ڈاکٹر صفدرمحمود اور تاریخ پاکستان
ڈاکٹر صفدر محمود بھی ضیاء پاشیوں کے بعد وصال فرما گئے . وہ ہمہ صفت شخصیت کے مالک تھے. محنت شاقہ کی ایک مجسم تصویر تھے. تصنیف و تالیف کے فن کے شناور تھے. دیانت و صداقت ان پر ناز کرتی تھی. روحانیت کی گہرائی اور گیرائی سے مکمل آگاہی رکھتے تھے. شریعت پر عمل کرنے والے اور روحانیت کی کرامات پر یقین کرنے والے تھے. دوران ملازمت بھی ان کی زندگی کا محور مرکز پاکستان. تحریک پاکستان. اور قائد اعظم محمد علی جناح تھے وہ نیک نامی صلح کن فرض شناس قائد اعظم کے نامور سپاہی تھے. جب وہ وزارت تعلیم میں فیڈرل سیکرٹری کے عہدہ جلیلہ پر فائز اکثر اوقات تعلیم کی قائمہ کمیٹی میں ان سے ملاقات ہو جایا کرتی تھی. تعلیمی معاملات میں بے حد دلچسپی رکھتے تھے. علم کے معاملے میں عام اور خاص لوگوں کیلئے چشمہ فیض تھے. وہ اعلی درجے کے مصنف تھے ان کی کتابیں ان کی تحقیق اور محنت کا زندہ ثبوت ہیں انہوں نے اپنے کالموں کے ذریعے قوم کو بیدار کرنے کی انتھک کوشش کی تاریخ و سیاست کے علاوہ انہون نے روحانیت پر اپنے جذبات اور احساسات کا ذکر کیا ہے. ڈاکٹر صاحب کی کتب کے غیر ملکی زبانوں میں تراجم ہو چکے ہیں.ڈاکٹر صاحب نے چھ کتب انگریزی زبان میں تحریر. کی ہیں .ڈاکٹر صاحب سرگودھا یونیورسٹی کے ممبر سنڈیکیٹ تھے. ڈاکٹر صاحب نے سرگودھا یونیورسٹی کے فاضل وائس چانسلر محمد اکرم چوہدری سے مل کر یونیورسٹی کو عالم معیار کی بنانے کیلئے تجاوزات اور مشورے دیئے تھے. قومی احتساب بیورو نے چاند ماری کرتے ہوئے دو معزز وائس چانسلر صاحبان کو تختہ مشق بنایا تھا. وائس چانسلر محمد اکرم اور وائس چانسلر پنجاب یونیورسٹی کامران مجاہد احتساب بیورو کے عادلانہ رویے کا شکار رہے ہیں. ڈاکٹر صاحب کی عادت تھی کہ وہ شخصیات کے بارے میں کم گفتگو کرنے کہ عادی تھی شکوہ شکایت زبان پر لانا ان کے مزاج کے خلاف تھا. ضیا دور میں احباب کی شکایت پر ان کو او ایس ڈی بنا دیا گیا تھا. ڈاکٹر صاحب نے اس وقت کو غنیمت جانا اور کتابوں سے گہری شناسائی کر لی تھی. ڈاکٹر صاحب کی پاکستان اور نظریہ پاکستان سے محبت کے بارے جنرل صاحب کو معلوم ہوا تو روکھا پن کی بجائے التفات نے جگہ لے لی. میاں نواز شریف کے ابتدائی دور اقتدار میں ڈاکٹر صاحب ان کی رہنمائی کیلئے ہمیشہ وقت نکالتے تھے. ڈاکٹر صاحب تحریک پاکستان سے تعلق رکھنے اور حصہ لینے والوں کی بہت قدر کیا کرتے تھے. ان کے حلقہ رفاقت میں قومی ترانہ کے خالق حفیظ جالندھری.، محترم مجید نظامی ؒ اور استاد جناب مرزا منور شامل تھے. ڈاکٹر صاحب زود نویس تھے ان کا کہنا تھا جب تک میں لکھنے کیلئے گتہ استعمال نہ کر لوں میری تسلی نہی ہوتی ہے. پاکستان کے بارے میں ڈاکٹر صاحب نے اردو زبان کو عام طور پر ذریعہ اظہار بنایا ہے اردو میں ان کی مشہور کتب پاکستان تاریخ و سیاست. پاکستان کیوں ٹوٹا، پاکستان میری محبت.. درد آگہی. اور بصیرت وغیرہ شامل ہیں. ان کی تحقیق اور نظریات کا غیر مبہم بیان اپ کو ان کی معروف کتاب سچ تو یہ ہے میں ملے گا. اس کتاب کی خوبی و کمال یہ ہے اس کتاب میں انہوں نے شرح و بسط کے ساتھ تاریخ پاکستان کے حقائق کو مسخ کرنے والوں کے ساتھ دلیل منطق سے بات کی ہے. ڈاکٹر صاحب کا کمال تھا جب بھی وہ پاکستان پر کوئی بہتان بازی اور الزام تراشی دیکھتے ان کا مدلدل جواب دیتے تھے. پاکستان کی بجائے انڈیا میں زیادہ معروف مورخ ڈاکٹر مبارک علی نے قیام پاکستان کو انگریزوں کی خواہش قرار دیتے ہوئے یہ الزام عائد کیا کہ قرارداد پاکستان سر ظفراللہء کے ذریعے وائسرائے ہند نے مسلم لیگ کے اجلاس میں پیش کروائی تھی. سر ظفراللہ کے ڈرافٹ کو مسلم لیگ نے بلا چوں و چراں قبول کر لیا تھا. ڈاکٹر مبارک نے یہ مغالطہ ولی خان کی کتاب سے مستعار لیا تھا. پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ صحافت کے مشہور پروفیسر وارث میر نے جب ولی خان محترم سے قرارداد کے بارے میں استفسار کیا تھا تو محترم ولی خان صاحب نے فرمایا تھا میری تحقیقات ادھوری ہیں.محسوس ہوتا ہے ڈاکٹر مبارک نے قائد اعظم کے حوالے سے انگریزی اور اردو میں شائع ہونی والی کتب کا گہرا مطالعہ نہی کیا ہے ڈاکٹر صفدر محمد کی تحقیق کے مطابق 25 دسمبر 1981ء کے ڈان میں سر ظفراللہء نے اس بات کی تردید کی ہے اور مزید انہوں از راہ تفنن طبع کہا کہ نہ جانے ولی خان مجھے اس کا کریڈٹ کیوں دے رہے ہیں.آگر ہم ڈاکٹر صاحب کی کتابوں کا بنظر عمیق مطالعہ کریں تو ہم پر یہ حقیقت واضح ہو جائے گی کہ قائداعظم نے تقسیم سے پہلے 101بار اور قیام پاکستان کے بعد 14 بار پاکستان کو اسلامی جمہوری ریاست قرار دیا تھا. قائد اعظم کے ذہن میں پاکستان کے نظم مملکت کے بارے میں کوئی ابہام نہی تھا. پاکستان کے بعض سیکولر دانشور قائداعظم کی اگست 1947 کی تقریر کو سیاہ و سباق سے ہٹا کر قائد اعظم کو سیکولر بنانے اور دیکھانے پر تلے ہوئے ہیں 25جنوری 1958ء کو عید میلاد النبی کے موقع پر قائد نے کہا تھا وہ شرارتی عناصر جو کہ رہے ہیں آئین پاکستان کی بنیاد شریعت نہی ہو گی اسلامی قوانین آ ج بھی ہماری زندگی پر اسی طرح لاگو ہیں جس طرح تیرہ سو سال پہلے تھے.
ڈاکٹر صفدر محمود اسلامی فلاحی جمہوری پاکستان کے سچے داعی تھے ان کی زبان اور قلم ہمیشہ مصروف جہاد رہا ہے نظریہ پاکستان کے مخالفین کے خلاف دواشتہ تلوار تھے. ان کی ہر تحقیق کے اعلی معیارات کے مطابق ہوتی تھی. جب بھی کوئی پاکستان اور نظریہ پاکستان کے خلاف بات کرتا تھا وہ ہمیشہ تحقیق میں گندھا ہوا جواب دیتے تھے ان کی تحریروں دانش و حکمت کے موتیون سے مزین ہوتی تھیں.ہم انہی سادہ لفظوں میں محافظ نظریہ پاکستان قرار دے سکتے ہیں. ڈاکٹر صاحب نے اپنے ذاتی روحانی تعینات کو بھی بیان کیا ہے جب وہ روحانیت میں ڈوب کر لکھتے ہیں تو روح کو تازگی ملتی ہے از خود قلبی کیفیات میں دم دم مستر قلندر شروح ہوجاتا ہے. ڈاکٹر صاحب کے کلام میں اتنی چاشنی اور رعنائی ہے ۔میری نوجوان نسل کے استادہ سے گزارش ہے کہ ڈاکٹر صاحب کی کتابوں سے لوگوں کو آشنا کیا جائے مطالعہ پاکستان میں ان کی تحریر کردہ کتب کے اسباق شامل کئے جائیں. کوئی صاحب نظر ان کی تحقیقات کے مسلمات کو لوگوں تک پہچانے کا فریضہ سرانجام دے. رب کریم ہمیں ان کے مشن کو جاری رکھنے کی سعادت نصیب کرے۔