کہتا ہے رہنما ہوں کہ قد میں بڑا ہوں میں
برصغیر پاک و ہند کا پہلا سیاسی لوٹا ڈاکٹر محمد عالم کو کہا جاتا ہے جو ایک پارٹی کے ٹکٹ پر جیت کر دوسر ی پارٹی میں چلے گئے تھے اور یہ بھی کہ انہیں یہ لقب زمیندار کے ایٹریٹر مولانا ظفر علی خان نے دیا تھا یہ غالباً 36ء کی الیکشن کے بات ہے اس کے بعد تو ’’چل سو چل‘‘ والی کیفیت ہوگئی کتنے ہی یو نینسٹ ‘آل انڈیا مسلم لیگ کا مقدر بنے متحدہ پنجاب میں سر سکندر حیات کی یو نینسٹ پارٹی مسلم لیگ کی مخالف تھی اسی طرح سندھ کے بہت سے وڈیرے اور جاگیردار آل انڈیا مسلم لیگ کے خلا ف تھے۔ لیکن 46ء میں الیکشن کے وقت جس تیزی سے وہ مسلم لیگ کو پیارے ہوئے اس کی مثال دور دور تک نہیں ملتی۔ قیام پاکستان کے بعد نئی مملکت میں سیاسی استحکام مفقو د تھا آئے روز حکومتیں بدلتی تھیں۔ نہرو سے منسوب ہے کہ ’’میں ابھی اپنی دھوتی نہیں بدلتا پاکستان میں حکومت بدل جاتی ہے‘‘۔ اس شوہر کی طرح جو ہاتھ میں پیکٹ لئے گھر کی سمت بھاگ رہا تھا پولیس والے نے اٹھائی گیرا جان کر پکڑ لیا دوڑنے کا سبب پوچھا تو مظلوم کا جواب تھا دیر ہوئی تو فیشن بدل جائے گا۔
60ء کے عشرے میں ری پبلکن‘ کنونشن سمیت کتنی ہی کنگز پارٹیاں اور گروپ وجود میں آئے وزرائے اعظم سہ ماہی بنیادوں پر تبدیل ہوئے اور یہ اتھل پتھل مارشل لاء پر منتج ہوئی ضیاء دور میں بھی اسی طرح سیاستدانوں کی بھاگم دوڑ نظر آئی شہید بھٹو کے بہت سے نام نہاد جیالے شوریٰ‘ سندھ کونسل اور جونیجو لیگ میں مناصب کے سزاوار ٹہرے ایسا ہی بعد کے ادوار میں ہوا لیکن جو لوٹا کریسی ان دنوں ہے شاید ہی کسی نے کبھی دیکھی ہو یومیہ بنیادوں پر سیاستداں اپنی پرانی پارٹیوں کو برا کہتے ہوئے نئی جماعتوں میں جگہ بنا رہے ہیں اب کوئی بتائے مثالی ڈسپلن والی متحدہ قومی موومنٹ کی باجیاں بھی پرانی قیادت پر الزام تراشی کررہی ہیں فوزیہ حمید‘ سکھر کی ناہید بیگم ‘ نائلہ منیر ‘ شبیر قائمی سلیم بندھانی کتنے ہی پی ایس ٹی کا حصہ بنے اسی طرح ن لیگ کے ‘ عرفان مروت‘ ہمایوں خان‘ حکیم بلوچ‘ فنکشنل لیگ کے جام مدد علی‘ امتیاز شیخ‘ امام الدین شوقین نے اپنی جماعتوں سے ناطہ توڑا اور تحریک انصاف کے حفیظ الدین بھی پی ایس پی کا حصہ بنے وسیم حسن نے پی ایس پی چھوڑی پھر فاروق ستار نے ملاقات کی تودوبارہ متحدہ جوائن کرلی سب اپنی اپنی پرانی جماعتوں میں کیڑے نکال رہے ہیں حالانکہ ایک زمانے میں قطار بنائے وفاداری کے عہدکی تجدید کا اظہار کیا کرتے تھے۔
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
اب تو ویسے بھی لوٹا کریسی کا نہیں ہارس ٹریڈنگ کا دور ہے اور یہ طرز سیاست ہر روز نیا رنگ ڈھنگ اختیار کرنے لگا ہے اب دیکھیں نا پورے پانچ برس گزار کر جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی کو یاد آیا کہ (ن) لیگ سے ان کا اختلاف جنوبی پنجا ب صوبے کی تشکیل پر ہے اور یہ بھی کہ جنوبی پنجاب کا ملازمتوں‘ صحت کے منصوبوں اور تعلیم و شاہراہوں کی اسکیموں میں استحصال ہورہا ہے گویا لاعلمی‘ بے خبری‘ سادگی اور بھولپن کی انتہا ہے جس پر ان کے صدقے جانے اور بلائیں لینے کو دل چاہتا ہے ویسے معصومیت تو (ن) لیگ والوں میں بھی ہے جو کہتے ہیں کہ ’’ڈکٹیٹر کی باقیات کو معاف نہیں کریں گے اور آمریت سے سمجھوتے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن آس پاس نگاہ نہیں ڈالتے کم از کم سندھ کی حد تک ہی توجہ دیتے تو ماروی میمن‘ راحیلہ مگسی‘ اسد جونیجو‘ ٹھٹہ کے شیرازی اور کتنے ہی نظر آجاتے جو صرف موجود نہیں اعلیٰ مناصب پر متمکن بھی ہیں یہ سب مشتے از خروار ہیں ورنہ تو مشاہد حسین اور امیر مقام سے کشمالہ طارق تک متعدد مزید نام بھی لئے جاسکتے ہیں خان بہادر اللہ بخش گبول مرحوم کہا کرتے تھے کہ رخ بدلتے دریائے سندھ کا پانی پینے والے وڈیرے سے بھی موقف بدلتے رہتے ہیں اور 50ء کی دہائی تک سندھ کی سیاست اور کراچی کا موسم ناقابل اعتبار تصور ہوتا تھا اور پیش گو بڑی احتیاط سے اگر مگر کے لاحقے اور سابقے کے ساتھ آنیو الے ایام کا جائزہ لیتے تھے پیش گوئی کو حیدر آباد دکن کے لوگ ’’پیش قیاسی‘‘ کہتے ہیں شاید اسی لئے قیاس پر یقین کا اطلاق نہیں کرسکتے۔ خود فروشی کی فضاء میں جب بکنے اور خریدنے والوں کو اعتراض نہیں تو ہم کیوں دخل در معقو لات کریں۔
تجھ کو پرائی کیا پڑی اپنی نبیٹرتو
سچ یہ بھی ہے کہ اب اقتدار ویلیوز اور روایات سب ملیا میٹ ہورہی ہیں سیاست‘ معیشت‘ معاشرت اور تجارت ہر جگہ بونے براجمان ہیں قدآور رخصت ہوچکے ہیں اور کوتاہ قامت بھی اپنے سے چھوٹے قد والوں کے جمگھٹے میں بیٹھے شیخی بگھار رہے ہیں بقول کاشف عصری
پستہ قدوں کی فوج بن کر وہ فخر سے
کہتا ہے رہنما ہوں کہ قد میں بڑا ہوں میں
جب سماج زوال پذیر ہو تو قدرت بھی بڑے لوگ بھیجنا بند کردیتی ہے۔