ہفتہ ‘ 1442ھ‘ 19 ؍ ستمبر 2020ء
بندوق کے سامنے بھی کہوں گا‘ حکومت دھاندلی زدہ ہے: مولانا فضل الرحمن
مولانا فضل الرحمن کی جرأت و بہادری کسی سے پوشیدہ ہے نہ حق گوئی و بے باکی ڈھکی چھپی ہے، یہ سب کچھ ان کو ورثے میں ملا ہے، ’’ایک کریلا دوسرا نیم چڑھا‘‘ کے مصداق مولانا فضل الرحمن پٹھان بھی ہیں اور ’’مولانا‘‘ بھی۔ اس ’’سابقے‘‘ اور ’’لاحقے‘‘ نے تو مولانا کو دو آتشہ بنا دیا ہے۔ پتہ نہیں ’’دھاندلی‘‘ کو بے نقاب کرنے کے لیے مولانا بندوق کو ’’درمیان‘‘ میں کیوں لے آئے ہیں، حالانکہ مولانا فضل الرحمن صرف ’’73 کے آئین کے تناظر‘‘ میں ہی بات کریں تو ’’قیامت کی نظر رکھنے والے‘‘ سب کچھ سمجھ جاتے ہیں۔
جہاں تک ’’دھاندلی‘‘ کا تعلق ہے تو یہ شور کئی دہائیوں سے سنتے آ رہے ہیں، ماضی قریب میں تو ’’35 پنکچروں‘‘ کا بڑا شہرہ رہا۔کئی حلقے کھولنے کی بات ہوئی اور کئی کھول بھی دیئے گئے تھے۔
مولانا فضل الرحمن نے اگرچہ ’’35 پنکچرز‘‘ کی طرح ’’شدومد‘‘ سے تو دھاندلی کی بات نہیں کی تاہم ’’بندوقوں اور سنگینوں کے سائے ‘ میں ’’حق گوئی‘‘ کا عندیہ دے کر اپنا احتجاج ضرور ریکارڈ کرا دیا گویا
؎سننے والے سن لیں گے تو اپنی دھن میں گاتا جا
٭…٭…٭
ملک پرمہنگی بجلی کا بوجھ (ن) لیگ چھوڑ کر گئی: عمر ایوب
’’بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی‘‘ کے مصداق عمر ایوب کی بات مان لی جائے تو پھر’’ بات نکلے گی تو دور تلک جائے گی‘‘۔ کیونکہ عمر ایوب نے ملبہ (ن) لیگ ڈال دیا، (ن) لیگ پیپلزپارٹی پر ڈال دے گی اور پھر پیپلزپارٹی سب کچھ اٹھا کر عمر ایوب کی ’’اُس وقت‘‘ کی وزارت والی حکومت کے کھاتے میں پھینک دے گی۔
ویسے بھی سیاست میں ’’ملبہ‘‘ دوسرے پر ڈالنے کا ’’رواج‘‘ اب نہ صرف ’’متروک‘‘ ہو چکا ہے بلکہ بری طرح ’’پٹ‘‘ بھی چکا ہے اور 2 سال بعد یہ کہہ کر جان نہیں چھڑائی جا سکتی کہ یہ سب کچھ سابقہ حکومتوں کا کیا دھرا ہے۔
’’اپنے کریڈٹ‘‘ پر بھی تو کچھ ہونا چاہیے ایسا نہ ہو کہ پانچ سال بعد عمر ایوب کی ’’وزیرانہ کارکردگی‘‘ کا موازنہ ان کی اپنی ماضی کی وزارت سے کیا جائے تو نتیجہ حفیظ جالندھری کے بقول یوں نکلے کہ…؎
اب تو کچھ اور بھی اندھیرا ہے
یہ میری رات کا سویرا ہے
رہزنوں سے تو بھاگ نکلا تھا
اب مجھے رہبروں نے گھیرا ہے
قافلہ کس کی پیروی میں چلے
کون سب سے بڑا لٹیرا ہے
سو رہو اب حفیظ جی تم بھی
یہ نئی زندگی کا ڈیرا ہے
٭…٭…٭
گنگولی سے پاکستانی کرکٹرز کی نمایاں تصاویر برداشت نہیں: محمد الیاس‘ سرفراز نواز
’’پیشہ وروں‘‘ میں ویسے ہی حسد، تعصب اور بغض انتہا کا ہوتا ہے، وہ اپنے ’’ہم پیشہ‘‘ کو کسی لمحہ بھی اپنے سے برتر پسند نہیں کرتے لیکن کسی فن اور ہنر مندی میں مذہبی تعصب بھی شامل ہو جائے تو پھر ’’جلتی پر تیل ڈالتا ہے‘‘ ایسا سابق بھارتی کرکٹر گنگولی نے بھی کیا۔
سارہ گنگولی کی اماراتی حکام کے ساتھ شائع تصویر کے عقب میں لگے بورڈ پر پاکستانی کرکٹرز کی تصاویر کو مدہم اور دھندلا دکھایا گیا ہے۔ جس سے سابق کرکٹر اور بھارتی کرکٹ بورڈ کے سربراہ گنگولی کے اندر کا ہندو باہر آ گیا ہے۔ ویسے بھی جب کبھی پاکستانی سٹارز کے ہاتھوں ہندو ’’سورماؤں‘‘ کی درگت بنتی ہے تو وہ مدتوں یاد رہتی ہے۔ وہ لڑاکا طیاروں کا کھیل ہو یا ہاکی، کبڈی یا کرکٹ ہو۔ بھارتی ’’ابھی نندن‘‘ کو کبھی نہیں بھول سکتے نا۔ اس پر پاکستان کرکٹ ٹیم کے سابق چیف سلیکٹر محمد الیاس اور سابق کرکٹر سرفراز نواز نے بھی شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے تاہم پاکستانی ہیروز کی پذیرائی غیور قوم کبھی کم نہیں ہونے دے گی اس لیے بھارتی تعصب پر گھبرانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس پر خوش ہونا چاہیے کہ ہم دشمن کے دل میں ہر وقت کانٹے کی طرح کھٹکتے رہتے ہیں جبکہ بھارت سمیت پوری دنیا میں پاکستانی ہیروز کی قدر ہوتی ہے، یقین نہ آئے تو گنگولی اپنے گھر کی خبر لیں۔
ہم ہیں متاع کوچہ و بازار کی طرح
اٹھتی ہے ہر نگاہ خریدار کی طرح
٭…٭…٭
ملائیشیا میں بندر شہری کا موبائل لیکر فرار‘ سیلفیاں بنا کر فون پھینک دیا
’’بندر کے ہاتھ میں ماچس‘‘ والی کہاوت تو قدیم اور عدیم الوجود ہو گئی ہے۔ یہ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کا ہی کمال ہے کہ ملائیشیا میں بندر نے شہری کا موبائل اچک لیا اور پھر خوب سیلفیاں اور ویڈیوز بنائیں۔ بندروں کی نقالی میں تو کوئی شبہ ہے نہ ان کی ذہانت میں کوئی شک ہے اور نقالی میں انسانوںجیسی حرکتیں کرتے ہیں۔ اب سیلفیاں اور ویڈیوز بنانے کی مہارت بھی بندر نے انسان کو دیکھ کر ہی حاصل کی ہے۔
اب انسانوں کو چاہیے کہ وہ کم از کم بندر سے ہی نصیحت حاصل کر لیں۔ قابل اعتراض ویڈیوز بنانا چھوڑ دیں اور خطرناک انداز میں سیلفیاں بنانا بھی ترک کر دیں جس سے کئی خطرناک حادثات اور سنگین واقعات ہوتے ہیں اور بہت سارے جان لیوابھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس لیے بندر کی ویڈیوز اور سیلفیوں کو نمونہ بنائیں۔ لگتا ہے کہ آئی ٹی اسی رفتار سے ترقی کرتی رہی تو ایک دن انسانوں کی بجائے مکمل طور پر بندروں کے کنٹرول میں ہی چلی جائے گی۔