پیر ، 22 صفرالمظفر1444ھ،19 ستمبر 2022 ء
لاہور میں آٹے کی قلت ، قیمت میں اضافہ، سمگلنگ بڑھ گئی
جب پنجاب سے آٹا سمگل ہو کر دوسرے صوبوں میں جائے گا تو پنجاب میں آٹے کا بحران خودبخود سر اٹھائے گا۔ اس کام میں صوبائی انتظامیہ، فلور ملز مالکان اور مڈل مین برابر کے شریک ہیں جو آٹے کا تھیلا پنجاب میں 1200 روپے کا بکتا ہے ۔ اگر دوسرے صوبوں میں اس کی قیمت 2000 روپے فی تھیلا مل رہی ہو تو کون کم بخت نہیں چاہے گا کہ اس کا مال ان صوبوں میں فروخت ہو جہاں قیمت زیادہ ہے اور وہ بھی خوب منافع کمائے۔ اس کا نتیجہ پنجاب کے عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے جہاں اس منافع خوری اور چور بازاری میں سرکاری محکمے بھی ملوث ہیں۔ باقی صوبوں کی بات کیا کریں۔ جہاں سے کھلے عام آٹا افغانستان تک آسانی سے سمگل ہو رہا ہے۔ ہے کسی میں ہمت اسے روک کر دکھائے اگر صرف افغانستان اور ایران جانوروں، آٹا، گھی ، چاول، چینی کی سمگلنگ پر قابو پا لیا جائے تو ہمارے ملک میں ازخود ان اشیا کی قیمتوں میں کمی آئے گی۔ مگر منافع خور مافیا اور رشوت خور انتظامیہ ایسا ہونے نہیں دے رہی۔ کیونکہ اس سے ان کی کمائی ختم ہو جائے گی۔ دکھ تو اس بات کا ہے کہ بڑے بڑے متقی اور پرہیز گار افراد بھی اس کو ناجائز نہیں سمجھتے بلکہ اسے کاروبار قرار دے کر ناجائز طریقے سے کمایا منافع خود پر حلال سمجھتے ہیں۔ اس لیے حکومت پنجاب صوبے سے دیگر صوبوں کو آٹے کی سمگلنگ سختی سے روکے اور صوبے میں سرکاری ریٹ پر آٹے کی فراہمی یقینی بنائے۔ عوام کا صبر اور حوصلہ جواب دے رہا ہے جو بجلی اور گیس کے بغیر تو گزارہ کر ہی لیں گے۔ مگر روٹی کے بغیر کوئی بھی شخص اپنی آل اولاد کو بھوکا مرتا نہیں دیکھ سکتا۔ حکمران کس کے انتظار میںہیں کیا ’’مٹ جائے گی مخلوق تو انصاف کرو گے‘‘
٭٭٭٭
عمران خان کا تیسرا ٹیلی تھون۔ امدادی رقوم سیلاب زدگان میں جلد تقسیم کریں
خدا جھوٹ نہ بلوائے تو خان جی کے پہلے ٹیلی تھون میں بقول ان کے 5 ارب روپے جمع ہوئے۔ دوسرے میں بھی اسی کے لگ بھگ جمع ہوئے یوں اس وقت ان کے پاس سیلاب زدگان کی امداد کے لیے دس ارب روپے موجود ہیں۔ اب وہ تیسری ٹیلی تھون میں بھی اتنی ہی رقم اور جمع کر لیں گے۔ اگر وہ یہ رقم سیلاب زدگان میں بلاتفریق مذہب ملت و سیاست انصاف سے نیک نیتی کے ساتھ تقسیم کریں تو خدا کی قسم وہ بنا کسی سیاسی احتجاج و جلسے کے آئندہ الیکشن میں بھاری اکثریت سے کامیاب و کامران ہوں گے۔ اس وقت عالمی اداروں اور پاکستانی مخیر حضرات سے مل کر بھی 15 ارب روپے جمع نہیں ہوئے ہوں گے۔ اتنی بڑی رقم اگر آپ کو دستیاب ہے تو آگے بڑھیں جلسے جلوس چھوڑیں سیلاب زدگان کے سر پر ہاتھ رکھیں۔ پھر دیکھیں یہ مخلص لوگ کس طرح آپ کو ایک بار پھر وزارت عظمیٰ تک لے جاتے ہیں۔ جو لوگ منہ کھولے عوام سے چندے امداد اور فنڈز کی اپیل کرتے ہیں۔ وہ خود کیا دے رہے ہیں عوام یہ سب جانتے ہیں۔ اگر ہمارے تمام سیاسی خانوادے اور امرا مل کر ایک ایک ارب روپے جمع کریں تو کھربوں روپے جمع ہو سکتے ہیں جس سے سیلاب زدگان کی امداد کے علاوہ ان کے تباہ حال علاقوں میں بھی ترقیاتی کاموں کا جال بچھایا جا سکتا ہے۔ سڑکیں، پل ، ریلوے ٹریک نئے بچھائے جا سکتے ہیں۔ غیر ممالک سے مانگنے سے بہتر ہے کہ ہمارے ملک کی اشرافیہ آگے بڑھے اور اپنی آخرت سنوارے سیلاب سے تباہ گھروں کی تعمیر، مرنے والوں کی امداد میں حکومت اور اپوزیشن سب مل جل کر کام کریں۔
٭٭٭٭
ملکہ برطانیہ کے آخری دیدار کے لیے لمبی قطاریں۔ لوگ گھنٹوں کھڑے رہے
ملکہ برطانیہ کی تدفین لیڈی ڈیانا کے بعد برطانیہ میں یہ دوسری بڑی جنازے کی تقریب تھی۔ جس میں ہزاروں افراد اور سوگواروں نے شرکت کی۔ اتنی بڑی تقریب میں جو کئی روز جاری رہیں۔ کہیں بھی عوام کی طرف سے پھلکڑ پن جذباتی نعرے بازی دیکھنے کو نہیں آئی۔ برطانیہ کے شہری نہایت اطمینان و آرام کے ساتھ گھنٹوں طویل قطاروں میں لگ کر اپنی مادر ملکہ کا آخری دیدار کرتے رہے۔ صرف ایک زیادہ جذباتی شہری نے روایت سے ہٹ کر ملکہ کے تابوت کو چھونے کی کوشش کی تو اسے فوراً گارڈ نے پکڑ لیا۔ لندن میں میلوں لمبی قطاریں پرامن طریقے سے چلتی رہیں۔ ہزاروں افراد شاہی محل کے باہر جمع پھول نچھاور کرتے رہے لندن میں پھولوں کی قلت اور شاہی محل کے باہر گلدستوں کی کثرت ہو گئی۔ کیا مجال ہے کہیں بھی زندہ ہے ملکہ ز ندہ ہے یا جب تک سورج چاند رہے گا۔ ملکہ تیرا نام رہے گا یا اس قسم کے کوئی اور جذباتی نعرے سنائی دئیے گئے ہوں۔ برطانیہ کے عوام بھی ہماری طرح اپنی ملکہ اور شاہی خاندان سے بہت محبت کرتے ہیں۔ مگر ان کے مرنے پر ہلڑ بازی نہیں کرتے نہایت احترام سے ان کا سوگ مناتے ہیں۔ ان کی آخری رسومات اور تدفین میں شریک ہوتے ہیں ۔ ملکہ کی آخری رسومات میں عالمی شہرت یافتہ فٹبالر ڈیوڈ بیکھم نے اور کئی دوسرے سٹارز اور اعلیٰ شخصیات نے شرکت کی جو گھنٹوں قطار میں لگے رہے۔ وہاں کسی کو خصوصی پروٹوکول نہیں ملا سب بڑے چھوٹے یکساں تھے۔ یہ ہوتا ہے برابری کا سلوک۔ یہ نہیں کہ درجن بھر گاڑیوں میں مسلح افراد بھر کر کوئی بھی ہوٹر بجاتی گاڑی میں آئے ہٹو بچو کا شور ہو اور عوام کو دھکے دے کر اس کو پہلے میت کا دیدار کرنے کے لیے لے جایا جائے۔ کاش ہمارے ہاں بھی المیہ ہو یا طربیہ ہر تقریب میں ایسی ہی متانت سنجیدگی اور برابری کا دور دورہ ہو تو ہم بھی مہذب اقوام میں شمار ہونے لگیں گے۔
٭٭٭٭
تعلیمی اداروں کو منشیات سے پاک کرنے کیلئے سخت قانون سازی کرینگے۔ پرویز الٰہی
اگر وزیر اعلیٰ پنجاب ایسا کر گزرتے ہیں تو انہیں پنجاب کے لوگ مدتوں یاد رکھیں گے۔ اس وقت ہمارے معاشرے میں منشیات کی لت جس تیزی سے سرایت کر رہی ہے اس سے زندگی کا کوئی شعبہ محفوظ نہیں۔ تعلیمی اداروں میں خاص طور پر یہ ملک و قوم کے دشمن منشیات کا زہر دے کر نوجوان نسل کو عملی اور ذہنی طور پر مفلوج کر رہے ہیں۔ نئی نسل کی بڑی تعداد جن میں طلبہ بھی شامل ہیں۔ آہستہ آہستہ موت کے کنویں میں گر رہے ہیں۔ یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ نئی نسل کو اس اندھے کنویں میں گرنے سے بچائے۔ جو لوگ تعلیمی اداروں میں منشیات کی فروخت میں ملوث ہوں انہیں کڑی سے کڑی سزا دیں۔ بہتر تو یہ ہو گا کہ انہیں فوری سزائے موت دی جائے تاکہ دوسروں کو بھی عبرت ہو۔ نئی نسل کے رگوں میں زہر انڈیلنے والے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ تکلیف دہ بات تو یہ ہے کہ اب خواتین کے تعلیمی ادارے بھی منشیات سے محفوظ نہیں رہے۔ اس لیے سیاسی محاذ آرائی سے ہٹ کر پہلے اس نئی نسل کی بقا کی جنگ پر توجہ دی جائے۔ ورنہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بھی جہاز ٹیک آف اور لینڈ کرتے نظر آئیں گے جس کے ہم متحمل نہیں ہو سکتے۔ ہمیں اس وقت پائلٹوں کی ضرورت ہے۔ جہازوں کی نہیں۔ تعلیمی اداروں میں اب دم مارو دم مٹ جائیں غم۔ اور لگے دم مٹے والے نعرے لگانے والوں کا خاتمہ ضروری ہو گیا ہے۔