امریکہ اور ایران نے پیر کے روز قیدیوں کا تبادلہ کیا جس کے تحت پانچ امریکیوں کو رہائی ملی ہے جبکہ امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ تہران حکومت نے انہیں غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیا تھا۔قیدیوں کی رہائی کے سمجھوتے کے تحت ایران کے کوئی چھ ارب ڈالر کے منجمد اثاثے واگذار کر دئیے گئے ہیں۔رہائی پانے والے تین امریکیوں کی شناخت سیامک نمازی، عماد شرگی اور مراد تہباز کے نام سے ہوئی ہے، جو دیگر دو امریکیوں کے ساتھ اپنی رہائی تک گھر میں نظر بند تھے۔ دیگر دو افراد کی شناخت ان کے اہل خانہ کی درخواست پر خفیہ رکھی گئی ہے۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں کہا کہ یہ پانچ افراد "سالوں کی اذیت، غیر یقینی صورتحال اور مصائب کے بعدبہت جلد اپنے پیاروں کے ساتھ مل پائیں گے۔"بائیڈن نے قطر، عمان، جنوبی کوریا اور سوئٹزرلینڈ کی حکومتوں کا شکریہ ادا کیا کہ ان کی انتھک کوششوں سے یہ نتیجہ ممکن ہوا ہے۔بائیڈن انتظامیہ کے سینئر عہدیداروں نے صحافیوں کو بتایا کہ تبادلے کی لاجسٹک میں ایک قطری طیارہ شامل تھا جو ایران سے دوحہ جا رہا تھا جس میں پانچ آزاد امریکیوں کو لے جایا گیا تھا، اس کے ساتھ نمازی کی والدہ اور تہباز کی اہلیہ بھی تھیں، جنہیں ایران چھوڑنے سے روک دیا گیا تھا۔طیارہ دوحہ پہنچنے کے بعد رہا ہونے والے تین قیدیوں نے سیڑھیوں سے اتر کر امریکی سفارت کاروں کو گلے لگایا جنہوں نے ان کا استقبال کیا۔ ان کو وصول کرنے والوں میں قطر میں امریکی سفیر ٹمی ڈیوس بھی شامل تھے۔وائٹ ہاؤس نے کہا کہ بائیڈن نے واپس آنے والے سات امریکیوں کے اہل خانہ کے ساتھ ایک جذبات بھری کال میں گفتگو کی اور اس میں شامل ہونے والے تمام افراد نے صدر سے بات کی۔دوحہ سے یہ گروپ اپنے اہل خانہ کے ساتھ دوبارہ ملنے کے لیے واشنگٹن روانہ ہو گیا ہے۔ادھر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے کہا کہ پیر کا تبادلہ "ہمارے اور امریکہ کے درمیان انسانی بنیادوں پر کارروائی کی سمت میں ایک قدم ہو سکتا ہے۔"نیویارک میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’یقینی طور پر اس سے اعتماد سازی میں مدد مل سکتی ہے۔‘‘امریکہ کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ بائیڈن انتظامیہ نے اپنے ڈھائی سال کے اقتدار میں اب تک دنیا بھر میں 30 سے زائد غلط طریقے سے حراست میں لیے گئے امریکیوں کی رہائی کو یقینی بنایا ہے اور دوسروں کو رہا کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
اس سے قبل رپورٹس میں کہا گیا کہ قیدیوں کے تبادلے کے اس سمجھوتے کے باوجود یہ بات تقریباً یقینی ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان بہت زیادہ کشیدگی برقرار رہے گی کیونکہ دونوں کے درمیان متعدد تنازعات بدستور موجود ہیں۔ ان میں ایران کے جوہری پروگرام پر تنازعہ بھی شامل ہے۔
ایران کا کہنا ہے کہ اسکا پروگرام پرامن مقاصد کے لئے ہے لیکن اس کی یورینیم کی افزودگی کا عمل اب اس سطح کے قریب پہنچ چکا ہے جو جوہری ہتھیار بنانے کے لئے درکار ہوتی ہے۔علاوہ ازیں منصوبے کے مطابق قیدیوں کا یہ تبادلہ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب امریکہ خلیج فارس کے علاقے میں بہت بڑے پیمانے پر فوجی گڑھ بندی کر رہا ہے۔ اور یہ امکان بھی ہے کہ امریکی فوجی، آبنائے ہرمز سے گزرے والے تجارتی جہازوں پر انکی حفاظت کے لئے سوار ہوں، جہاں سے دنیا کو فراہم کئے جانے والے تیل کا بیس فیصد گزرتا ہے۔صدر جو بائیڈن نے ایک بیان میں یہ کہتے ہوئے قیدیوں کی رہائی کا خیر مقدم کیا کہ پانچ بے گناہ امریکی جو ایران میں مقید تھے آخر کار گھر واپس آرہے ہیں۔انہوں نے امریکیوں پر ایران کا سفر نہ کرنے کے لئے زور دیا ,اور مطالبہ کیا کہ ایک اور امریکی شہری باب لیون سن کے بارے میں مزید معلومات فراہم کی جائیں جو برسوں پہلے لا پتہ ہو گیا تھا۔ بائیڈن نے سابق ایرانی صدر محمود احمدی نژاد اور ایران کی انٹیلیجینس کی وزارت پر تعزیرات کا اعلان بھی کیا۔بائیڈن حکومت کے ایک عہدیدار کے مطابق ان پانچ امریکیوں کے علاوہ جنہیں رہا کیا گیا ہے، امریکی خاندان کے دو افراد بھی ایران سے روانہ ہو گئے ہیں۔فلائٹ ٹریکنگ ڈیٹا ظاہر کرتا ہے کہ قطر ایر ویز کی پرواز ، تہران کے مہر آباد ایرپورٹ سے روانہ ہوئی جو ماضی میں بھی اس قسم کے تبادلوں کے لئے استعمال ہوتا رہا ہے۔
دریں اثناء نور نیوز ویب سائٹ نے، جسکے بارے میں باور کیا جاتا ہے کہ ایران کے سیکیورٹی اداروں کے قریب ہے، بتایا کہ دو ایرانی قیدی تبادلے کے لئے دوہا پہنچ گئے ہیں۔قبل ازیں ایران کی وزارت خارجہ کے ترجمان نصیر کنعانی نے کہا تھا کہ یہ تبادلہ پیر کو اسکے بعد ہوگا جب ایران کے کوئی چھ ارب ڈالر کے منجمد اثاثے واگذار کرکے قطر پہنچ جائیں گے۔انہوں نے مزید کہا تھاکہ قیدیوں کا تبادلہ پیر کے روز ہو گا اور اسلامی جمہوریہ کے پانچ قیدی، امریکہ میں جیلوں سے رہا کر دئیے جائیں گے۔ اور پانچ قیدی جو ایران میں تھے امریکہ کے حوالے کر دئیے جائیں گے۔انہوں نے کہا کہ دو ایرانی قیدی، امریکہ ہی میں ٹھہریں گے۔ایران کے مرکزی بینک کے سربراہ محمد رضا فرزین نے بعد میں سرکاری ٹی وی پر قطر اکاؤنٹس میں پانچ اعشاریہ پانچ ارب یورو یعنی پانچ اعشاریہ نو ارب ڈالر جمع ہو جانے کی تصدیق کی۔قیدیوں کے تبادلے کے اس سمجھوتے نے ریپبلیکنز اور کچھ دوسرے ناقدین کی جانب سے صدر بائیڈن پر تازہ نکتہ چینی کی راہ کھول دی کہ حکومت ایک ایسے وقت میں ایرانی معیشت کو بہتر بنانے میں مدد دے رہی ہے جب ایران امریکی فوجیوں اورمشرق وسطی کے اتحادیوں کے لئے بڑھتا ہوا خطرہ پیدا کر رہا ہے۔امریکہ کا کہنا ہے کہ تبادلے میں سیامک نمازی شامل ہے جسے دو ہزار پندرہ میں پکڑا گیا تھا اور جاسوسی کے الزام میں دس سال کی سزا دی گئی تھی۔ اسکے علاوہ عماد شرگھی کو دس سال اور ایرانی نژاد برطانوی امریکی شہری مراد تہہ باز کو بھی دس سال کی سزا دی گئی تھی۔ اسے دو ہزار اٹھارہ میں گرفتار کیا گیا تھا۔ان الزامات پر انکے خاندانوں ، سرگرم کارکنوں اور امریکی حکومت نے بڑے پیمانے پر نکتہ چینی کی تھی۔تاہم امریکی عہدیداروں نے اب تک چوتھے اور پانچویں قیدی کی شناخت بتانے سے انکار کیا ہے۔ایران کے جو پانچ شہری امریکہ کی قید میں تھے انہیں زیادہ تر ممنوعہ چیزیں برآمد کرنے کی مبینہ کوشش میں پکڑا گیا تھا۔
جن دو ایرانی قیدیوں کے بارے میں نوری نیوز نے بتایا کہ دوہا میں ہیں وہ مہر داد انصاری اور رضا سرہنگ پور کافرانی ہیں۔منجمد کی گئی ایران کی رقم وہ تھی جو جنوبی کوریا پر واجب لادا تھی۔ جو اسے دو ہزار انیس میں امریکہ کی جانب سے تعزیرات عائد کئے جانے سے قبل ایران سے خریدے ہوئے تیل کی قیمت کے طور پر ادا کرنی تھی۔امریکہ کا موقف ہے کہ قطر میں یہ رقم ایک محدود نوعیت کے کھاتے میں رہے گی۔ اور صرف انسانی ضروریات کی اشیا جیسے ادویات یا غذائی اجناس وغیرہ کی خریداری کے لئے ہی استعمال کی جا سکے گی۔