ذمہ دار کون ہوگا؟

کوشش....سیف اللہ خان نیازی
saif_niazipl#yahoo.com
ملکی حالات میں جہاں عوام ذلالت کی آخری حدود کو چھو رہے ہیں وہاں قومی اداروں کی بے توقیری بھی عروج کے آخری درجے پر پہنچ چکی ہے۔ایک طرف ملک کے اندر بے یقینی کی کیفیت ہے تو دوسری طرف خارجہ امور میں ناکامی پر ناکامی نے ملک کا سوا ستیاناس کر دیا ہے۔مہنگائی بے روز گاری اور لا قانونیت کے اس دور سے عوام اس قدر بیزار ہو چکے ہیں کہ اس کی مثال پچھلے 75سالہ دور میں نہیں ملتی۔کوئی بھوک و خوف کی وجہ سے خودکشی کر رہا ہے تو کوئی بے روز گاری سے تنگ آ کر ملک سے راہ فرار اختیار کر رہا ہے اور ان راہ فرار اختیار کرنے والوں میں ڈاکٹرز انجینئرز اور دیگر مہارت رکھنے والے افراد شامل ہیں جن کی تعداد لاکھوں میں بتائی جا رہی ہے۔۔تازہ ترین میڈیا رپورٹس کے مطابق پچھلے ڈیڑھ سال کے دوران اب تک 12لاکھ سے زائد بےملک چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔دوسری طرف بھوک سے خود کشیوں کے واقعات میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے ۔ایک سال کے دوران 50لاکھ سے زائد لوگ روز گار ہو چکے ہیں اور کروڑوں لوگ خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔ڈیڑھ سال میں اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ ہو چکا ہے اور آمدنی کے ذرائع بند ہو چکےہیں۔پٹرولیم مصنوعات اور ڈالر کی قیمتوں نے ٹرپل سنچریاں مکمل کر کے نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔امن و امان کی صورت حال کا عالم یہ ہے کہ کوئی بھی شخص اپنے گھروں میں محفوظ نہیں رہا۔ہر طرف افراد تفری اور خوف کا عالم ہے۔بے یقینی کی اس صورتحال میں کوئی بیرون ملک سرمایہ دار پاکستان کا رخ کرنے سے گریزاں ہے۔جس سے ملکی معیشت کا پہیہ جام ہو کر رہ گیا ہے۔ڈیڑھ سال قبل ملکی صنعتوں نے جو عرصے بعد اڑان بھری وہاں آج صنعتکار کارخانے اور فیکٹریاں بند کر کے زیادہ تر سرمایہ بیرون ملک شفٹ کر چکے ہیں اور کچھ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے گئے ہیں۔ان صنعتوں اور کا خانوں کے بند ہو نے سے لاکھوں کی تعداد میں کام کرنے والے مزدور گھروں میں بیٹھ گئے ہیں اور ان کے گھروں میں فاقوں کا راج ہے ۔ ملک کی تاریخ میں پہلی بارمینوفیکچرنگ کمپنیاں کاروبار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی ملک سے کھلواڑ کرنے میں اس نام نہاد سیاسی ٹولے نے اقتدار چھیننے کے لیے بیرونی قوتوں کا سہارا لیا۔امریکی صدر بائیڈن کے اقتدار سنبھالتے ہی فضل الرحمان نے نجی ٹی وی چینل پر گفتگو کے دوران برملا کہا تھا کہ بائیڈن سے ہم مدد مانگیں گے ۔جس کے بعد وہی ہوا ۔اصف زرداری فضل الرحمان اور نواز شریف جو پہلے سے ہی پاک فوج پر پی ٹی آئی حکومت کو لانے کا الزام لگا کر طرح طرح کی سازشوں میں مصروف تھے نے امریکی صدر کے پاﺅں میں بیٹھ کر پاک فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کرتے ہوئے اقتدار کی بھیک مانگی۔ اور پھر دن بدن بائیڈن انتظامیہ کا دباﺅ پاکستانی طاقتور اداروں پر بڑھتا گیا اور بالآخر وہ اپنی سازش میں کامیاب ہو گئے اور ایک ٹریک پر چلتی ریاست کو پٹڑی سے اتار دیا۔۔اس سے ایک آزاد ریاست کو جو نقصان ہوا اس سے امریکہ کو کوئی سروکار نہیں کیونکہ وہ ہمیشہ ایسے حکمران چاہتا ہے جو ان کے جوتے چاٹتے رہیں۔اب اس سارے کھیل کا الزام براہ راست پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر آگیاکیونکہ عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی سے پہلے اس 13 جماعتیں ٹولے نے یہ گردان الاپنا شروع کردی کہ اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکتی۔۔جس کامقصد پاک فوج کو سیاست میں گھسیٹنا تھا تاکہ اس سارے کھیل کا الزام پاک فوج پر لگے ۔۔اور جب پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو بھی گئی جس سے یہ براہ راست تاثر ملا کہ اس کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ ہے حالانکہ سازش پیچھے سے یہ خود بن چکے ۔تحریک انصاف کے ممبران اسمبلی سے امریکی عہدیداروں کی خفیہ ملاقاتیں اور آصف زرداری کی عمران خان کو اقتدار سے ہٹانے کی بڑھکیں ان سازشوں کے بعین ثبوت ہیں . کون نہیں جانتاجب تحریک انصاف کی حکومت کو بیرونی سازش کے تحت گرایا گیا اس وقت ملک کی معیشت بڑی مشکل اور تگ و دو کے بعد سنبھلی تھی۔ملکی ترقی کی شرح 6فیصد تک پہنچ چکی تھی۔ زر مبادلہ کے ذخائر بڑھ گئے 23 ارب ڈالر تک جا پہنچے بحثتھے۔ بیرونی سرمایہ کاری میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا تھا۔بر امداد میں ریکارڈ اضافہ ہو گیا تھا ملک میں کاروان وبا کے باوجود حکومت نے منگوائی کو 12فیصد تک روک رکھا تھا۔۔روہے کی قیمت مستحکم ہو رہی تھی۔بجلی کی قیمت میں اضافہ رک گیا تھا اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں عالمی سطح پر زیادہ بیہونے کے باوجود 150روہے لٹر تھیں۔۔18سال بعد ملک کی صنعت تیزی کے ساتھ آٹھ رہی تھی ۔۔حکومت صحت کارڈ اور عوام کی بھلائی کے منصوبے شروع کر چکی تھی۔حکومت ملک کی خودمختیارخارجہ پالیسی بنا چکی تھی یعنی ملک داخلی و خارجی سطح پر صحیح سمت میں جا رہا تھا جو اس حکمران ٹولے کو نہیں بھا رہا تھا۔ ان کو خدشہ تھا کہ اگر پی ٹی آئی حکومت انہی کامیاب پالیسیوں کے پانچ سال پورے کر گئی تو خیبر پختون خوا کی طرح دوبارہ اقتدار میں آ جائے گی اور انکی موجیں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں گی ۔اسی لیے یہ اس وقت کے وزیر اعظم عمران خان کی خودمختیا پالیسیوں جو امریکہ کو قطعاً نہیں بھا رہی تھیں کا فائدہ اٹھاتے ہوئےسازشی ٹولہ امریکی صدر کے پاﺅں میں بیٹھ گیا اور ملکی اداروں کو حکومت گرانے میں مدد کے لیے امریکی دباﺅ بڑھایا۔۔اور بالآخر حکومت گر گئی۔اور پھر اس ٹولے کے نیٹ ورک میں جو دراڑیں عمران خان ڈال دی تھیں اس کو دوبارہ منظم کر نے میں لگ گئے۔۔پورے ڈیڑھ سال میں اس ٹولے نے عوام کے مفاد کے لیے ٹکے کا کام نہ کیا سارا اپنے کیسز ختم کرانے اور اپنے بکھرے نیٹ ورک کو بحال کرانے میں گزارا ۔جب اس ٹولے(پی ڈی ایم ) کو لگا کہ ان کے اقتدار میں آنے سے تحریک انصاف مزید مقبول ہو رہی ہے تو انہوں نےاپنے مضبوط سازشی نیٹ ورک کی مدد سے طاقتور اداروں اور تحریک انصاف کو ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑا کر دیا۔9 مئی کو تحریک کے چیئرمین کی گرفتاری کے خلاف عوام جب سڑکوں پر احتجاج کرنے نکلے تو ان سازشیوں نے اپنے بندے ڈال کر لاہور میں کور کمانڈر ہاﺅس اور ملک بھر میں چند دیگر اہم فوجی تنصیبات پر حملے کروائے اور الزام تحریک انصاف کے ورکرز اور رہنماﺅں پر لگا دیا جس کے نتیجے میں تحریک انصاف پر مظالم کا ایک پہاڑ ٹوٹ پڑا جو تا حال تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔جبکہ 9 مئی جلاﺅ گھیراﺅ کی ابتدائی ملٹری انٹیلیجنس کی رپورٹ میں ن لیگ کے رہنماﺅں رانا ثنائ اللہ اور خواجہ آصف کو قصور وار ٹھہرایا گیا ہے مگر اس رپورٹ کو دبا دیا گیا ہے۔اس ٹولے کے امریکی گٹھ جوڑ کا اندازہ اس بات سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ رانا ثنائ اللہ جیسا تھرڈ کلاس آدمی ملک کے طاقتور اداروں کو ڈکٹیٹ کرتا رہا اور منشائ کے فیصلے کرواتا رہا ۔تحریک انصاف کے چیئرمین کی بھرپور عوامی مقبولیت کو دیکھتے ہوئے یہ سازشی ٹولہ انتخابات سے مسلسل بھاگ رہا ہے۔۔اور ابھی تک یہ ٹولہ امریکہ کے تلوے چاٹ رہا ہے اور انتخابات کو ڈیلے کی طرف لے جانے کی منتیں کر رہا ہے۔بظاہر تو امریکی روزمرہ کے روٹین بیانات کے ذریعے پاکستان میں مداخلت کی تردید کر رہا ہے مگر الیکشن کمشنر سمیت ملکی اہم اداروں کے سربراہوں سے امریکی سفیر کی ہے در پے ملاقاتوں سے صاف ظاہر ہو رہا ہےکہ انتخابات کے التوا میں امریکہ اس سازشی کرپٹ ٹولے کا ساتھ دے رہا ہے۔۔۔کیونکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ عمران خان کے بطور وزیر اعظم روس کے دورے سمیت ان کی خودمختیار خارجہ پالیسی پرنالاں ہے جس کا دائرہ یہ سازشی ٹولہ بخوبی اٹھا رہا ہے یعنی ملک چاہے جائے بھاڑ میں ان کو اپنا ذاتی مفاد چاہیے