کیا عوام پرمعافی کے دروازے بند ہی رہیں گے
آ ج سے بیس سال قبل شوکت عزیز وزیر اعظم پاکستان کے ساتھ ساتھ خیر سے ماہرِ معاشیات بھی تھے ۔ان دنوں معیشت خاصی خیریت سے تھی یہ الگ بات ہے کہ ان کے جانے کے بعد سے آج تک معیشت کے حوالے سے پوری قوم خیر ہی مانگ رہی ہے ۔ ان دنوں پٹرول غالباً 30 روپے فی لٹر سے کم اور ڈالر60 روپے کا تھا۔ بذریعہ شوکت عزیز ایک تجویز پیش کروائی گئی کہ ہمارے ہاں باہر سے نازل ہونے والے حکمرانوںکو پیش کرنے کیلئے بنی بنائی تجاویز ہی فراہم کردی جاتی ہیں ۔ تجویز یہ تھی کہ عوام پر ٹیکسز کی مختلف مدات ختم کردی جائیں اورپٹرول کی قیمت ایک ڈالر فی لٹرکے برابر کردی جائے تو معیشت مکمل طور پر سنبھل جائے گی اور پاکستان کے پاس اتنے پیسے آجائیں گے کہ معیشت خسارے سے بہت حد تک نکل آئے گی ۔پاکستانی ماہر معاشیات نے اس تجویز کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس تجویز کو بوگس قرار دیتے ہوئے اپنے مؤقف کے حق میںاچھے خاصے دلائل پیش کیے تاہم غیر محسوس طریقے سے پٹرول کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوگئیں اور یہ سلسلہ پھر رک ہی نہ سکا۔
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ سرکاری قیمتوںکو مدنظر رکھا جائے تو عوام تقریباً 125 روپے فی لٹر، اور اگر ملک بھر کے پیمانوں کو مدنظر رکھاجا ئے تو 135 سے 140 روپے فی لٹر پٹرول لے رہے ہیں۔ ابھی اس میں ملاوٹ کا عنصر شامل نہیں ہے ۔ سمگل شدہ غیر معیاری پٹرول ، ڈیزل اور پاکستان میں مختلف کیمیکلز کی ملاوٹ سے یہ ایک لٹر پٹرول بعض علاقوں میں‘ جن میں جنوبی پنجاب ،سندھ اور بلوچستان سر فہرست ہیں، کثافت اور ملاوٹ ملا کر یہی پٹرول 150 روپے فی لٹر سے بھی اوپر چلاجاتا ہے ۔ پیمانے تو کم ہوتے ہی ہیں کہ یہ تو روٹین کا معاملہ مگر ان ملاوٹوں کی وجہ سے جہاں انجن کی عمر گھٹتی ہے وہیں پر فیول مائلیج بھی بہت کم ہوجاتی ہے ۔ فی الحال فضائی آلودگی کا تذکرہ نہیں کرتے۔ پٹرول پمپوں کے پیمانے اور معیار چیک کرنے کی ذمہ داری دیگر سینکڑوں ذمہ داریوں کی طرح ملک بھر میں ہر ضلعی انتظامیہ ہی کے پاس ہے ۔ ہر ضلع میں اس حوالے سے ’’ ایمانی کنڈے ‘‘ لگے ہوئے ہیں جن کی شرح چھوٹا پٹرول پمپ 5 ، بڑا 10ہزار اور وسیع وعریض پٹرول پمپ 15 سے 20 ہزار ہے جو یہ لوگ دیکر خوشی خوشی 2 سے 4 ہزار ماہوار جرمانہ بھی ادا کردیتے ہیں کہ آخرسرکاری افسران کے گھروں کے ساتھ ساتھ حکومت نے بھی تو چلنا ہے ۔
اوگرا کی نئی انتظامیہ نے اب اپنی حقیقی ذمہ داریاں نبھانے کا فیصلہ کرلیا ہے اور چیئرمین اوگرا مسرور خان کی ہدایت پر اوگر ا کے ممبر آئل زین العابدین نے پنجاب اور کے پی کے کے بعض علاقوں میں پٹرول پمپوں کو اپنی خصوصی ٹیمون کے ذریعے چیک کروانا شروع کیا تو حیران کن انکشافات سامنے آئے ہیں ۔ ملک بھر میں ہزاروں پٹرول پمپ ایسے ہیں جن کے مالکان کے کمروں میں لگی ہوئی ایل سی ڈی کے ریموٹ چلیں نہ چلیں لیکن پٹرول پمپ کی تمام تر نوزلز اور مشینیں ریموٹ سسٹم کے ساتھ منسلک ہیں اور اسی ریموٹ کے ذریعے چند سیکنڈز میں پیمانے اوپر نیچے ہوجاتے ہیں ۔ ملتان اور لودھراں کے دو بڑے پٹرول پمپوں کے ملازمین سے گھبراہٹ میں ریموٹ زیادہ دب گیا تو پیمائش 10 سے بڑھ کر 13پوائنٹس فی لٹر تک پہنچ گئی۔ اوگر ا کا عملہ صورتحال کو بھانپ گیا اور پٹرول پمپوں پر لوگوں کو مشورہ دینے لگا کہ جس جس نے ٹینکیاں فل کروانی ہیں کروا لیں یہ سنہری موقع پھر نہیں ملے گا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اضافے کی کٹوتی ریموٹ چلانے والے ملازمین کی تنخواہو ں سے پانچ ہزار روپے فی مہینہ کے حساب سے ہوگی اور کٹوتی تو بنتی ہے کہ ان سے ریموٹ بھی کنٹرول نہ ہوسکا۔
جنوبی پنجاب کے اکثر پٹرول پمپوں پر ایک لٹر کے دس پوائنٹ کی بجائے نو،سوا نو اور ساڑھے آٹھ پوائنٹس تک فیول ڈالا جارہا ہے اور دلچسپ بات یہ ہے کہ گزشتہ تین سال سے ملتان کے جس پٹرول پمپ کو میں دستیاب معلومات کی روشنی میں بہترین سمجھ کر اپنی گاڑی کیلئے پٹرول لیتا رہا اس کا پیمانہ بھی خیر سے اچھا خاصا کم نکلا ۔اب اوگرا نے جنوبی پنجاب کے مختلف علاقوں کے پٹرول پمپوں سے پٹرول اور ڈیزل کے نمونے لے لئے ہیں، لیبارٹری ٹیسٹ جاری ہے اور فی الحال تو ’’ من غش فلیس منا ‘‘ یعنی جس نے ملاوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں ، کے عین برعکس صورتحال سامنے آرہی ہے ۔اوگر ا کے ممبرآئل نے ایک اچھا فیصلہ کیا ہے کہ ملاوٹ پر بھاری جرمانے عائد کرنا شروع کردئیے ہیں جو کہ 5 لاکھ سے 9 لاکھ روپے تک فی پٹرول پمپ ہوسکتے ہیں مگر کنٹرول تب ہوگا جب چیکنگ اور غیر اعلانیہ چھاپوں کا یہ سلسلہ تسلسل سے جاری رکھاجائیگا ۔
لاہور شیخوپورہ روڈ پر ایک لندن پلٹ شہری نے بہت خوبصورت پٹرول پمپ بنا کر ایمانداری سے چلایا تب حکومت کمیشن بہت کم دیا کرتی تھی ۔ بھلے وقتوں میں ان کا پہلے مہینے نقصان دولاکھ روپیہ تھا، وہ اخراجات کم کرتے گئے، ہر طرح سے کنٹرول کیا مگر پیمانے اور کوالٹی پر سمجھوتہ نہ کیا تو چھ ماہ بعد ا ن کا آخری خسارہ 30 ہزا روپے ماہوار تھا ۔ انہوں نے پٹرول پمپ بند کرنے کا فیصلہ کیا تو ایک پارٹی نے کہا آپ یہی پٹرول پمپ ہمیں دس سال کیلئے کرائے پر دے دیں ۔ ہم ایک لاکھ روپیہ ماہانہ کرایہ اور ہرسال دس فیصد اضافہ دیتے رہیں گے ۔وہ سوچ میں ڈوب گئے کہ میں نے پوری کوشش کرلی مگرمیرا پٹرول پمپ خسارے سے باہر نہ نکلا یہ مجھے ایک لاکھ روپے ماہانہ کہاں سے دیں گے پھر فیصلہ کیا کہ مجھے یہ کرایہ پیمانہ کم اور ملاوٹ سے ہی ملے گا ۔ لہذا پٹرول پمپ بیچا اور دوبارہ لندن جابسے ۔
حکومت ہر پندرہ دن پٹرول کی قیمتوںمیں اضافہ کررہی ہے مگر اس کی سمگلنگ نہ تو موجوہ حکومت اور نہ ہی سابقہ حکومتوں نے روکی ۔اگرچہ بارڈر پر باڑ بھی لگ رہی ہے، بظاہر سختی بھی ہے اس کے باوجود دو دن میں ملتان و دیگر علاقوں میں غیر ملکی سمگل شدہ تیل کے ٹینکر آرڈر پر پہنچ جاتے ہیں ۔ یہ مافیا اتنا مضبوط ہے کہ چیکنگ کیلئے روکے جانے پر کسٹم کے انسپکٹر پر اس کے دفتر جا کر تشدد کرتا ہے اور پھر معافی بھی کسٹم حکام کو ہی مانگنی پڑتی ہے ۔ یہ تو معمولی بات ہے ، کوئٹہ میں تو غالباً ایک اعلی افسر قتل بھی ہوچکا ہے ۔ حکومت اگر پٹرولیم مصنوعات کی سمگلنگ ہی بند کرادے تو ملکی خزانے کو اتنی بچت ہوسکتی ہے کہ اسے ہر پندرہ دن بعد قیمتوں میں موجودہ شرح سے اضافہ نہ کرنا پڑے ۔مگر آئل مافیا کے چھ سات ناموں کے سامنے حکومت اور حکومتی رٹ کا دور دور تک وجود نہیں نظر آتا اور ہردور میں حکومتی رٹ کا ریٹ بدل جاتا ہے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہر حکومت نے مافیا کو مکمل طور پر معافی دیکر عوام پر معافی کے دروازے بند کررکھے ہیں
پس تحریر یہ ہے کہ نوائے وقت نے علی پور ضلع مظفر گڑھ کی ایک مظلوم خاتون کنیز فاطمہ پر ہونے والے ظلم کی داستان شائع کی تھی ۔وزیراعظم عمران خان کی طرف سے اس پرایکشن لے لیاگیا ہے اور ایڈیشنل آئی جی جنوبی پنجاب کے ذریعے ڈی پی او مظفر گڑھ سے رپورٹ طلب کرلی ہے ۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈی پی او مظفر گڑھ ضمیر کی روشنی میں میرٹ فیصلہ کرتے ہیں یا انہی پولیس افسران کی فرضی اور جھوٹی رپورٹ پر مہرِ تصدیق ثبت کرتے ہیں جو اس جُرم میں ملوث ہیں ۔