
ارے اس کا دھیان نئے چیف جسٹس پر رہا اور بے چارے شیخو بابا پر نظر ہی نہ پڑی جو بے چارے اچانک دھر لئے گئے۔ گزشتہ ہفتہ اپنے کالم میں یہ بات میں نے لکھی تھی کہ ذرائع کے مطابق شیخو بابا اگلے تین چار روز میں پکڑ لئے جائیں گے تو اس کا مقصد دراصل قارئین کو اطلاع دینا نہیں تھا بلکہ شیخو بابا کو بتانا تھا کہ ان کی ”گپھا“ نظر میں آگئی ہے۔ جلدہی کوئی ٹھکانا کر لیں ورنہ وہ آکر دھر‘ دبوچ لیں گے۔ افسوس کہ شیخو بابا نے میری اس سہولت کاری کی قدر نہیں کی اور بدستور اسی گپھا میں چھپے بیٹھے رہے جو سنا ہے کہ ایک پراپرٹی ٹائیکون نے انہیں دی تھی۔ ممکن ہے‘ سیانے شیخو بابا نے یہ سوچا ہو کہ میں سہولت کاری نہیں کر رہا بلکہ ٹریپ کر رہا ہوں کیونکہ بعض اوقات ”شکار“ گپھا بدلتے ہوئے پکڑا جاتا ہے۔ یعنی جس گپھا میں چھپا ہوتا ہے‘ اس پر کسی کا دھیان نہیں ہوتا‘ لیکن جیسے ہی ٹھکانہ بدلتا ہے‘ پکڑائی میں آجاتا ہے۔
اس بار ان کی پکڑائی کی ویڈیو نہیں بنی۔ پچھلی بار ایک روز کیلئے پکڑے گئے تھے تو ڈیوٹی کانسٹیبل کے سینے سے لپٹ لپٹ کر روئے تھے یا رو رو کر لپٹے تھے۔ کسی اخبار نے لکھا کہ سپاہی کے سینے سے لگ کر وہ پھوٹ پھوٹ کر روئے۔ اب چونکہ فلم نہیں بنی اس لئے نہیں کہہ سکتے کہ لپٹ لپٹ کر روئے یا پھوٹ پھوٹ کر روئے۔
بہرحال جس سسرال سے ڈرکے وہ چھ ماہ سے بھی زیادہ عرصہ ہوا‘ روپوش تھے‘ اسی سسرال میں پہنچ گئے ہیں۔ اب سسرال والے داماد جی کے ساتھ کیا حسن سلوک اور کیسی تواضع کرتے ہیں‘ بہت بعد جا کر ہی پتہ چلے گا۔ اطلاعات بہرحال یہ ہیں کہ خاصا پ±رتکلف سامان تواضع تیار ہے۔
روپوشی کے دوران ان کا کچھ مخصوص اور محفوظ احباب سے فون پر رابطہ رہا۔ ایک دوست نے ان دنوں فون پر ان سے پوچھا کہ شیخ جی‘ آپ تو ہتھکڑی کو زیور مانتے ہیں‘ پھر اسے پہننے سے اتنا ڈرتے کیوں ہیں‘ فرمایا‘ آپ نے شرع شریف نہیں پڑھی‘ مردوں کو زیور پہننے کی مناہی ہے۔
اس دوران شیخ جی کا فارم ہاﺅس اجاڑ پڑا ہے۔ سنا ہے راتوں کو وہاں بھوت ناچتے‘ دھماچوکڑی مچاتے ہیں اور دن کو سیار ہونکتے ہیں۔ آس پاس جنگل ہیں۔ بھوتوں کی کمی ہے نہ سیاروں کی۔ ویسے شیخو بابا اتنا بڑا فارم ہاﺅس آپ نے کرنا کیا ہے۔ باقی دن کسی نہ کسی طور سسرال ہی میں کٹ جائیں گے۔ یہ فارم ہاﺅس کسی رفاہی ادارے کو دے ڈالئے۔ آزادکشمیر کے زلزلہ زدگان وہاں آکر رہ لیں گے جن کیلئے آنے والا امدادی سامان کسی نے لال حویلی کے آس پاس بیچ دیا تھا۔
................
چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی حلف برداری کی تقریب ایسے ہوئی کہ ماضی میں کسی بھی چیف جٹس کی تقریب ایسی نہیں ہوئی۔ پورے ملک کی نگاہیں ٹی وی سکرین پر لگی ہوئی تھیں۔ ایسا پہلے تو کبھی نہیں ہوا۔ زیادہ تر عوام کو تو اس خبر کا بھی پتہ نہیں چلتا کہ نیا چیف جسٹس آگیا ہے۔
کرّوفر اس تقریب میں نہیں تھا۔ قاضی صاحب نے تو پروٹوکول بھی منع کر دیا اور گارڈ آف آنر بھی نہیں لیا پھر بھی کل بچے بچے کو پتہ تھا کہ کس کی حلف برداری ہے۔ حلف صدر مملکت کے منصب پر براجمان ایک صاحب نے لیا۔ ان ایک صاحب سے بعدازاں کسی صحافی نے پوچھا کہ جناب ایک لائق عزت جج سے حلف لیتے ہوئے آپ کو کیسا لگا جبکہ ان کے خلاف آپ نے چار سال قبل ریفرنس دائر کیا تھا تاکہ انہیں نوکری سے برطرف کیا جائے۔ اخبار نے رپورٹ کیا ہے کہ یہ سوال سن کر صدرمملکت کے عہدے پر فائز ان صاحب نے سر جھکا لیا۔
اخبار نے ”آخری حصہ“ غلط رپورٹ کیا ہے۔ صدرمملکت کے عہدے پر فائز ان صاحب کا سر تو پہلے ہی جھکا ہوا تھا۔
................
ویسے یہ صاحب اکیلے کہاں تھے۔ قاضی فائز عیسیٰ کو نوکری سے نکالنے میں اس وقت کے ”بندوبستی“ وزیراعظم عمران خان بھی تھے۔ بڑے ڈایا میٹر کی گردن والے شہزاداکبر بھی تھے۔ ان سے بڑھ کر بڑے ابو باجوہ حضور‘ چھوٹے ابو فیض گنجور بھی تھے۔ پھر ثاقب نثار آصف سعید کھوسہ‘ گلزار اور بندیال صاحب بھی تھے۔ موخر الذکر بطور چیف جسٹس نے ایڑی چوٹی ہی نہیں‘ جگر اور کمر کا پورا زور لگایا کہ قاضی صاحب نہ صرف نوکری سے محروم ہوں بلکہ جی بھر کے رسوا بھی ہوں۔ پھر قومی میڈیا کا بڑا حصہ بھی ان نیکوکاروں کے اس نیک کام میں شریک تھا۔ عام مبصر کو یقین ہو چلا تھا کہ اب کوئی طاقت قاضی فائز عیسیٰ کو نہیں بچا سکتی۔ ان کے ساتھ ان کی بیگم کو بھی گھسیٹ لیا گیا۔ ان پر جی بھر کے تیغ و تیر چلائے گئے۔ عدالتی کٹہرے میں بلا کر ان پر بھبتیاں کسی گئیں۔ ان کے ایک ساتھی جج اس بھبتی میں بہت آگے نکل گئے۔
لیکن پھر تو کرامات بھی ہو گئی۔ ان پر حملہ آور سارے کے سارے ایک ایک کرکے میدان سے باہر ہوتے رہے۔ میدان میں جمے رہے تو قاضی صاحب اور ان کی اہلیہ۔ وہی جو کل تقریب حلف برداری میں ان کے ساتھ کھڑی تھیں۔ مغرب کے کئی ملکوں میں یہ روایت ہے چیف جسٹس حلف اٹھاتا ہے تو بیگم ساتھ ہوتی ہیں۔
بندوبستی وزیرداخلہ جیل میں ہے۔ (بندوبست سے مراد وہ انتظام ہے جو 2014ءمیں شروع ہوکر 2017ء میں عروج تک پہنچا اور 30 سیٹوں کا عدد 110 سے بدل کر وزیراعظم بنایا گیا) بڑے ڈایامیٹر کی صراحی دار گردن والے شہزاد اکبر لندن میں مفرور ہیں۔ بڑے ابو اپنے گھر میں بھی منہ ڈھانک کر پھرتے ہیں۔ چھوٹے ابو اپنے سینکڑوں ایکڑ کے قصردارا سکندر کو شرمندہ کرنے والے گھر میں بیٹھے تھر تھر کانپا کرتے ہیں کہ کہیں آئے روز ان کی گرفتاری کی خبر سچ ہی نہ نکلے۔ برسبیل تذکرہ فیض آباد دھرنے کے حوالے سے ان چھوٹے ابو کے خلاف قاضی صاحب کا ایک فیصلہ ہنوز نافذ العمل ہونے کا منتظر پڑا ہے۔ ریفرنس کو عوامی ایشو بنانے والی‘ بندوبسی وزیراعظم کی جماعت تحریک انصاف لاپتہ ہے۔ قاضی صاحب پر بڑھ بڑھ کر وار کرنے والے میڈیا پرسن اب ان کی خوشامدکے پروگرام کر رہے ہیں اور ان کی وہ خوبباں عوام کو بتا رہے ہیں جن کا علم خود قاضی صاحب کو بھی نہیں۔
رہے منصب صدارت پر فائز ایک صاحب تو انہوں نے سرنگوئی کو اپنا شعار بنا لیا ہے۔ سنا ہے کل کسی سے پوچھ رہے تھے کہ الیکشن کی تاریخ کیلئے میں نے جو خط الیکشن کمشن کو لکھا تھا‘ اس کا کیا بنا۔ جواب میں ان صاحب نے کہا کہ حضور ڈسٹ بن کی تلاشی لیکر بتاﺅں گا۔