حالت ِ جنگ
پاکستان ایک سکیورٹی اسٹیٹ ہے جو ہر وقت خطرات سے دوچار رہتی ہے جو بہت سی طاقتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ ہر کوئی اسے استعمال کر کے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے یہی وجہ ہے کہ پاکستان کو کبھی سکھ کا سانس نہیں آیا۔ ہم نے انہی حالات میں زندہ رہنا ہے اور آگے بڑھنا ہے۔ ان ہی وجوہات کے پیش نظر پاکستان کو ہر وقت ایک متحرک فوج کی ضرورت ہوتی ہے۔
پاکستان کی فوج اور اس کے سربراہ اسی وجہ سے اہم بھی ہیں اور دنیا کی آنکھوں میں بھی رہتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ افواج پاکستان ہمارا فخر بھی ہے۔ دشمن کی ہمیشہ سے یہ کوشش رہی ہے کہ وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کیلئے پاکستان کے اداروں میں محاذ آرائی پیدا کرے۔ وہ عوام اور اداروں کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کر کے فوج کو کمزور کرنے کی سازش کے درپے ہے۔
دوسری طرف ہر وقت حالت جنگ میں رہنے سے پاکستان کی فوج سونے سے کندن بن چکی ہے۔ ہمیں مختلف اوقات میں مختلف قسم کے خطرات کا سامنا رہتا ہے اس لیے ہمیں ہرقسم کے حالات سے نمٹنے کا تجربہ بھی ہے اور شاید ہی دنیا میں اس نوعیت کی کوئی فوج ہو گی جس کے پاس ملٹی پل تجربات اور صلاحیت ہو ۔میرے سامنے کل کی ایک خبر پڑی ہے جسے تمام اخبارات نے لیڈ سٹوری شائع کیا ہے اور ٹی وی چینلز بھی پچھلے 24 گھنٹوں سے اس پر بات کر رہے ہیں ۔
بلوچستان میں مستونگ روڈ پر ایف سی کی چیک پوسٹ پر خود کش حملہ کی خبر ہے ۔دشمن نے پاکستان کے یوم دفاع سے ایک روز قبل واردات ڈالی ہے تاکہ پاکستان جہاں یوم دفاع پاکستان کی تقریبات کا ذکر کرے جہاں قوم کو بہادری اور شجاعت کے قصے سنائے جا رہے ہوں وہیں اس دھماکے کی خبر بھی چل رہی ہو۔ اس دھماکے کی ٹائمنگ بہت اہم ہے یہ اسی طرح کی ٹائمنگ ہے جس طرح سقوط ڈھاکہ کے دن اے پی ایس سکول کا واقعہ ہوا تھا۔
بلوچستان میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعہ کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان نے قبول کر لی ہے۔
کچھ دنوں سے ایسے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے کہ ٹی ٹی پی پاکستان میں کوئی کارروائی کر سکتی۔ اس کے پیچھے بھی دشمن کے کئی مقاصد چھپے ہوئے ہیں۔ وہ ایسے واقعات کے ذریعے افغان طالبان کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنا چاہتا ہے۔
ہم سمجھتے ہیں کہ ان دہشت گردوں کا افغان طالبان سے کوئی تعلق نہیں بلکہ ان کے پیچھے بھارت اسرائیل اور ایک طاقتور ملک کی لابیاں کام کر رہی ہیں اور اس کو یہ رنگ دیا جا رہا ہے کہ طالبان نے امریکہ کے افغانستان سے جانے کے بعد افغانستان کی تمام جیلوں سے مجرموں کو چھوڑ دیا ہے جن میں پاکستان پر ماضی میں حملوں کے مجرمان بھی شامل ہیں اور انھوں نے ایک بار پھر پاکستان کو ٹارگٹ کرتے ہوئے اپنی کارروائیاں شروع کردی ہیں۔
پاکستان کے لیے یہ وقت بہت ہی حساس ہے کیونکہ طالبان کی حکومت ابھی تک معرض وجود میں نہیں آسکی۔ ان کا ابھی تک معاملات پر مکمل کنٹرول نہیں ہو سکا لہٰذا دشمن اس وقت سے فائدہ اٹھا کر پاکستان میں کارروائیوں کا ارادہ رکھتا ہے۔
ہمیں پہلے سے زیادہ چوکس رہنے کی ضرورت ہے دشمن نے بلوچستان اور گلگت بلتستان کو ٹارگٹ کیا ہوا ہے اور اس کا نشانہ پاکستانی فورسز اور پاک چین مشترکہ منصوبے ہیں۔
اس حوالے سے تین چار ماہ بڑے اہم ہیں اور خدشہ یہ بھی ہے کہ دشمن پاکستان کے اندر دہشت گردانہ کارروائیوں کے علاوہ معاشرے کے مختلف طبقات میں اختلافی امور کو ہوا دے کر ایشو کھڑے کر سکتا ہے اس لیے پورے معاشرے کو اپنی آنکھیں اور کان کھول کر رکھنا ہوں گے ہمیں الرٹ رہنا چاہیے۔ ہماری فورسز کو پہلے سے بڑھ کر اقدامات کی ضرورت ہے۔
اگر پاکستان متوقع کارروائیوں کو روکنے میں کامیاب ہو گیا تو پھر یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ اچھے دن آنے والے ہیں۔ بڑے عرصے کے بعد اللہ تعالیٰ ہمیں موقع دے رہے ہیں کہ ہم کسی کے دباو کو خاطر میں لائے بغیر اپنے مفادات کے لیے خود فیصلے کر سکیں۔ پاکستان بین الاقوامی دبائو سے آزاد ہو رہا ہے لیکن ایسے ماحول کے لیے ضروری ہے کہ پوری قوم یکجا نظر آئے۔