مراد علی نور- شخصیت و شاعری
پروفیسر عبدالوحید پرکانی
سندھ قدیم تہذیب و ثقافت کی امین سرزمین ہے۔ اس دھرتی کو باب الاسلام کا شرف بھی حاصل ہے۔ یہ وہ سرزمین ہے جس نے سب سے پہلے دینِ مبین کی ہر سو پھیلنے والی شعاعوں میں سے نو ر کی چند کرنیں حاصل کر کے پورے بر صغیر کو منور کردیا۔ یہ بزرگانِ دین اور اولیا کی سرزمین ہے۔ اس کے باسیوں نے زمانہ قدیم سے فراخدلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے باہر سے آنے والے مہمانوں کو خوش آمدید کہا اور اپنے دامن میں ان کو ایسی پناہ دی کہ وہ پھر وہیں کے ہی ہوگئے۔
وادی سندھ کی تہذیب کی قدامت کی گواہی تو موہن جو دڑو سے حاصل ہونے والے آثار ہی دیتے ہیں۔ اس سرزمین پر ظہور ِاسلام سے قبل ہی تہذیب یافتہ اور مختلف فنون کے ماہر لوگ رہتے تھے۔ اگر چہ سندھی ادب کی ابتدا سومرہ دور میں شاعری کی صنف سے ہوئی۔ سندھی رسم الخط کی شروعات انگریزی دور سے ہوئی۔ اس سے پہلے سندھی ادب کو خواجکی دیوان اگری، برھمنی، خداآبادی اور دیگر رسم الخط میں لکھا جاتا تھا۔
سندھ پر عرب حملے سے پہلے یہاں پر گیت گانے کا رواج تھا۔ جب محمد بن قاسم نے سندھ فتح کیا تب سندھ کے کچھ قبیلوں نے گیتوں سے ان کا استقبال کیا۔ سندھی شعرا کا ذکر عرب دور میں بھی ملتا ہے لیکن وہ عربی زبان میں شاعری کرتے تھے۔
سندھی زبان ادب کے ساتھ ساتھ سندھ کی دھرتی نے اردو ادب اور شاعری میں بھی بڑی نامور شخصیات کو جنم دیا ہے۔ سچل سرمست سے لے کر شیخ ایاز تک بے شمار شعرا نے اردو زبان میں بہترین شاعری کی ہے۔
سندھ کے تاریخی شہر جیکب آباد کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ یہ شہر سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع ہے۔یہ شہر بھی علم و ادب کا ہمیشہ سے گہوارہ رہا ہے۔ بلوچستان کی سیاسی اور ادبی شخصیات نے اس شہر کی فیاضی اور سخاوت سے اپنی علمی تشنگی کو ہمیشہ سیراب کیا ہے۔ اس شہر کی کوکھ سے جنم لینے والی ادبی شخصیات کی یوں تو لمبی فہرست ہے۔ مگر اس شہر میں آنکھ کھولنے والے معروف نعت خواں شاعر مراد علی نور کا ذکر نہ کرنے سے اس شہر کی ادبی شخصیات کی فہرست مکمل نہ ہوگی۔مراد علی نور کا مختصر تعارف درج ذیل ہے۔
مراد علی نور نے 1933 میں ایک خالص مذہبی گھرانے میں آنکھ کھولی۔ ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا کہ والدہ کا سایہ سر سے اٹھ گیا۔ والد گرامی کا تعلق صوفیا سے تھا، جو ان کے اسلاف سے ورثے میں انہیں ملا۔ ان کا پیری مریدی کا سلسلہ بھی تھا جس کی وجہ سے گھر میں ذکر خدا اور ذکر حبیب خدا عموما ہوتا رہتا تھا۔ وہیں سے ان کا ذہن شاعری کی جانب راغب ہوا ۔ بچپن ہی سے نعت ، منقبت اور دیگر اصناف ِ سخن میں طبع آزمائی شروع کی۔ضلع جیکب آباد کی تحصیل گڑھی خیرو سے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ابھی اسکول میں زیر تعلیم تھے کہ والد گرامی داغ مفارقت دے گئے۔ لہذاسوتیلی ماں نے انہیں اپنی اولاد کی طرح پالا جو خودبے اولاد تھیں۔ انتہائی غربت میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ 1956 میں شادی ہوئی ۔ 1958 میں ضلع کونسل جیکب آباد میں ملازمت حاصل کی۔ ملازمت کے دوران تعلیم جاری رکھی اور ایم اے ایل ایل بی کے امتحانات پاس کئے یہی وجہ ہے کہ ریٹائرمنٹ کے بعد ڈیرہ اللہ یار میں وکالت کا پیشہ اختیار کیا۔آپ کے چارفرزند ہیں جن میں اختر مراد، ارشد مراد، شاہد مراد اور ناصر مراد ہیں۔
آپ نے اپنے شعری سفر میں تقریبا ہر صنفِ سخن پر اردو، سندھی ، سرائیکی اور پنجابی زبانوں میں طبع آزمائی کی۔ حمد، نعت، سلام، منقبت ، غزل، نظم، قطع، رباعی ، نوحہ وغیرہ میں اتنا مواد ہے کہ جن سے چھ کتابیں چھپ سکتی ہیں۔ اس کے علاوہ نثر کی صورت میں الگ مواد موجود ہے۔ صاحبِ ثروت نہ ہونے کے باعث صرف ایک کتاب جو نعتیہ کلام پر مشتمل ہے اپنی زندگی میں چھپوا سکے جس کا نام شعاعِ نور ہے۔ 1993 میں اہلیہ کے ہمراہ حج کی سعادت نصیب ہوئی۔ دیارِ حبیب کی فضاں نے طبیعت کو کچھ ایسی کیف و مستی بخشی کہ واپسی پر ان کے قلم نے صرف نعت پر سر جھکا یا۔
آپ کا کلام پاکستان کے مختلف روزناموں جیسا کہ جنگ ، نوائے وقت مشرق، عبرت وغیرہ میں شائع ہوتا رہا۔ جیکب آباد کے مقامی سندھی روزنامہ ستارہ سندھ میں جیکب آباد کے مسائل پر ان کا ایک قطعہ روزانہ شائع ہوتا رہا۔ وہ پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان کے مشاعروں میں بھی شریک ہوتے رہے ۔ 1986 میں Ptv کی جانب سے سندھی زبان میں لکھا ہوا ملی نغمہ مقابلے کے بعد کراچی سینٹر سے نشر ہوا جو مشہور گلوکار محمد یوسف نے گایا۔ وہ سندھ ہارس اینڈ کیٹل شو جیکب آباد کے 35 سال تک مشاعرہ کمیٹی ، نعت کمیٹی اور سگھڑ کچہری کے جنرل سیکرٹیری رہے۔ جس کی وجہ سے وہ ہر سال کل پاکستا ن مشاعرہ منعقد کرواتے۔ پاکستان کے تمام معروف شعرا کرام کی میزبانی کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ اسی طرح پاکستان کے تمام معروف نعت خواں حضرات بھی جیکب آباد انہی کی بدولت تشریف لا چکے ہیں۔ سندھ کے تمام نامور سگھڑ بھی جیکب آباد کے ادبی پروگرامز میں حصہ لے چکے ہیں۔آپ کل پاکستان مشاعروں میں مختلف شہروں میں مدعو کئے جاتے رہے جن میں کوئٹہ، مستونگ، سبی، ڈیرہ مراد جمالی، لاہور، اسلام آباد، ساہیوال، ملتان، رحیم یار خان، کراچی، حیدر آباد، نواب شاہ، لاڑکانہ، خیر پور، سکھر، شکار پور، وغیرہ شامل ہیں۔
آپ جیکب آباد کی ایک ادبی تنظیم فیض بخشا پوری ادبی اکیڈمی کے جنرل سیکرٹیری بھی رہ چکے ہیں۔ آپ کو کئی ادبی ایوارڈز سے بھی نوازا گیا۔ آپ 8 جولائی 2017 کو اس دنیا سے کوچ کر گئے۔ان کی شاعری پر مختصر تحقیق درج ذیل ہے۔
مراد علی نور نے یوں تو ہر صنف ادب میں طبع آزمائی کی ہے مگر ان کا نعتیہ کلام نہایت پر سوز اور پر تاثیر ہے۔ انہوں نے آقاؓ سے عقیدت و محبت میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ کیونکہ یہ ہستی ہی ایسی ہے کہ ان کی محبت کو دل میں جگہ دینے کے بغیر ہمارا ایمان بھی مکمل نہیں ہوتا۔ آپؓ کی ذات ِاقدس اور آپؓ کے خاندان کے افراد پر صاحب ایمان کے لئے اپنی جان سے زیادہ عزیز ہیں۔
مراد علی نور نے اہل بیت کی دین مبین کی سر بلندی کے لیئے سختیاں جھیلنے اور اپنی جانوں تک کے نزرانے پیش کرنے کے واقعات کو نہایت پر سوز انداز میں صفئہ قرطاس پر اتارا ہے۔ ان کی شاعری میں ہمیں راہِ حق پر چلنے والوں کی مشکلات اورتکالیف کا ذکر ملتا ہے۔ واقعہ کربلا اور اس سے وابستہ حوادث کو خون ِ دل سے بیان کیا ہے۔
مراد علی نور کو آقائے نام وار سے والہانہ محبت و عقیدت تھی۔ ویسے تو پیارے نبی ؓ سراپا نور و ہدایت تھے۔ مگر آپ کے نور کو دیکھنے کے لئے بھی تو ایسی نگاہِ پر تاثیر چائے۔ ایک عاصی کو یہ نور دیکھنے کا شرف کہاں حاصل ہوگا۔ شاعر کا یہ شعر ملاحظہ فرمائیں!
کرتے ہیں اہلِ دید فقط اتباعِ نور
اک کو رچشم دیکھے گا کیسے شعاعِ نور
قرآن مجید میں اللہ تعالی اپنے محبوب نبی کے بارے میں فرماتے ہیں کہ:
بے شک اللہ اور اس کے فرشتے رسولؓ پر درود و سلام بھیجتے ہیں اے ایمان والو آپ بھی نبی رحمت پر درود بھیجیں۔"
نبی کے امتی ہونے کے ناتے ہم سب کو پیارے نبیؓ پر درود وسلام پیش کرنا چاہیے ۔ مراد علی نور کی شاعری میں جگہ جگہ اس بات کی تاکید ملتی ہے۔
فرشتے اور خدا پڑھتے ہیں سب پیہم درود ان پر
پڑھیں اے اہل ایماں آپ بھی ہر دم درود ان پر
پیارے نبی ؓ سراپا رحمت بن کر دنیا میں آئے تھے۔ آپؓ نے انسان کو انسانیت کے معیار سے آگاہ گیا۔ آپ عرب و عجم بلکہ پوری کائنات کیلئے رحمت بن کر تشریف لائے۔ نہ صرف ایمان والوں نے بلکہ غیر مسلموں نے بھی آپؓ کے در سے فیض حاصل کیا۔ یہ وہ در ہے جہاں سے خلد کے دروا ہوتے ہیں۔ غنچے امید کی کھلنے لگتے ہیں۔ جس نے آقا کی غلامی اختیار کی وہ مخلوق کے سامنے سر اٹھا کے چلنے کے قابل ہوگیا۔ جس نے بھی اس محبوب ہستی کی مدحت کی تو لفظ موتی بن کر اس کے منہ سے جھڑنے لگے۔ اس کی زبان میں روانی پیدا ہوئی۔ گویا کہ خدا بھی اس زبان سے اپنے محبوب نبی ؓ کی تعریف سننے کی خاطر اس تلکنت کو ختم کر کے اس میں فصاحت و بلاغت پیدا کردی تاکہ وہ زبان آقائے نام دار کی شان کو اوربہتر طور پر بیان کرسکے۔
بوقتِ مدحت محبوب یا رب
میرے لہجے میں تو ہی بولتا ہے
قرآن میں اللہ تعالی فرماتے ہیں " و رفعنا لک ذِکرک۔ (اے محمدؓ میں نے تیرے ذکر کو ہمیشہ کیلئے بلند کردیا۔) یعنی سرور کونین ؓ پر درود سلام کا سلسلہ قیامت تک جاری و ساری رہے گا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس میں کمی کے بجائے عاشقانِ رسول کی تعداد میں اضافہ ہوتا جائے گا۔ ہر کوئی آپؓ کے دستِ مبارک پر غائبانہ بیعت کرنے کو تیار ہوگا ۔ آپ کی سنتوں کو اپنی زندگی میں لانے کے لئے کوشش کرے گا ۔
میں جو کرتا ہوں آپ کی مدحت
آپ ؓ سے غائبانہ بیعت ہے
نبیؓ کی نعت پڑھنے سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ گویا آقا وسلم نے اس گناہ گار کو نعت کہنے کا پیغام بھیجا ہے۔ اس گناہ گار کے پاس دوسرا کوئی ایسا عمل نہیں کہ وہ قیامت کے روز ایک امتی ہونے کے ناطے آقا نامدار کو منہ دکھا سکے۔ ایک نعت ہی کا سہارا لئے یہ عاصی شافع محشر سے نگاہ کرم کا طلب گار ہے۔
پیارے نبیؓ کے جسد اطہر کے باعث مدینے کی فضائیں ہمیشہ روشن و تاباں ہیں۔ کبھی کبھی یوں لگتا ہے کہ یثر ب کی گلیوں سے نور رقص کرتے ہوئے مجھ بصارت سے محروم خطا کار کو بینائی بخشنے کے لیئے آتا ہے۔ مدینے کی گلیوں میں بھٹکتے ہوئے اس مسافر نے نور کے وہ سیلاب دیکھے ہیں کہ بینائی کے ساتھ بصیرت بھی لوٹ آئی ہے۔
عجیب رنگ میں دیکھا ہے نور کو ہم نے
در نبی سے یہ جس دن سے ہوکے آئے ہیں
مراد علی نور نے اپنے کلام میں آقاؓ کی محبت میں گلہائے عقیدت نچھاور کئے ہیں کہ قاری کو حیرت زدہ کردیں۔ اس دل میں کبھی شیطان بسیرا نہیں کرسکتا جس میں محمدؓ کی مدحت کا عنصر موجود ہو۔ ابلیس کی کیا مجال کہ اس شخص کو لغزش پر آمادہ کر سکے کہ جس کے سینے اور زبان پر آقا کے لیئے درود سلام کا ورد جاری ہو۔
خوشا وہ دل کہیں جس کو ہے خانہ محمد کا
زہے قسمت زباں جس پر ہوافسانہ محمدؓ کا
جب تک یہ دنیا قائم ہے ھادی امم کی حمدوثنا بیان ہوتی رہے گی۔ انسان اس چشمئہ ہدایت سے سیراب ہوتے رہیں گے۔
مدحِ رسول ؓ میں دلوں پر اضطرابی کیفیت جاری رہے گی۔ اہل بیت کی قربانیاں کربلا کی یاد تازہ کرتی رہیں گی۔
یہ اضطراب مسلسل دلیل ہے اس کی
دلوں سے عشق محمد نہیں ہے جانے کا
قیامت کے روز کیا یہی کم ہے کہ شاعر مراد علی نور کا نام بھی ان لوگوں کی صف میں شامل ہوگا کہ جنہوں نے اپنی زبان کو نعت نبی ؓ کی خاطر استعمال کیا۔ اس زبان کی پاکیزگی کی گواہی کے لیئے کیا یہ کم ہے کہ یہ لفظ جو موتیوں کی مانند مدح رسول میں پرو دئیے گئے ہیں۔ ایسی قسمت اور شان ہر کسی کے حصے میں نہیں آتی۔ بہت کم لوگ ایسا کر کے عشق رسولؓ کی شمع اپنے دلوں میں جلا کر امر ہو جاتیہیں۔ خدا مراد علی نور کی قبر کو جنت کے باغوں میں ایک باغ بنائیں جہاں سے مدحِ رسول کی خوشبو تا قیامت جاری و ساری رہے۔
٭٭٭٭٭