صادق اورامین کی اصطلاح نے الیکشن2013ءکے امیدوار وں کو امتحان میں ڈال دیا ہے۔ کردار وگفتار اور افعال واعمال کی جانچ پڑتال ایک ایسی آزمائش ہے۔ جس پر آج کے دور کا کوئی انسان شاید ہی پورا اُتر سکتا ہو۔ اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا۔ عاصی اور خاطی انسان بھلاصادق اور امین کیسے ہو سکتا ہے۔؟پھر پاکستانی معاشرہ جہاں بھوک ہرایک سرپر منڈلا رہی ہے۔ وہاں بھوک کے بھنور کا شکار ہو جانے والوں کے تو دین و ایمان داﺅ پر لگ جاتے ہیں۔ صداقت اور امانت بھلاکیسے قائم رہ سکتی ہے۔ دمشق میں قحط پھیلا‘ تو یار لوگ عشق کرنا بھول گئے۔ جو سیاست دان الیکشن نہیں لڑتے‘ کاروبار کرتے ہیں۔ اُن سے صادق اور امین ہونے کی طلب کیسی۔؟
صادق اور امین ہونے کا مطالبہ کرنے سے پہلے اِس کی تشریح لازم ہے۔ صادق ہونا کسی کے سچا اور راست گو ہونے کی دلیل ہے۔ جبکہ امانت کی حفاظت کرنے والا وہ امین ہوتا ہے۔ جو امانت کے تحفظ کے لئے جان جانے کی بھی پروا نہ کرے۔ صادق اور امین کی صداقت اور امانت کو جانچنے والا غیب دان بھی ہونا چاہئے۔کون نہیں جانتا ہم میں سے ہر شخص اپنے مفاد اور اپنے پیاروں کے لحاظ میں کسی حد تک جا سکتا ہے۔ درمیانی راستہ نکالنے کے ماہرین سب سے زیادہ پاکستان میں پائے جاتے ہیں۔ اور جہاں درمیانی راستہ نکل آنے کی گنجائش نکل سکتی ہو۔ وہاں صادق اور امین لوگ ڈھونڈناخود فریبی کے سوا کچھ نہیں۔
حد ہو گئی ہے حیرت کی۔ کسی شخص کے صادق اور امین ہونے کا فیصلہ کون کرے گا۔ کس میں یہ اہلیت اور صلاحیت ہے۔ کونسا گواہ غیب دانی کا دعویٰ کرے گا۔ تنہائی میں گناہ سے بچنے پر اِسی لئے زور دیا گیا ہے۔ تنہائی میں جو گناہ کا گواہ ہوتا ہے۔ وہی اُس گناہ کا منصف بھی ہوتا ہے۔ کیا ایسا منصف کوئی ہے۔؟ جو کسی کی بے عیب تنہائی کا فیصلہ کر سکے۔؟ کیا کو ئی شخص اپنے جیسے کسی دوسرے شخص کی صداقت اور امانت کا ضامن بن سکتا ہے۔؟ کیا کسی شخص کی صداقت و امانت کی گواہی اُس جیسے شخص سے لی جا سکتی ہے۔ باپ بیٹے اور بیٹا باپ کے افعال واعمال سے واقف نہیں ہوتا۔ کہاں کی صداقت کہاں کی امانت۔؟
انسان بشر ہے۔ جسے ”ب“ سے محروم کر دیں۔ تو وہ شر رہ جاتا ہے۔ جہاں شر ہو وہاں خیرکی تلاش حقیقت سے چشم پوشی کی کوشش ہے۔ کمزور‘ درماندہ‘ خواہشوں کے غلاموں‘ حق بات کہنے سے ڈرنے والوں‘ اپنی پارٹی اور پارٹی کی پالیسیوں سے خائف اوراپنے نام نہاد لیڈروں کی حمایت میں جھوٹی بیان بازی کرنے والوں سے صداقت اورا مانت طلب کرنا بنجر زمین میں فصل اُگانے کی سعی لاحاصل ہے۔ ڈگری کی شرط پر جس ملک کے انتخابی امیدواروں نے جعلی ڈگریوں کے ڈھیر لگا دیئے۔ جہاں جعلی ڈگری لینے اور دینے والے کسی صداقت اور امانت کو خاطر میں نہیں لاتے۔ وہاں کوئی حاطب الیل ہی صادق اور امین لوگ ڈھونڈ سکتا ہے۔
اپنی بربادیوں پر ہنسی آتی ہے۔ جعلی ڈگری لینے والوں کے خلاف عدل پوری طرح متحرک ہے۔ عدالت عدل کا کوئی تقاضا چھوڑنا نہیں چاہتی۔ لیکن جن اداروں نے ڈگریاںجاری کی ہیں۔ اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ یہ راستہ کھلا کیسے‘ یہ راہ دکھلائی کس نے اور یہ کاروبار چمکا کس طرح۔؟ یہ بات کوئی جاننا ہی نہیں چاہتا۔ گزشتہ انتخابات میں جعلی ڈگری لینے اور دینے والوں کے وارے نیارے ہوئے۔ جن مقاصد کے الیکشن لڑا جاتا ہے۔ جعلی ڈگری سے وہ پورے کر لئے گئے۔ اب اُن جعلی ڈگری ہولڈرز کو دھر بھی لیا جائے۔ تو کیا حاصل ہو گا۔ وہ اپنے اہداف پورے کر چکے ہیں۔
صادق اور امین کی اصطلاح کا موجد کون ہے؟ اس سے شاید کوئی آگاہ نہ ہو۔ لیکن لگتا یوں ہے۔ اُس نے اپنے کسی حریف کو چت کرنے کیلئے ناوکِ صداقت اور امانت کا نسخہ آزمایا ہو گا۔ مگر اِس ترکیب کے ٹوٹ پڑنے سے جھوٹی شرافت کے سارے ٹھیکدار زیرِ دام آگئے ہیں۔ بات چل نکلی ہے، تو باغبان تک جائیگی۔ کہاں گرتی ہے یہ تلوار دیکھو۔
شہباز شریف اب اپنی ساکھ کیسے بچائیں گے
Apr 18, 2024