عمران خان دوسروں کو چور چور کہہ رہے تھے، کرپٹ کہہ رہے تھے،کرپشن کے خلاف شور مچا کر آسمان سر پہ ا ٹھا رکھا تھا مگر ادھر سینیٹ کے الیکشن ہوئے، ادھر خان صاحب نے پہلاا عتراف یہ کیا کہ ان کی پارٹی کے کم از کم تیس ارکان نے پیسے کھا کر ووٹ فروخت کئے ہیں۔
اب کسی اور نے نہیں خود عمران خان نے یہ اعتراف پھرکیا ہے کہ ان کی پارٹی کے بیس ارکان نے اپنے ووٹ کروڑوں روپے میں بیچے ہیں ، انہیں شو کاز نوٹس جاری کر دیا گیا ہے اور انہیں پارٹی سے نکالنے کا عمل شروع ہو گیا ہے۔
یہ ہے وہ عمران خان جو دوسروں کو کرپٹ کہتا تھا مگر کرپٹ کون نکلا، خود اس کے بقول اس کی اپنی پارٹی، عمران خاں نے جس پارٹی کو اپنے پروں کے نیچے چھپا رکھا تھا، وہ کرپشن کی لت میں مبتلا نکلی، یہ میںنہیں کہہ رہا، خود عمران خان کہہ رہا ہے، اپنی پارٹی کی ایک تہائی تعداد کو کرپٹ کہنے والا اب پارٹی کی چیئر مینی اپنے پاس کس اخلاقی بنیاد پر رکھ سکتا ہے، اسے چاہئے تھا کہ وہ خود اپنی کوتاہی اور ناہلی کا اعتراف کرتا کہ پارٹی ارکان کو کرپشن سے پاک صاف نہیں رکھ سکاا ور پارٹی کی باگ ڈور کسی مسٹر کلین کے سپرد کر دیتا مگر عمران خان کے اندر یہ اخلاقی جرات کیسے ا ٓئے گی، کہاں سے آ ئے گی ۔ کیوں آئے گی۔
عمران خان کو تسلیم کرنا چاہئے کہ اس نے کرپشن کی بنیاد تو خود رکھی تھی جب اس نے پنجاب میں صرف تیس ووٹ رکھنے کے باوجود چودھری سرور کو سینیٹ کا ٹکٹ دیا تھا،اس نے چودھری سرور کو ٹکٹ دیتے ہوئے کیسے یقین کر لیا کہ تیس ارکان کے بل بوتے پر وہ سیٹ نکال سکتا ہے اور اگر سرور کے تھیلے سے چوالیس ووٹ نکلے تو یقینی طو پر یہ خریدو فروخت اور ہارس ٹریڈنگ کا شاخسانہ تھا، ورنہ پارٹی کے تیس ارکان کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں سرور کا نہ کوئی بیٹا تھا ، نہ بھائی، نہ بھتیجا ۔جو اس پر مہربان ہو کر اپنا ووٹ نچھاور کر دیتے، عمران خان کو سب سے پہلے چودھری سرور کو شو کاز نوٹس جاری کرنا چاہئے تھا کہ اس نے تیس سے اوپر ووٹ لئے تو کن فرشتوں سے لئے۔ یہ چودہ ووٹ کرپشن کے راستے ہی سے مل سکتے تھے، ورنہ ن لیگ کے اپنے امیدواروں کو کہیں سے فالتو ووٹ نہیں ملے ، ہاں اس پارٹی نے ایک شخص کو فالتو سمجھ کر امیدوار بنا لیا تھا، اس نے بھی تحریک انصاف کے ووٹ نہیں خریدے بلکہ لندن سے مسلط کئے جانے والے زبیر گل کو ہرانے کے لئے اس فالتو امیدوار کے بکسے میں ووٹ ڈال دیئے۔اگر چند ن لیگی ووٹروںنے اپنے ضمیر کو بیچا تو چودھری سرور کی تجوری کی چمک میں بیچا، اس پر عمران خان آج تک خاموش ہے اور آئندہ بھی خاموش رہے گا۔ اس کامطلب یہ ہو گا کہ اسے کرپشن کے خلاف کوئی کد نہیں۔ وہ ا س کا شور محض فیشن کے طور پر مچا رہا ہے۔
عمران خان اپنے بیس ارکان کو کرپٹ کہنے کے بعد اب کسی دوسری پارٹی کو یہ طعنہ نہیں دے سکتا کہ وہ بھی کرپشن کی سرپرستی کر رہی ہے ، اگرایک جرم تحریک انصاف کے لئے جائز ہے تو دوسروںکواس سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔
اگلی بات یہ ہے کہ جن لوگوں سے مبینہ طور پر پیسے لے کر انہیں سینیٹ میں کامیاب کرا دیا گیا ہے، کیا ان کی سیٹیںجائز ہو گئیں ۔ اورکیا ان کے ووٹوں سے جیتنے والا سینیٹ کا چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین جائز طور پر اپنے منصب پر فائز ہے، عمران خان کا فرض تھاکہ وہ پیسوں کے بل بوتے پر جیتنے والوں کے الیکشن کو چیلنج کرتے اور انہیں سینیٹ سے نکلوا کے دم لیتے اور نئے سرے سے الیکشن کا مطالبہ منواتے، اس کے لیئے وہ الیکشن کمیشن سے رجوع کر سکتے تھے، نیب سے رجوع کر سکتے تھے ا ور اگر کہیں سے ا نصاف نہ ملتا تو عدالتوں سے ضرور انصاف مل جاتا، عدلیہ جس قدرا ٓج ایکٹو ہے، اس کا فائدہ ا ٹھانا عمران خان کا کام تھا ، ورنہ عدلیہ خود تو فریق نہیںبن سکتی ۔ عمران خان کے پاس ایک راستہ اور بھی تھا کہ وہ ڈی چوک میں دھرنا دیتا اور دارالحکومت کا ناطقہ بند کر دیتا۔ آخر الیکشن دھاندلی کا شور مچانے کے لئے ہی تو اس نے کئی ماہ کا دھرنا دیا تھا اور ملک کی معیشت کا دھڑن تختہ کر دیا تھا۔اب تو عمران خان خود کرپشن کاا عتراف کر رہا ہے تو دنیا کو پتہ لگنا چاہئے کہ اس نے پارٹی ارکان کے اس جرم کی سزا خود کو کیا دی اور اگر وہ اس کرپشن کی ذمے داری خود قبول نہیں کرتا تو ثابت ہو جائے گا کہ اسے کرپشن کے خلاف صرف زبانی کلامی بیر ہے ۔یہ بہت بڑا سوال ہے کہ عمران خاں نے بیس سال تک پارٹی ارکان کو یہ بھی نہیں سکھایا کہ ہارس ٹریڈنگ جرم ہے،یہ کام تو ملک میں برسوں سے ہو رہا ہے،۔ ماضی کی پارٹیاں ایک دوسرے کو ہارس ٹریڈنگ کے لئے مورد الزام ٹھہراتی تھیں ، کبھی میریٹ ہوٹل میں گھوڑوں کا میلہ لگتا ، کبھی مالم جبہ کے ٹھنڈے اور پر فضامقام کی طرف گھوڑوں کو ہانک کر لے جایا جاتا اور کبھی چھانگا مانگا کے جنگل میں کرپشن کا مور رقص کرتا ، یہی کام تحریک انصاف نے بھی کرنا تھا توا سن نے پچھلے پانچ برس سے دھاندلی ا ور کرپشن کے خلاف شور کیوںمچا رکھا ہے، ظاہر ہے صرف دکھاوے کیلئے بلیم گیم کے لئے اور دوسروں پر بہتان طرازی کے لئے۔ اور کیچڑ اچھالنے کے لئے۔
عمران خان کا فرض تھا کہ وہ اپنی نااہلی کاا عتراف کرتے کہ وہ پارٹی کے اندر کرپشن کے فروغ کی روک تھام نہیں کر سکے، بطور پارٹی سربراہ یہ ان کی اپنی غفلت کا نتیجہ ہے کہ اس قدر بڑے اورو سیع پیمانے پر کرپشن کا بازار گرم ہوا۔
کیا ستم ظریفی ہے کہ عمراں خان پارٹی میں کرپشن پر داد وصول کرنا چاہتے ہیں کہ وہ کس قدر منصف مزاج انسان ہیں کہ کرپشن کو برداشت نہیں کر سکے مگر انہوںنے الزامات عائد کرنے سے پہلے کسی کورٹ آف لا سے رجوع کر کے اپنے الزامات کوسچ ثابت نہیں کیا ، جبکہ جن ارکان کو مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ وہ ہر فورم پر اپنی صفائی دے سکتے ہیں اور انہوں نے عمران خان کو چیلنج کیا ہے کہ وہ ا لزام خان نہ بنیں بلکہ اپنے الزامات کو کسی قانونی اور عدالتی فورم پر ثابت کرنے کے بعد جو تادیبی کاروائی کرنا چاہیں، کر لیں۔ محض الزام لگانا تو عمران خان کی ایک پرانی عادت ہے ،ا س لئے سول سوسائٹی نے ان کے واویلے پر کوئی توجہ نہیں دی ، کوئی شخص عمران خان کی ستائش صرف الزام بازی پر نہیں کر سکتا۔عمران خان کے الزامات پر جائیں تو آدھے سے زیادہ ملک کو جیلوںمیں ڈالنا پڑے گا بلکہ اکیلے عمران خان ہی پاکباز خاں بن کر جیل جانے سے بچ سکیں گے۔
آخر میں موردد الزام ٹھہرائے جانے والوں کا ایک سوال کہ عمران نے چیئر مین اور ڈپٹی چیئر مین کے لئے زرداری کے نامزد امیدواروں کو ووٹ دینے کے لئے کیا سودا کیا اور یہ سودا کیسے جائز ہو گیا۔
٭٭٭٭٭
"ـکب ٹھہرے گا درد اے دل"
Mar 27, 2024