اتوار ‘ 11؍ صفر‘ 1443ھ‘ 19 ؍ ستمبر2021ء
کابل ڈرون حملہ غلطی تھی: سربراہ امریکی سنٹرل کمانڈ‘ معذرت کر لی
…؎ کی میرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زور پشیماں کا پشیماں ہونا
غالب کا یہ شعر ایسے ہی موقع پر کام آتا ہے۔ جنہوں نے مرنا تھا مر چکے‘ جو نقصان ہونا تھا ہو چکا‘ اب اس کا نہ مداوا ہو سکتا ہے نہ ازالہ۔ تو پھر یہ مگرمچھ کے آنسو بہانا کس کام کا۔ یہ معذرت اور پچھتاوا صرف دنیا کو بے وقوف بنانے کیلئے کیا جا رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی امریکہ نے کئی ایسی ہلاکت خیز کارروائیوں کے بعد اسی طرح معذرت کرکے دنیا کو بے وقوف بنا کر اپنے ضمیر کا بوجھ ہلکا کیا ہے۔ شاید وہ وقت بھی جلد آئے گا جب امریکہ افغانستان پر حملے کو بھی اپنی غلطی قرار دیکر افغانوں سے معافی طلب کرے گا کیونکہ حق نے آشکار ہونا اور باطل نے بھاگ جانا ہوتا ہے۔ گزشتہ ماہ کابل میں امریکی ڈرون حملے میں 20 افراد مارے گئے تھے۔ جس پر امریکی سنٹرل کمانڈ اب معذرت خواہ ہے۔ وہ جو 20 برسوں میں لاکھوں افغان مارے گئے پورا ملک کھنڈر بن گیا۔ کیا وہ امریکہ کی غلطی نہیں تھی۔ اس کا ذمہ دار بھی امریکہ ہی تھا۔اس بات پرکب معافیاں طلب ہونگی۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ اب امریکہ اور اس کے اتحادی برباد حال افغانستان کی تعمیر میں ہاتھ بٹائیںتاکہ وہاں کے عوام میں امریکہ کے خلاف نفرت اور انتقام کی آگ ٹھنڈی ہو۔ ورنہ یاد رہے کہ افغان انتقام لینا نہیں بھولتے۔ انہیں جب بھی‘ جہاں بھی موقع ملا‘ وہ امریکہ کو دن میں تارے دکھانے کی بھرپور کوشش کریں گے۔ اس لئے بہتر یہی ہے کہ امریکہ افغانوں کا دل جیتے اور وہاں تعمیر و ترقی اور خوشیوں کی راہ کھولے۔
٭٭٭٭٭
اسلام آباد سے چوری شدہ بلٹ پروف گاڑی ایم پی اے کے گھر سے برآمد
اب معلوم نہیں یہ گاڑی خودبخود ایم پی اے کے گھر پہنچی تھی یا پہنچائی گئی تھی یہ ایک معمہ ہے جس کو حل کرنا ضروری ہے ۔ بلٹ پروف اسلام آباد نمبر کی یہ گاڑی 8 ماہپہلے چوری ہوئی تھی۔ کس نے چرائی معلوم نہیں۔ ہاں البتہ برآمد کب ہوئی اور کہاں سے ہوئی اس کا سب کو پتہ چل گیا ہے۔ ویسے ہی جیسے چاند جب چڑھتا ہے تو دنیا دیکھتی ہے۔ سو اب گاڑی کی برآمدگی بھی سب دیکھ رہے ہیں۔ اب پولیس نے اطلاع ملنے کے بعد خیبر پی کے کے رکن اسمبلی کے گھر چھاپہ مارا تو قیمتی گاڑی وہاں موجود پائی گئی۔ معلوم نہیں یہ ازخود ناراض ہوکر دنیا کی نظروں سے چھپتی چھپاتی فیصل زمان کے گھر آرام کرنے پہنچی تھی یا وہاں پناہ کی تلاش میں آئی تھی۔ اس قسم کی گاڑیاں ویسے ہوتی بہت قیمتی ہیں عام چھوٹے موٹے چور اچکے ان پر ہاتھ ڈالنے سے ڈرتے ہیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ بلا گلے پڑ گئی تو جان چھڑانا مشکل ہوجاتا ہے۔ ہاں البتہ بڑے جی دار، اثر ورسوخ رکھنے والے اس سے مبرا ہیں ان کا جس چیز پر دل آجائے وہ اسے اپنے پاس رکھنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں۔ خواہ چرا کر لے آئیں یا اٹھوا کر۔ قیمتی گاڑیاں ہماری اشرافیہ کا شوق ہے جس طرح گھوڑے کتے اور بھینسیں پالنا ہمارے سیاستدانوں کا شوق ہے۔ اب دیکھتے ہیں اس معاملے کا حل کیا نکلتا ہے۔ ویسے بھی گاڑی اور ایم پی اے دونوں میں جوڑ برابر کا ہے۔
٭٭٭٭٭
افغانستان میں وزارت خواتین کو وزارت اخلاقیات میں تبدیل کردیا گیا
یہ مشورہ جس مرد دانا نے دیا ہوگا اس کی عقل کی داد دینا پڑتی ہے۔ کوئی اس مرد ناداں سے تو پوچھے جناب خواتین کی وزارت کے نام سے چڑ کیوں۔ دنیا بھر میں اس نام کی وزارتیں کام کرتی ہیں۔ ہاں یہ کرسکتے تھے کہ اس وزارت کا تمام انتظام خواتین کے سپرد کردیا جاتا۔ یہاں مردوں کا داخلہ ممنوع قرار دیا جاتا۔ اس طرح چلو کم از کم طالبان کہہ تو سکتے تھے کہ دیکھو جی ہمارے ہاں عورتوں کی وزارت مکمل طور پر عورتوں کے ہاتھ میں ہے کسی مرد میں مجال نہیں کہ وہاں پر مار سکے۔ سعودی عرب اور ایران دو اسلامی ممالک ہیں جن کا نظام حکومت اسلامی طرز ہے وہاں بھی دیکھ لیں خواتین کی وزارتیں ہیں تو بھلا اس صورتحال میں افغان حکومت کو کیا پڑی کہ وہ ملک کی آدھی آبادی کی وزارت کا نام بدل رہی ہے۔ اور کچھ نہیں تو سعودی عرب اور ایران کی طرز پر ہی وزارت چلانے کی اجازت دی جاتی۔ خواتین کے بارے میں تمام معاملات یہی وزارت حل کرتی یوں افغان خواتین کو بھی حکومت میں شمولیت کا احساس ہوتا مگر وہاں تو تالا لگا کر بورڈ بدل کر ملازم خواتین کو واپس گھر بھیج دیا گیا۔ خواتین کی تعلیم، صحت، ملازمت اور حقوق کے حوالے سے پہلے ہی دنیا طالبان کی طرف سے پریشان ہے۔ اب ایسے اقدامات سے بدظنی اور بڑھے گی اس لئے بہتر ہے افغان حکومت افغان خواتین کو اسلامی حدود و قیود کے دائرے میں رہتے ہوئے آگے بڑھنے کے مواقع مہیا کرے۔ تاکہ آنے والے وقت میں افغان خواتین ملک کی ترقی میں اپنا بھرپور کردار ادا کرسکیں۔
٭٭٭٭٭
3 سال میں 53 ارب 56 کروڑکے قرضے معاف
یہ جادوئی اعدادوشمار نہیں حقائق ہیں جو خود بول رہے ہیں۔ وزارت خزانہ نے یہ رپورٹ قومی اسمبلی میں جمع کرائی ہے جس میں 3 سال کے دوران معاف کئے جانے والے قرضوں کی طلسم ہوشربا درج ہے۔ معاف کرائے جانے والے قرضوں کی اس الف لیلیٰ میں کہیں بھی عام آدمی کا ذکر نہیں یہ سب خاص الخاص لوگوں کے کارنامے ہیںعام آدمی بے چارہ تو بجلی، پانی یا گیس کے بل کی قسط کرانے جائے تو اس کی تذلیل ہوتی ہے۔ اس میں اتنا دم خم کہاں کہ وہ ہزار دو ہزار کا قرضہ ہی معاف کرائے۔ ہاں البتہ جو لوگ کروڑوں کے قرضے بنکوں سے لیتے ہیں حکومت اور بنک ملی بھگت سے ان ارب کھرب پتی لوگوں کے ذمہ قرضے ضرور معاف کردیتے ہیں۔ خداکی مار ایسے قرضے معاف کرنے اور کرانے والے مافیاز پر جو ایسا گھنائونا کھیل کھیل کر قومی خزانہ کو لوٹ رہے ہیں حالانکہ یہ ارب پتی لوگ آسانی سے قرضے ادا کرسکتے ہیں مگر جو مزہ قرضے ہڑپ کرنے میں ہے ادا کرنے میں کہاں۔ ایک بات اور۔ اگر یہ لوگ قرضے ادا نہیں کرسکتے تو اتنا بڑا قرضہ لیتے کیوں ہیں۔ بنک کیا اتنے کمزور ہیں کہ اپنی رقم بھی واپس نہیں نکلوا سکتے۔ اچھا ہو کہ حکومت ان تمام بنکوں، اداروں اور قرضہ خواہوں کے نام بھی مشتہر کرے تاکہ عوام کو معلوم ہوسکے کہ اس گنگا میں کس کس کے ہاتھ دھوئے ہیں۔ اس طرح یہ لوگ کم از کم ایک دوسرے سے بھی آنکھیں چراتے پھریں گے جس کی امیدتو نہیں۔