہماری اقتصادی زندگی، ہمارے تعلیمی تصورات، جانوروں تک کے بارے میں ہمارا نقطہ نظر مختلف ہے۔ ہم زندگی کے ہر مقام پر ایک دوسرے کو چیلنج کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر گائے کا ابدی مسئلہ۔ ہم گائے کو کھاتے ہیں وہ اس کی عبادت کرتے ہیں۔ گزشتہ ایک ہزار سال سے یہ اختلافات جوں کے توں موجود ہیں۔ انگریز کی سامراجی سنگینوں سے بھی یہ اختلافات نہ مٹ سکے یورپ کے روشن خیال، لیبرل اور سیکولرتصورات بھی برصغیر میںبرپا تہذیبی تصادم کو نہ مٹا سکے۔“
بھارت نواز، پاکستان دشمن تقسیم برصغیر کے مخالف صف بندی کرچکے ہیں محب وطن پاکستانی چاہے وہ کسی بھی نسل، مسلک اور لسانی اکائی کا حصہ ہوں پاکستان مخالف کسی بھی جھانسے میں آنے والے نہیں ہیں ضرورت اس امر کی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں سے ان غداروں کو نکال باہر کیا جائے۔ 2018ءکا الیکشن اس کا بہترین موقع فراہم کرے گا بشرطیکہ الیکشن صاف شفاف ہوں ہر قسم کی دھاندلی کو روکنا ضروری ہے۔ الیکشن میں کیا ہوتا ہے، کون کیا کرتا ہے کیسے کرتاہے سب ذمہ دار اداروں اور سرگردہ لوگوں کے علم میں ہے۔ دولت اور سرکاری رسوخ کو اپنی حدود میں رکھنا ضروری ہے اگر خدانخواستہ یہ موقع ضائع ہوگیا تو پھر عوامی انقلاب کو روکنا کسی کے بھی بس میں نہیں رہے گا۔ عرشی طبقے کو بھی سوچنا چاہیے بصورت دیگر سب سے زیادہ نقصان بھی اسی کا ہوگا کہ عام پاکستانی کے پاس کھونے کے لئے کچھ بھی تو نہیں ہے۔