اکبر الہ آبادی کے افکار و نظریات (2)
اکبر الہ آبادی کا مشاہدہ انھیں یہ بتا رہا تھا کہ اس قسم کی تعلیم حاصل کر کے لوگوں میں تخلیقی صلاحتیں پیدا نہیں ہوتیں جو تعلیم کا اصل مقصد ہے۔ لوگ مغرب سے آنے والی ہر بات کو تنقید کے بغیر قبول کر لیتے ہیں اور مشرق کی ہر بات کو حقارت سے دیکھنے لگے ہیں۔ ان کا علم انگریزی علم و ادب کی نقالی سے آگے کچھ دیکھنے کی صلاحیت سے عاری رہتا ہے۔ وہ ’ملٹن‘ کے مصرعے فخر سے پڑھتے ہیں اور سعدی جیسے عظیم شخص کی تحریروں سے دامن کشاں ہیں:
فخریہ میں نے جو اشعار پڑھے سعدی کے
فخریہ آپ سنانے لگے نظمِ ملٹن
اکبر دیکھ رہے تھے کہ اس طرح کی جدید تعلیم حاصل کرنے والے مسلمان اپنی قوم کے زوال کے حقیقی مقاصد کو سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے۔ وہ اس بات سے بے خبر نہیں کہ دنیا سائنس اور ٹیکنالوجی کی مدد سے ترقی کرتی ہے۔ جن قوموں نے ترقی کی ہے انھوں نے صنعت و حرفت کو اپنایا ہے یا تجارت سے ترقی کی ہے۔ مغرب اگر دنیا پر چھا گیا ہے تو اس کی وجہ ٹیکنالوجی میں برتری ہے۔ اسی برتری نے ان کے لیے دنیا کی تسخیر سہل بنائی ہے۔ ان کے ترقی یافتہ جہازوں نے کرئہ ارض کو تسخیر کیا ہے اور اس طرح اپنی مصنوعات کو دنیا بھر میں پھیلا دیا ہے چنانچہ نو آبادیات کی دولت مغرب میں منتقل ہو رہی ہے۔ اکبر کہتے ہیں:
جیب سے مفروریِ زر بے تحاشہ دیکھیے
جلوئہ بازارِ مغرب کا تماشہ دیکھے
====
ہم سب ہیں مطیع و خیر خواہِ انگلش
یورپ کے لیے بس ایک گودام ہے ہند
اکبر تکرار سے یہ کہتے ہیں کہ ہمیں ترقی کرنی ہے اور مغرب کے استحصال سے بچنا ہے تو صنعت و حرفت کو اپنانا ہوگا:
ہر ایک کو نوکری نہیں ملنے کی
ہر باغ میں یہ کلی نہیں کھلنے کی
کچھ پڑھ کے تو صنعت زراعت کو دیکھ
عزت کے لیے کافی ہے اے دل نیکی
====
دوڑائو تدبیر کے ریشے
قوم میں پھیلیں فن اور پیشے
صناعی کے چلائو تیشے
تاکہ کٹیں افلاس کے بیشے
اکبر نے اس بات پر زور دیا ہے کہ سر سید نے جو مشن شروع کیا تھا وہ جن محدود مقاصد کے لیے تھا وہ حاصل ہو گئے ہیں مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ سرکاری ملازمتوں کے سوا ترقی کے لیے کوئی اور راستہ نہ اپنایا جائے۔ سرکاری ملازمتوں کو سب کچھ سمجھ لینا اور اسے وقار اوراختیار کی علامتیں جان لینا قوم کے مزاج میں اتنا راسخ ہو گیا ہے کہ کوئی شخص چپراسی بننا پسند کرتا ہے مگر رہڑی لگانے کو ذلت سمجھتا ہے۔ یہ مزاج ہماری قوم میں اتنا راسخ ہو چکا ہے کہ اس نے اس بات کو فراموش کر دیا ہے کہ ہمارے آبائو اجداد نے تجارت کے زور پر حکمرانی کی تھی اور یورپ بھی تجارت کے ذریعے دنیا پر قابض ہو ا ہے۔ اکبر کہتے ہیں:
قومیں پاتی ہیں تجارت سے عروج
بس یہی ان کے لیے معراج ہے
ہے تجارت واقعی اک سلطنت
زور یورپ کو اسی سے آج ہے
لفظِ تاجر خود ہے اے اکبر ثبوت
دیکھ لو تاجر کے سر پر تاج ہے
ایک مدت تک انگریزوں کے غلام رہنے اور ان کے طور پر طریقے اختیار کرنے کی وجہ سے ہم ایک ایسی قوم بن گئے جو پون صدی سے آزاد ہو نے کے باوجود ابھی تک ذہنی طور پر غلام ہے۔ملک کا پورا ڈھانچا دیکھ لیجیے۔ جاگیر دار اور سرمایہ دار ہر طرف قابض ہیں ان کی اولاد بڑے بڑے عہدوں پر فائز ہیں۔ قانون سازی ان کے ہاتھوں میں ہے۔ وہ کچھ بھی کر لیں قانون ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا۔ وہ عدالتوں کو موم کی ناک بنانے کے طریقے جانتے ہیں۔ مہنگے ترین وکیل کر کے قانون کو فریب دینا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ بڑے بڑے تعلیمی ادارے ایسی ہی کھیپ ہر طرح کے عہدوں کے لیے تیار کر رہے ہیں۔ الیکشن میں کروڑوں نہیں اربوں روپے خرچ ہو تے ہیں۔ مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والا کوئی شخص الیکشن میں کھڑے ہونے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ تعلیمی نظام بھی ویسے کا ویسا ہے۔ ہر سال ہزاروں لوگ اعلیٰ ڈگریاں حاصل کر کے قطاروں میں لگ جاتے ہیں جنھیں کچھ آتا جاتا نہیں۔ اپنے مضامین کی مبادیات سے بھی ناواقف یہ لوگ جہاں بھی جاتے ہیں نظامِ تعلیم کو خراب سے خراب تر کرتے چلے جاتے ہیں ۔ اعلیٰ تعلیم بظاہر ترقی کر رہی ہے لیکن حقیقت میں ڈگری یافتگان کی ایک بڑی تعداد جہل مرکب میں مبتلا ہے۔ بنیادی تعلیم پر کچھ توجہ نہیں ہائر ایجوکیشن کا جال ہر طرف پھیلا ہوا ہے۔ کوئی یونیورسٹی ہو یا کالج وہاں سے فارغ التحصیل لوگ کسی بھی انفرادیت اور جدت سے محروم ہیں۔ نقل در نقل کرتے کرتے ٹھیک طرح سے نقل کرنے کے قابل بھی نہیں رہے۔ ایچ ای سی جیسے ادارے تعلیم کو بڑھاوا دینے کی بجائے اس کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ تعلیمی بجٹ کو جلدازجلد کیسے برباد کیا جائے۔ ملک میں لوگ جو تعلیم حاصل کر رہے ہیں وہ بالکل بے ثمر ہے مگر ہم ’پوسٹ ڈاکٹریٹ‘ جیسے منصوبے بنا کر کروڑوں اربوں روپیہ ضائع کررہے ہیں۔ اکبر نے ہماری تعلیم کے بارے میں جو کچھ کہا تھا وہ ہم پر آج بھی صادق آتا ہے۔
عزم کر تقلیدِ مغرب کا ہنر کے زور سے
لطف کیا جو لد لیے موٹر پہ زر کے زور سے
====
عہدے جو سو پچاس کو اچھے ملے تو کیا
قائم نہ ہوگی قوم کبھی سو پچاس سے
====
انسان یا بہت سے دلوں کو ملا سکے
یا کوئی شے مفیدِ خلائق بنا سکے
ہم تو اسی کو علم سمجھتے ہیں کام کا
پڑھنے پہ مستعد ہیں جو کوئی پڑھا سکے
٭…٭…٭