
ٹی ٹاک …طلعت عباس خان ایڈووکیٹ
takhan_column@hotmail.com
سپریم کورٹ بار نے چیف جسٹس عمر عطا بندیال کے اعزاز میں فیر ویل ڈنر 13 ستمبر کو سپریم کورٹ اوپن ایریا میں دیا، باراس ڈنر کا نام گڈ ٹو سی یو رکھتی تو بہتر ہوتا۔ بندیال صاحب جب رات سات کے پروگرام میں نو بجے تشریف لائے تو شرکاءسبھی پسینہ سے شرابور بیٹھے تھے۔ کچھ کو تو پسینہ شرمندگی سے آیا اور کچھ گرمی سے نڈھال تھے ۔ پنکھے چل رہے تھے اس کے باوجود گرمی نے اپنا رنگ ایسے ہی دکھایا جیسے چیف صاحب نے اپنی ریٹائرمنٹ سے ایک روز قبل نیب کا فیصلہ '' متنازعہ'' بنچ سے دو ایک سے سنایا۔ چیف صاحب کا اندر اور باہر کا موسم گرم رہا۔ ایسے میں جب ہماری ٹیبل کے قریب سے چیف صاحب کا گزر ہوا تو کہا سر جس پرمسکرا کرجواب دیاگڈ ٹو سی یو… مزید کہا کہ وہ اس کا ذکر اپنی سپیچ میں کریں گے۔ صدر سپریم کورٹ عابد زبیری نے اپنے خطاب میں گڈ ٹو سی یو کا ذکر بندیال صاحب کی تقریرسے پہلے کر دیا۔ جب بندیال صاحب نے خطاب شروع کیا تو کہا آج میں خطاب نہیں کرونگا بس اتنا کہوں گا گڈ ٹو سی یو۔ یہ بندیال صاحب کا آخری خطاب بطور چیف جسٹس وکلا کو تھا۔بندیال صاحب ڈنڈا ریس کے اخری کھلاڑی تھے۔ امید ہے اپ کے جانے سے یہ ریس ختم ہو جائے گی۔قارئین امید ہے آپ سب ڈنڈا ریس سے واقف ہونگے۔ایک ایسی ہی ریس سپریم کورٹ میں کچھ عرصے سے دیکھی جا رہی تھی۔اس ریس میں ہر بھاگنے والا اپنا ڈنڈا تیزی سے دوسرے تک پہنچاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں بھی کچھ سالوں سے ایسی ہی ریس دکھائی دیتی رہی۔ اس ڈنڈا ریس کا آغاز سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی ججز بحالی تحریک سے شروع ہوا پہلا ڈنڈا انہوں نے سابق جسٹس ثاقب نثار تک پہنچایا پھر انہوں نے وہ ڈنڈا جسٹس کھوسہ صاحب کو دیا۔پھر کھوسہ صاحب نے یہ ڈنڈاجسٹس گلزار کو دیا اور جسٹس گلزار نے پھر جسٹس بندیال کو دیا۔ اب چیف جسٹس بندیال صاحب اس ریس کے ڈنڈے کو مزید کسی کو نہیں دے سکے۔ کیونکہ سامنے کوئی ایسا نہیں تھا کہ جس کو لیا ہوا ڈنڈا دوسرے کو دے سکتے۔لہزا اب یہ ڈنڈا ریس ختم ہوچکی ہے اگر کہا جائے کہ ججز بحالی تحریک کا یہ ڈنڈا اپنے منتقی انجام کو پہنچا ہے تو غلط نہ ہو گا۔بندیال صاحب نے اس کھیل کو جاری رکھنے کے لیے قاضی صاحب کو رستہ سے ہٹانے کی ریفرنس کے زریعے کوشش کی تانکہ یہ ڈنڈا ریس جاری رہے مگر قدرت کو یہ منظور نہ تھا اور اب نئے چیف جسٹس قاضی صاحب کے آجانے سے ڈنڈا ریس کا مکمل خاتمہ ہو چکا ہے۔ شائد اس گیم کے خاتمے کی وجہ سے بندیال صاحب کے خطاب میں وہ جوش و جذبہ نہ تھا جو اکثر بنچ میں دیکھتے تھے ۔کچھ موسم نے بھی اس عشایہ تقریب کا ساتھ نہ دیا ہر کوئی پسینے سے شرابور تھا۔اس تقریب میں کوئی ایسا نہ تھاجسے پسینہ نہ آیا ہو۔ کیا کیا جائے ملکی حالات بھی گرم موسم بھی گرم اور عوام بھی گرم۔
اگر گزرے ہوئے سالوں کو بغور دیکھیں تو یہی لگتا ہے کہ ہمارے درمیان کوئی ایسی مخلوق ہے جو سیاسی لیڈر سیاسی جماعتیں بناتی ہے۔عدالتی بنچ بناتی ہے فیصلے کراتی ہے ہوا بھرتی ہے پھر انکو زیرو سے ہیرو اور ہیرو سے زیرو بھی کردیتی ہے۔ جس کی وجہ سے جمہوریت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ایسا کرنے سے جمہوریت اور سیاستدان بدنام ہو چکے ہیں اب عیاں ہو چکا ہے کہ جو کوئی سیاستدان بناتے ہیں جو ان میں ہوا بھرتے ہیں وہی جوڈیشنل سسٹم کو بھی چلانے ہیں۔ وہی اپنی مرضی کے ججز لگاتے ہیں ان سے اپنے مرضی کے فیصلے کراتے ہیں۔ کہا جاتا ہے یہ وہی ہیں جو خود کرپشن کرتے ہیں اور کرپٹ لوگ اداروں پر بٹھاتے ہیں اور بدنام سیاست دانوں سرکاری ملازمین کو کرتے ہیں۔ بابا کرمو نے کہا کبھی ہم نے نہیں سنا کہ جس نے آئین توڑا ہو اس کو اقتدار کے بعد جیل میں رکھا ہو ان پر بھی کبھی نیب کیس بنے ہوں۔ ریٹائر ہونے سے پہلے اپنی اولادوں کو فارن میں تعلیم کے لئے بھیجوا دیتے ہیں۔ریٹائرمنٹ کے بعد خود بھی ملک چھوڑ کر چلے جاتے ہیں پنشن لینے پروٹوکول کے ساتھ کبھی کبھی واپس اتے ہیں اور پھر واپس چلے جاتے ہیں۔ یہاں جب تک رہتے ہیں بادشاہ بن کر زندگی گزارتے ہیں۔ اب کچھ باتیں بابا کرمو کی …ملاقات میں وہ کہتے ہیں قوم کو اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ اعتراض یہ ہے کہ نہ یہ خود قانون کے مطابق کام کرتے ہیں اور نہ ہی یہ دوسرے اداروں کو قانون کے مطابق چلنے دیتے ہیں ۔ ایسا کرنے سے تمام اداروں کا نظام درم بھرم ہو کر رہ گیا ہے۔ سب سے اہم ادارہ جوڈیشری اور دفاع کا کہلاتا ہے۔ کہا جاتا ہے اس کو بھی یہی چلاتے ہیں جس سے ہر چیف کنفیوز لگتا ہے۔ان کی وجہ سے عوام کا اعتماد اداروں پر ختم ہو چکا ہے۔ججز کو اپس میں لڑوَایا جاتا ہے۔ جس کی مثال قاضی فائز عیسی صاحب کی ہے جن پر صدارتی ریفرنس بنا کر کٹہرے میں اپنے ججز کے سامنے میاں بیوی سمیت کھڑا کر دیا گیا تھا۔ اسی طرح اسلام اباد ہائی کورٹ کے سینئر جج شوکت عزیز صدیقی کو ججمنٹ مرضی کی نہ لکھنے پر گھر بھیج دیا گیاتھا۔ابھی تک ان کے کیس کا فیصلہ بھی نہیں ہونے دیا گیا۔یاد رہے قانون اور آئین کو لوگ اس وقت نہیں مانے گے جب تک تمام ملکی ادارے اپنی اپنی حدود میں نہیں رہیں گے۔ ایسا کرنے والوں کا لگتا ہے اپنا معیار گر چکا ہے اسے انہیں بہتر کرنے کی اشد ضرورت ہے۔غلط کام کرنے والوں کوجب تک کٹہرے میں لا کرنہیں کھڑا کیا جائے گا ادارے مضبوط نہیں ہونگے۔ جہاں جج اپنے انصاف کی اپیل اوپر والی عدالت میں لگاتے ہوں وہاں کا عدل کا نظام کیسا ہو گا۔ جہاں جج اپنے سے بڑے ملزم کو گڈ ٹو سی یوں کہتا ہو اور عوام کو انکھیں دکھاتا ہو ان کے کیس ہی نہ لگاتا ہو اپنے ساتھی جج اور اس کی بیگم کو کٹہرے میں کھڑا کرتے ہوئے شرم محسوس نہ کرتے ہوں ۔ان کا نظام عدل کیا ہو گا۔ اب چیف جسٹس بندیال کی نوکری ختم پنشن اور ان کی مراحات شروع ۔ نئیئ چیف جسٹس اف پاکستان کا سفر شروع۔۔ کیا یہ اپنے فیصلے خود کیا کریں گے امید تو ان سے بہت ہے کہ کسی سے یہ ڈکٹیش نہیں لیں گے سخت فیصلے خود کریں گے۔ دیکھتے ہیں قوم کی امیدوں پر یہ پورا اترتے ہیں یا نہیں۔ اب مزید غلطی کی گنجائش کسی کے پاس نہیں ہے۔ کسی شاعر کے اندر کا غبار یہ کہتا ہے عوام کی عکاسی بھی کرتا ہے۔
ہمارے پرکھوں کو کیا خبر تھی!
کہ ان کی نسلیں اداس ہونگی
ادھیڑ عمری میں مرنے والوں کو کیا پتہ تھا!
کہ ان کے لوگوں کی زندگی میں،
جوان عمری ناپید ہوگی
سمے کو بہنے سے کام ہوگا
بڑھاپا محو کلام ہوگا
ہر ایک چہرے میں راز ہوگا
حواس خمسہ کی بدحواسی،
بس ایک وحشت کا ساز ہوگا
زمیں کے اندر آرام گاہوں میں،
سونے والے مصوروں کو کہاں خبر تھی!
کے بعد ان کے تمام منظر، سبھی تصور
ادھورے ہونگے
دعائیں عمروں کی دینے والوں کو کیا خبر تھی
دراز عمری عذاب ہوگی