G20 کا اعلامیہ ، حقائق کیا ہیں؟

حرفِ قلندر....احمد خان
Ahmadkhan9421@yahoo.com
بھارت کی میزبانی میں رواں ماہ نو اور دس ستمبر جی 20 ممالک کی معاشی واقتصادی تنظیم کا غیر معمولی اجلاس نئی دہلی میں ہوا، اجلاس کا ایجنڈا رکن ممالک کو معاشی‘ تجارتی اور اقتصادی حوالے سے ایک پلیٹ فارم پر لانا اور مشترکہ اقدامات کی پیش رفت کرنا تھا۔ ایجنڈے‘ وعدے اور نئے معاہدوں کے تناظر میں بھارت اپنے مقصد میں بڑی حد تک کامیاب رہا۔ معاشی اور اقتصادی ایجنڈے کے بابت بعد میں گفتگو کی جائے گی پہلے یہ بتا دیں کہ جی 20 ممالک کی تنظیم کے رکن ممالک کی تعداد کیا ہے اور کن کن ریاستوں کے عزت مآب نمائندوں نے دو روزہ اجلاس میں شرکت کی۔ امریکہ روس‘ چین‘ ارجنٹینا‘ آسٹریلیا‘ برازیل‘ کینیڈا‘ فرانس‘ جرمنی‘ انڈونیشیا‘ اٹلی ‘ جاپان‘ جنوبی کوریا‘ میکسیکو‘ سعودی عرب‘ جنوبی افریقہ‘ ترکی‘ برطانیہ اور یورپی یونین نے شرکت کی ۔چین اور روس کے صدور شرکت نہ کرسکے۔ چینی وزیراعظم اور روسی وزیرخارجہ نے اپنے اپنے ملک کی نمائندگی کا چراغ روشن کیا۔ جی 20 ممالک کے صدور ‘ وزرائے اعظم اور وزرائے خارجہ کا بیک وقت اجلاس میں شرکت کرنا خطے کے لیے بڑی خبر تھی۔ میزبان ملک کی حیثیت سے بھارت نے بنگلہ دیش ‘ مصر ‘ نائیجریا‘ متحدہ عرب امارات‘ عمان‘ سنگار پور‘ نیدر لینڈ ( ہالینڈ) اورماریشش کو بطور مبصر مدعو کیا لیکن دانستہ طورپر پاکستان کو اجلاس میں دعوت نہیں دی گئی۔
انڈیا ، بھارت یا ہندوستان جو ریاست پچھلے 76 سال سے اپنے نام کا فیصلہ نہ کر پائی نجانے ہم کیوں اس کے چائے فروش کی ڈھابے والی اچھل کود سے احساس کمتری کا شکار ہو جاتے ہیں ۔ جی 20 کے نامکمل اجتماع سے IMEC ( انڈیا، مڈل ایسٹ ، یورپ معاشی راہداری ) کا ایک شگوفہ چھوڑا گیا جو ہمارے لبرلز اور مغربی ترقی کے پروردہ دانشوروں کے سامنے ( بندر کے ہاتھ ماچس) کے مصداق آ گیا مغرب اور پاکستان دشمنوں کی ہر ادا جن کے لیے ادائے جاناں ہے اور وہ اہلِ مغرب کی اور پیرانِ کلیسا ان کی بلائیں لینے کو ہردم مشتاق رہتے ہیں انہوں نے تو مملکت خداداد کی آو¿ بھگت کی ٹھان لی، آو¿ دیکھا نہ تاو¿ ان کی دانشوری نے سوشل میڈیا کو خوب غلاظت فراہم کی حالانکہ کثافتیں وہاں پہلے بھی کم نہیں ہیں ایک طوفان بدتمیزی بپا ہے اور بتایا یہ جا رہا ہے کہ ہندوستان نے پتا نہیں کون سا تیر مار لیا ہے اور پاکستان کو بس اب مودی کے پاو¿ں پڑ ہی جانا چاہیے اب آ جاتے ہیں اس کہانی کی طرف جو G20 کے اجلاس میں چائے فروش ڈھابے والے نے اپنے ہم مشربین کو سنائی موصوف نے نعرہ لگایا" ایک زمین، ایک خاندان ، ایک مستقبل" اہلِ دانش سے دست بستہ سوال طلب ہوں کہ کیا اس سلوگن کی عملی اور بھیانک تصویر ہندوستان نے کشمیر، منی پورہ ، میزورام ، تری پورہ ، تامل ناڈو، پنجاب، چھتیس گڑھ ، مظفر نگر، اڑیسہ اور گجرات میں مسلمانوں ، مسیحیوں ، بدھوں ، شودروں کے قتل عام اور آبروریزیوں سے پیش نہیں کر دی بابری مسجد کی جگہ رام مندر کی تعمیر اور سینکڑوں مساجد کی شہادت سے اہلِ ہند کا "ایک خاندان ، ایک مستقبل" نظر نہیں آ گیا؟ جی 20 کا نامکمل اجتماع جو نئے تعمیر شدہ " بھارت منڈپم" پہ منعقد ہواجو کہ پہلی بارش سے ہی جوہڑ بن گیا اجتماع اور مقامِ اجتماع کے عکس کا نقص اعلامیے میں بھی واضح ہے جس کوریڈور کی مفاہمتی یادداشت پہ دستخط کیے گئے اس کا پاک چائنہ اقتصادی راہداری سے موازنہ کرنا قرینِ انصاف نہیں یا د رہے کہ چینی صدر شی جن پنگ نے دنیا کے اقتصاد کو یک راہ کر کے چینی ریاست کی عظمت رفتہ کی بحالی کے تصور کو جب عملی جامہ پہنانے کا فیصلہ کیا تو اسکے ایک حصے کے طور پر سی پیک کا بھی آغاز کیا گیا اس سے پاکستان میں اقتصاد کی بحالی کا پہیہ بھی چلا ، اور ہمارے بعض سیاسی جغادریوں کی سیاست بھی چمکی لیکن یہ بھی یاد رہے کہ پاک چین اقتصادی راہداری ، ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا ایک چھوٹا لیکن بنیادی حصہ ہے مودی و بائیڈن کی اس مداری کا موازنہ کرتے ہوئے آپ نے بددیانتی کے سارے ریکارڈ ہی توڑ ڈالے ایک ایسا منصوبہ جو انسانی تاریخ میں ایک زمینی راستے کے ذریعے آپس میں مربوط اقتصادی نظام کا پہلا اور ابھی تک اکلوتا اور منفرد منصوبہ ہے اور دوسری مزے کی بات یہ کہ اس سارے منصوبے کی منصوبہ سازی سے سرمایہ کاری تک اور پھر مختلف ممالک میں اس سے جڑے عملی منصوبوں کے آغاز تک ایک ہی ملک اور شخصیت اس کی قیادت تھامے ہوئے ہیں اس کے مقابلے میں جی 20 میں چھوڑا جانے والا شگوفہ ابھی تک کسی ایک قیادت سے محروم نظر آتا ہے اور اگر آپ مشترکہ اعلامیہ کو پڑھیں اور مودی کی بطورِ سربراہ گفتگو ملاحظہ کریں تو یہ بات بالکل واضح ہے کہ یہ ایک متفقہ منصوبہ ہے اور یہ بھی یاد رہے کہ چینی ریاست کے نمائندے کے طور پر شرکت کرنے والے چینی وزیراعظم نے اس اعلامیے پرباقاعدہ دستخط کئے ہیں اس کا مطلب ہے کہ دنیا میں ہونے والی کسی بھی مثبت تجارتی سرگرمی سے چین کوئی خوف محسوس نہیں کرتا یہ بھی یاد رہے کہ چینی منصوبہ 2013 میں شروع ہوا اور اسے 2028میں مکمل ہونا ہے اور اس منصوبے پہ بھی صرف دستخط ہوئے ہیں اس کا سرمایہ کہاں سے آئے گا، یہ کن ممالک سے گزرے گا ان ممالک کی اس منصوبے میں شمولیت کے لیے کیا شرائط ہوں گی اور اس پہ خرچ کرنے والے ممالک اور کمپنیاں ان ممالک سے سرمایہ کاری کے بدلے کیا مطالبات منوائیں گی یہ سب ابھی سامنے آنا باقی ہے سمندری راستوں ، مختلف ممالک اور تنازعات والے خطوں میں سے منصوبہ ساز اگر اس تجارتی راہداری کو لے کے گزریں گے تو یقینا انہیں وہاں کے مقامی سیاسی مسائل کا بھی سامنا ہو گا اور یاد رہے کہ تجارت کے فروغ کا بنیادی نکتہ ہے بہتر تجارتی ماحول پیدا کرنا ، دنیا کی تمام طاقتور ریاستیں ابھی تک ظلم و استبداد کی مختلف شکلوں کو قائم رکھے ہوئے ہیں ہر ریاست کے ماضی و حال کا جائزہ لیا جائے تو ان سب کا دامن سیاہ ہے اب تجارت کے نام پہ ہی سہی اگر یہ ریاستیں ان سیاسی اور جغرافیائی مسائل کوحل کرپائیں گی تو بھی دنیا پہ بسنے والے اربوں انسانوں کے لئے یہ کوئی مہنگا سودا نہیں ہے امن اوراپنے حصے کا رزق تلاش کرتی انسانیت کے لیے شروع ہونے والا کوئی بھی منصوبہ انسانیت کے ایک حصے کے لیے فائدہ مند اور دوسرے کے لیے نقصان دہ نہیں ہوسکتا پاکستان کو ہر بات پہ مطعون کرنے اور ریاست کو ناکام ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگانے والے اگر تجارت اور دکانداری کے اصول مدنظر رکھ لیں تو یہ بات بالکل واضح ہے کسی علاقے میں قائم ہونیوالی ایک سے زیادہ دکانیں ہمیشہ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ کا باعث ہوتی ہیں