پاکستان کے خلاف مہمات
پاکستان ایک مضبوط اسلامی ریاست ہے جسے ناکام ریاست ڈیکلیئر کرانے کے لئے تمام دشمن قوتیں لگی ہوئی ہیں۔ یہاں یہ بیان بھی اہمیت کا حانل ہے کہ سرتاج عزیز اور ترجمان دفتر خارجہ نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ واشنگٹن ہماری سیکیورٹی کو اہمیت نہیں دیتا۔ کام نکل جائے تو پوچھتا تک نہیں۔ تعلقات کو غور طلب بھی قرار دیا ہے۔ جنوبی ایشیا میں طاقت کا توازن پاکستان ہی برقرار رکھ سکتا ہے۔ کل بھوشن سے متعلق شواہد بھی اقوم متحدہ اور دیگر ممالک کو دینے کا اعلان بھی خوش آئند ہے ۔ حملے پر یو این میں نئی قرارداد لانے کا اعلان بھی درست ہے۔ سی پیک کو کمزور کرنیوالی قوتوں کا مقابلہ کرنے کا اعلان بھی پاکستان کی امنگوں کے مطابق ہے۔ امریکہ نے اس پر نوٹس لیتے ہوئے فوری ہائی پاور وفد کو روانہ کردیا۔ جس میں امریکی صدر کے مشیر رچرڈ اولسن بھی شامل ہیں ۔ چین کی جانب سے عالمی برادری کو پاکستان کی خود مختاری کا احترام کرنے اور پاکستان کی دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے کاوشیں اور افغان مصالحتی عمل کی حمایت نے پاکستان کے موقف کی تائید کی ہے۔ چین کی جانب سے ڈرون حملے روکنے کے لئے امریکہ کو پیغام ، نیوکلیئر سپلائر گروپ میں بھارتی رکنیت روکنے کا اعلان بھی پاکستان اور چین کے عوام کی مشترکہ آواز ہے۔ ترجمان لونگ لوئی۔این ایس جی میں ترکی،نیوزی لینڈ ۔ جنوبی افریقہ اور آسٹریا کی بھارت مخالفت کی اطلاعات بھی خوش آئند ہیں ۔ پاکستان کی جانب سے واضح طور پر اسٹرٹیجک تعلقات ختم کرنے کا انتباہ بھی اچھا اعلان ہے بشرطیکہ اس پر عمل ہو۔ وفد کے آنے کے بعد گھٹنے نہ ٹیک دیئے جائیں۔ ویسے تو پاکستان کی افواج کے ہوتے ہوئے پاکستان کی سا لمیت اور اسکی خود مختاری کے خلاف کوئی غلط چیز ہونے کے امکانات معدوم ہیں۔ بھارت کے موجودہ دور میں نریندر مودی پاکستان کے ساتھ ساتھ انڈیا کے مسلمانوں کے لئے بھی خطرہ ہیں ۔ انکے ایک بڑے پنڈت نے دو تین روز قبل یہ بیان تک دے دیا کہ وقت آ پہنچا ہے کہ مسلمانوں کو انڈیا سے بے دخل کیا جائے۔ انڈیا نے پاکستان کے خلاف ایک محاذ بنگلہ دیش سے بھی کھولا ہوا ہے ۔ حسینہ واجد کے ذریعے پاکستان کی حمایت کرنے والے بزرگ رہنمائوں کو جنکی عمریں ۰۷ سے بھی زیادہ تھیں پھانسی دیکر انسانیت سوز سلوک کی نئی روایات بنائی گئی ہیں ۔دو درجن سے زائد مسلمان شہید کئے جاچکے ہیں ۔ مکتی باہنی کے خالق نریندر مودی پارٹی اور انکی ایجنٹ حسینہ واجد انڈیا کو خوش کرنے کے لئے فسطایت کی نئی سے نئی روایت قائم کررہی ہے جسکا انجام مستقبل میں لگتا ہے کہ مجیب الرحمان کی طرح اسکا بھی ہوگا۔ یہاں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے بنگالی بھی شک سے باہر نہ رہیں یہ بھی مکتی باہنی اور را کے ایجنٹ ہوسکتے ہیں ۔ سالہا سال سے رہنے والے اس کی شک کی ز د میں نہ ہوں نئے بنگالی شک کی نگاہ سے دیکھے جائیں۔ اسی طرح پاکستان میں افغانیوں کی آسان نقل و حرکت اور ان پر نظر رکھنے کی بھی ضرورت ہے۔ پاکستان کی افواج اور ملکی سلامتی کے لئے پوری قوم متحد ہے۔
اور انکے ایک اشارے کی منتظر ہے ۔ لیکن پاکستان کے سیاسی پنڈت اپنی حرکتوں سے اب بھی باز نہیں آرہے۔ شیری رحمان نے کہا کہ امریکا میں انڈیا کے چار لابسٹ ہیں جبکہ ہمارا ایک بھی نہیں ۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے لیکن وہ خود امریکہ کی سفیر رہی ہیں ۔ آخر کیوں ان کے دور میں بھی لابسٹ نہیں بن سکے۔ سیاست برائے سیاست کے نام پر یہ کہنا کہ متحرک بھارتی خارجہ پالیسی پر پاکستان دبائو میں ہے ۔ ملک کو کمزور کرنے والی بات ہے اسوقت سب کو جنرل راحیل شریف کی طرح بہادرانہ اور ملک کے مفاد میں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے پر پوائنٹ اسکورنگ نے ملک کو کمزور کرکے رکھ دیا ہے۔ جمہوریت کے بارے میں عوام سے ریفرنڈم کرایا جائے تو بھاری اکثریت سے فوج کے اقتدار میں آنے کا عوامی فیصلہ آئے گا۔ جمہوری حکومتیں ہوش کے ناخن لین جنہوں نے کچھ ڈ یلیور نہیں کیا۔ ماضی میں کرپشن کے بے تاج بادشاہ موجودہ حکمرانوں کو کرپٹ کہہ رہے ہیں ۔ ایک نوجوان سیاست داں پنجابستان کی بات کرکے روایتی سندھی متعصب سیاست کے مرتکب ہو رہے ہیں ۔ ملک سے باہر بیٹھ کر پاکستان دشمن فیصلے کئے جا رہے ہیں۔ سندھ میں صوبہ کی تحریک کے واضح امکانات نظر آرہے ہیں۔ جس کی وجہ سندھی گردی ہے۔ کے ایم سی کو تختہ مشق بنا کر عام اداروں سے بھی غیر موثر ادارہ بنا دیا گیا ہے۔ پاکستان کی جمہوری اکایئوں کو حکومت نہ سہی فوج ایک کرنے میں کردار ادا کرے۔ دھرنے اور ملک کی ترقی کا پہیہ جام کرنے والے اقدامات اب نبد ہونے چاہئیں۔ اقتصادی راہداری ترقی کا پہیہ ہے ملک کی معاشی ترقی کا راستہ ہے اسے روکنے والے پاکستان دشمن ہیں پوری قوم جنرل افواج پاکستان کے ساتھ ہے جو پوری قوم کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ پوری قوم یہ چاہتی ہے کہ انڈیا کے ساتھ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کی جائے۔ امریکہ کی خوشنودی کے لئے بہت پاپڑ بیل لئے گئے اب اسے ایسے ہی ری ایکشن دیا جائے جیسے وہ اب دوڑ کر آئے ہیں لیکن ڈیل اور دبائو کا راستہ بند کردیا جائے۔ پاکستان اب افغان امن کی کسی بھی بھیڑ کا حصہ نہ بنے۔ امریکہ خود آکر پاکستان کے ہاتھ پائوں جوڑے۔ اٖفغانستان کی بے غیرت امریکہ نواز حکومت کا ساتھ نہ دیا جائے۔ جو انڈیا جیسے اسلام دشمن ملک کی خوشامد میں لگا ہوا ہے تین مرتبہ نریندر مودی کو بلا چکا ہے ہر بار مودی نے پاکستان کے لئے زہر اگلا۔ترکی کیونکہ پاکستان کا سچا دوست ملک ہے اس لئے وہاں بھی پاکستان کی طرح دہشت گردی وارداتیں ہو رہی ہیں۔ جو لمحہ فکریہ ہے۔پاکستان کو خارجہ پالیس پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔ اگر اس پر روایتی ہٹ دھرمی کی گئی تو یہ قوم سے مذ اق اور ملک کے لئے اچھا عمل نہیں ہوگا۔ ہمیں یکجہتی اور ملک کے مفادات کو اول لیکر چلنے کی ضرورت ہے ۔